پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

اگر ہندوستان’لکشمن ریکھا‘ پار کرپاکستان کے قبضے والے کشمیر( پی او کے) کو ہندوستان میں شامل کرتا ہے، توچین کا رد عمل کیا ہوگا؟ 16مئی کویہ سوال مرکزی حکومت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکرسے مہاراشٹر کے ناسک میں منعقد ’ وشوابندھو بھارت‘ تقریب میںکیا گیا۔ وزیر خارجہ نے جواب دیا کہ وہ لکشمن ریکھا جیسی کوئی چیز نہیں مانتے۔ انہیں لگتا ہے کہ پی او کے ہندوستان کا حصہ ہے،جوکسی کی کمزوری یا غلطی کی وجہ سے عارضی طور پر چھین لیا گیا، وہ پاس واپس آجائے گا۔پی او کے پر ہندوستان کا جائز دعویٰ ہے۔ پاکستان یا چین اس پر خودمختاری کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ ایس جے شنکر نے نام لیے بغیر آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو نشانہ بنایا۔ مقبوضہ کشمیر میں بڑھ رہی بے چینی اور تشدد کے واقعات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام گزشتہ چند برسوں سے جموں و کشمیر کی زبردست ترقی کو دیکھ اور متاثر ہو رہے ہیں،وہ کشمیر میں مثبت تبدیلیاں دیکھ کر خود سے سوال کر رہے ہیں کہ آیا ایسی چیزیں ہوسکتی ہیں؟اگر ہاں! تو پھروہ کیوں مصیبت اُٹھائیں اور بدسلوکی قبول کر رہے ہیں؟ دیکھنا ہوگا کہ یہ صورت حال کیا رُخ اختیار کرتی ہے؟ مظفرآباد میں افراتفری ہے۔ بڑھتی مہنگائی اور اُونچے برقی بلوں سے بیزارعوام احتجاج کر رہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر ہندوستان(کاحصہ)ہے،جو یقینا واپس ہوگا۔ اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ بلوچستان سمیت کئی دیگر حصوں میں مسائل کا سامنا ہے۔ معاشی مشکلات سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔ ہندوستان کو پاکستان کی اصلاحات اور پالیسیوں پر نظر رکھنی ہوگی۔ ہندوستان سے مخالفت کی پالیسی نے پاکستان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے، جہاں وہ آج ہے۔ بھارت کو اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے اور خود پر اعتماد کی ضرورت ہے۔ ماضی میں چین کے اقدامات اوراس کے پاکستان کے ساتھ تعاون سے سبھی واقف ہیں۔ بارہا بتایاجا چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پرنہ تو پاکستان دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ ہی چین۔ خودمختاری کا دعوے دار صرف ہندوستان ہے۔ قانونی ملکیت ہماری ہی ہے۔ 1963 کے معاہدے کے مطابق پاکستان اور چین دوستی کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیاتھا۔ پاکستان نے چین کی قربت پانے کے لیے اپنے زیر قبضہ تقریباً 5,000کلومیٹر کا کچھ حصہ چین کو سونپ دیا۔ معاہدے میں درج ہے کہ چین اس علاقے کے پاکستان یا ہندوستان کا ہونے کا احترام کرے گا۔کئی روز قبل پال گھر میں انتخابی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی اسی طرح کے بیانات دیے تھے۔

دراصل،جموں و کشمیر ریاست میں انگریزوں کے قبضے کے دوران ہی آزادی کی تحریک شروع ہوگئی تھی۔ انگریزوں نے16مارچ1846کو امرتسر معاہدے کے تحت کشمیر کو 75لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض اپنے وفادار گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کردیاتھا۔اسی کے ساتھ جموں و کشمیر کا تمام علاقہ، آبادی اور وسائل گلاب سنگھ ڈوگرہ کو منتقل ہوگئے۔ کشمیر میں80فیصد مسلم آبادی تھی اور اس کی 965.60 کلومیٹر لمبی سرحد پاکستان سے ملتی تھی۔ ڈوگرہ حکمران انگریزوں سے زیادہ مسلمانوں پر تشدد اور نفرت کرتے تھے۔ ان کی نفرت اور تعصب کا اندازہ اسی سے ہوجاتا ہے کہ وہ دوپہر سے پہلے کسی مسلمان کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں کو دوپہر سے پہلے ڈوگرہ حکمران کے سامنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اسلام دشمنی کی بنا پر مساجد کو گھوڑوں کے اصطبلوں اور بارود خانوں میں تبدیل کیا گیا تھا۔مسلمانوں کو اذان دینے اور جمعہ و عیدین میں خطبہ پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس غیر انسانی سلوک کے خلاف آواز بلند کرنے پر ڈوگرہ حکمرانوں نے پونچھ کے مسلمان رہنما سردار سبز علی خان اور ملی خان کی زندہ کھالیں اُتروالیں۔ مظالم کے خلاف کشمیری بیدار ہوکر منظم ہونے لگے اور پھر کئی تنظیمیں قائم ہوگئیں۔ 1929 میں شیخ عبداﷲ نے سری نگر میں ’ ریڈنگ روم پارٹی‘تنظیم بنائی تو چودھری غلام عباس اور اے آر ساغر وغیرہ نے ’ینگ مین ایسو سی ایشن‘ کی بنیاد رکھی۔ 1931میں بریلی کی ایک مسجد شہید کرنے اور پولیس اہلکار کے قرآن مجید کی بے حرمتی کرنے کے بعد مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے سڑکوں پر احتجاج و مظاہرے کیے تو پولیس نے مظاہرین کو گرفتار کرک13جولائی1931کو عدالت میں پیش کیا۔ مسلمانوں نے عدالتی کارروائی سننے کا مطالبہ کیاتو پولیس نے نہتے مسلمانوں پرتابڑتوڑ گولیاں چلائیں۔ 27 مسلمان شہید اور بے شمار زخمی ہوئے۔مظالم کی خبریںپھیلتے ہی مسلمانوں میں اپنے مستقبل کو لے کر تشویش پیدا ہوئی۔اسی کے ساتھ کشمیری مسلمانوں میں اتحاد کی فضا قائم ہوئی اور 14اگست 1931 کو پہلی مرتبہ جموں میں ’ کشمیر ڈے‘ منایا گیا۔ اکتوبر 1931 میں پنجاب میں ’چلو چلو کشمیر چلو‘ کی صدائیں گونجیں تو برطانیہ سرکار نے مداخلت کرکے ڈوگرہ حکومت سے مظالم روکنے کو کہا۔1932میں لندن میں گول میز کانفرنس میں متحدہ ہندوستان کے آئین پر اتفاق رائے ہوا،لیکن چودھری رحمت علی نے اسے مسلمانوں کے لیے ’ڈیتھ آف وارنٹ‘بتا کر مسترد کر دیا اور 28جون1933کو ’پاکستان‘ نام سے علیحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ کیا۔ 3جون 1947 کو تقسیم ہند کا فارمولہ منظور ہوا اور برصغیر کی 562 ریاستوں کو اپنے جغرافیائی، معاشرتی اور سماجی حقائق اور آبادی کی خواہشات کے مطابق ہندوستان یا پاکستان میں الحاق کا اختیار دیا،لیکن مسلم لیگ نے حیدرآباد کی اہل مال ریاست کو پاکستان سے الحاق کے مدنظر ریاست کے حکمرانوں کو الحاق کے فیصلے کے اختیار کا مطالبہ کیا۔اسی دوران ہندوستان نے فوج بھیج کر حیدرآباد پر بھی قبضہ کر لیا۔وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو رجواڑوں کو ہندوستان سے الحاق کی ذمہ داری سونپی گئی۔ کشمیر،جوناگڑھ اور حیدرآباد دکن کے علاوہ باقی سب کا الحاق ہو گیا۔ سیرل ریڈ کلف کمیشن کی تشکیل ہوئی۔کمیشن کے مسلم اکثریت والے گر داس پور کو ہندوستان کے حصے میں ڈالنے سے بھارت کو کشمیر تک رسائی کا واحد راستہ مل گیا۔ تقسیم ہند اور ریڈ کلف کی بے ضابطگیوں کے نتیجے میں ہندو اور مسلموںکی ہجرت کے دوران کثیر تعداد میں قتل وغارت اور ہلاکتیں ہوئیں۔ سیاسی کشیدگی میں اضافے سے کشمیری مظاہرین سڑکوں پر آگئے۔ پونچھ کے5لاکھ مسلمانوں میں سے2 لاکھ کی ہلاکت کا الزام مہاراجہ کی فوج پر لگا،جو بچ گئے،وہ پاکستان چلے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ

22اکتوبر1947کو پاکستان کے صوبے سرحد کے قبائلیوں نے کشمیر پر حملہ کردیا۔ قبائلی حملے کے بعد 25اکتوبر 1947کو مہاراجہ جموں بھاگ گئے اور دہلی سے فوجی مدد کی درخواست کی۔بھارت نے الحاق کے بغیر مددسے انکار کر دیا۔ 26اکتوبر1947کو مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کابھارت کے ساتھ الحاق کرتے ہوئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو خط لکھا۔ 27 اکتوبر 1947کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے عوامی رائے شماری کی شرط پر معاہدہ قبول کیا۔ جموں میں معاہدے پر دستخط ہوئے۔ 15اگست 1947 سے پہلے کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ نہیں لینے سے برطانیہ کی بالادستی ختم ہو گئی اورکشمیر آزاد ہوگیا۔ 27 اکتوبر 1947کو جہاز وں کے ذریعہ فوجی کشمیر میں اُتارے گئے۔ فوج کے قبائلیوں کے قبضے والے کشمیر میں داخل ہوتے ہی بھارت – پاکستان میں جنگ شروع ہوگئی۔ جنگ بندہوئی تو ہندوستان نے سری نگر، جموں اور لداخ سمیت کشمیر کے کچھ حصوں پر قبضہ کرلیا۔ پاکستان نے کشمیر کے مغربی حصے پر کنٹرول حاصل کرکے اسے آزاد کشمیر نام دیا۔ 1948میں ہندوستان نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے پاکستان کی شکایت کی۔ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 1965، 1971 اور 1999 میں جنگیں ہوچکی ہیں۔ان سب کے باوجود کشمیر کا مسئلہ ابھی بھی اپنے حل کا منتظر ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS