روس اور چین کی ’لازوال‘ دوستی کا مطلب؟: صبیح احمد

0

صبیح احمد
روس اور چین کے صدور بالترتیب ولادیمیر پوتن اور ژی جنپنگ نے گزشتہ ہفتہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے ’پاور سینٹر‘ تاریخی گریٹ ہال آف دی پیپلز میں ملاقات کی، جہاں روسی رہنما کے لیے ایک شاندار استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی(پی ایل اے) کی جانب سے گارڈ آف آنر بھی شامل تھا۔ ژی کو ’میرا پیارا دوست‘ کہتے ہوئے پوتن نے کہا کہ یہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ روس اور چین کے درمیان تعلقات ’موقع پرستانہ نہیں ہیں‘ اور یہ ’کسی کے خلاف نہیں ہیں۔‘ ژی نے کہا کہ چین اور روس کی دوستی ’لازوال‘ ہے اور ’ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات کا نمونہ بن گئی ہے۔‘ دونوں رہنماؤں نے بعد میں سفارتی تعلقات کے 75 سال مکمل ہونے پر ایک کنسرٹ میں شرکت بھی کی۔

صدر پوتن کا چین کا یہ 2 روزہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے، جب روس نے یوکرین کی جنگ کے حوالے سے حالات پر سخت گرفت حاصل کرلی ہے۔ ادھر ژی حال ہی میں یوروپ کے دورے سے واپس آئے ہیں جہاں انہوں نے فرانس کے صدر کے ساتھ ساتھ ہنگری اور سربیا کے رہنماؤں سے ملاقات بھی کی۔ یہ دونوں پوتن کے دوست ہیں۔ چین اور روس کے تعلقات کے فروغ کی ایک تاریخ رہی ہے اور اس کے ارتقا میں امریکہ کا کردار رہا ہے۔ چین اور سوویت یونین کے درمیان تعلقات کی شروعات اچھی نہیں رہی تھی۔ 1949 میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد جب چیئرمین ماؤزے تنگ نے ماسکو کا دورہ کیا تو انہیں جوزف اسٹالن سے ملاقات کے لیے ہفتوں تک انتظار کرنا پڑا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ماؤ کو دارالحکومت سے باہر ایک دور دراز علاقہ میں رکھا گیا تھا جہاں ’واحد تفریحی سہولت ٹیبل ٹینس کی ایک ٹوٹی ہوئی میز تھی۔‘

سرد جنگ کے دوران، چین اور یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلک (یو ایس ایس آر) ایک دوسرے کے حریف تھے، دونوں کے درمیان عالمی کمیونسٹ تحریک کو کنٹرول کرنے کے لیے مقابلہ آرائی تھی۔ 1960 کی دہائی کے اوائل میں دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ خطرناک حد تک بڑھ گیا اور انہوں نے 1969 میں ایک مختصر سرحدی جنگ بھی لڑی۔ 1976 میں ماؤ کی موت کے بعد تعلقات میں بہتری کا آغاز ہوا، لیکن 1991 میں سوویت یونین کے انہدام تک گرم جوشی دیکھنے کو نہیں ملی۔ سرد جنگ کے بعد کے دور میں اقتصادی تعلقات نے چین-روس تعلقات کے لیے ’نئی اسٹرٹیجک بنیاد‘ تیار کی ہے۔ چین روس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور روس میں ایشیا کا سب سے بڑا سرمایہ کاری کرنے والا ملک بن گیا۔ چین دراصل روس کو خام مال کا پاور ہاؤس اور اپنی اشیا (کنزیومر گڈس) کی قیمتی منڈی کے طور پر دیکھتا ہے۔ 2014 میں کریمیا کے الحاق کے بعد روس کے خلاف مغرب کا مخالفانہ رویہ ماسکو کو بیجنگ کے قریب لے آیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ یہ مغرب ہی تھا جس نے روس کو چین کی بانہوں میں دھکیل دیا۔ حال ہی میں کولکاتہ میں ایک تقریب کے دوران مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ملک کی خودانحصاری کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ہندوستان اور چین کے تجارتی تعلقات پر بھی یہ کہتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ ہندوستان چین سے اتنی زیادہ خریداری کیوں کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا چین کے ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر تجارت کرنا ملک کے لیے درست ہے۔ حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق چین ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیئٹو کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان رواں مالی سال میں تجارت 118.4 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ چین سے ہندوستان کی درآمدات کا حجم 3.24 فیصد بڑھ کر 101.7 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ ہندوستان سے چین کو برآمدات 8.7 فیصد بڑھ کر 16.67 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔

وزیر خارجہ جے شنکر کا بیان دراصل ہندوستانی تاجروں کو یہ یاد دلانے کی کوشش ہے کہ سرحدی کشیدگی جاری ہے اور ہندوستان کو چین پر کم انحصار کرنا چاہیے۔ وزیر خارجہ کا بیان اس تناظر میں اہم ہے کہ اس قسم کے (چین پر) انحصار سے ہم ملک کے کاروباری مفادات پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ کیونکہ اگر چین مستقبل میں کسی بھی وجہ سے اپنی برآمدات روکتا ہے تو صورتحال مشکل ہوسکتی ہے۔ ’ہندوستان چین کو صرف 14 فیصد برآمدات کرتا ہے اور چین سے 86 فیصد درآمد کرتا ہے۔ ہندوستان ایسی حالت میں ہے جہاں نیپال اور بنگلہ دیش بھی نہیں ہیں۔‘ چین کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں ہندوستان کو 1962 کی جنگ کا بھی تجربہ ہے۔ 1962 میں دونوں ملکوں کے درمیان اکسائی چن کے متنازع خطہ پر جنگ ہوئی تھی جو تقریباً ایک ماہ جاری رہی تھی۔ اکسائی چن خطہ پر دونوں ممالک کا دعویٰ ہے۔ اس جنگ کے بعد اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی 1988 میں چین گئے تھے۔ ایک طرح سے یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش تھی۔ اس دوران دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر امن برقرار رکھنے کے لیے ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ یہ 1988 کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد تھی، لیکن 2020 میں گلوان وادی میں پیش آنے والے واقعہ کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں تبدیلی آگئی ہے۔

بہرحال روس اور چین کے دفاعی محور نے نئی دہلی کے لیے اہم سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ ہندوستانی دفاعی سامان کا تقریباً 60 سے 70 فیصد روس سے آتا ہے اور نئی دہلی کو خاص طور پر ایسے وقت میں جب ہندوستانی اور چینی فوجی سرحد پر گزشتہ 4 سالوں سے آمنے سامنے ہیں، باقاعدہ اور قابل اعتماد سپلائی کی ضرورت ہے ۔ مغربی تجزیہ کاروں نے ہندوستان کو ایسی صورتحال سے خبردار کیا ہے جس میں روس چین کا ’جونیئر پارٹنر‘ بن جائے۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان یہ بھی ہرگز نہیں چاہے گا کہ روسی دفاعی صنعت مغربی پابندیوں کے نتیجے میں نقصان اٹھائے۔ عموماً روس کو ہندوستان کا بہترین دوست کہا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو دونوں ممالک ایک دوسرے کا ساتھ دیتے آئے ہیں لیکن روس اور ہندوستان کی دوستی کے درمیان اب چین کی بھی انٹری ہونے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانچویں بار صدر بننے کے بعد ولادیمیر پوتن سیدھے چین پہنچے ہیں۔ درحقیقت عالمی سطح پر دیکھا جائے تو چین نے گزشتہ کچھ عرصہ سے ہمیشہ روس کا ساتھ دیا ہے۔ بیجنگ نے یوکرین جنگ میں روس کی سیاسی حمایت کی ہے۔ اگرچہ چین براہ راست روس کو اسلحہ برآمد نہیں کر رہا ہے، لیکن وہ روس کی جنگی کوششوں میں امداد کے طور پر مشینی کل پرزے، الیکٹرونکس اور دیگر سامان برآمد کرتا رہتا ہے۔ حالانکہ چین نے روس-یوکرین جنگ میں خود کو غیرجانبدار ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سبھی جانتے ہیں کہ یہ محض دکھاوے تک محدود ہے۔ ضرورت پڑنے پر چین پوتن کا ہی ساتھ دے گا کیونکہ چین اور روس نے فروری 2022 میں ’کوئی حد نہیں‘ شراکت داری کا اعلان کیا تھا۔

موجودہ حالات میں اگر ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ چھڑ جائے تو روس کیا کرے گا؟ 1962 کی جنگ کے دوران سوویت یونین کا موقف خاص طور پر ہندوستان کے حق میں نہیں تھا۔ ماسکو نے 1971 کی جنگ کے دوران اپنا تعاون کچھ حد تک بڑھایا تھا۔بہرحال یہ 1962 یا 1971 نہیں ہے اور ولادیمیر پوتن کا روس پرانا سوویت یونین بھی نہیں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS