دفعہ124A کے جواز کا معاملہ پھر سپریم کورٹ کے روبرو

0
دفعہ124A کے جواز کا معاملہ پھر سپریم کورٹ کے روبرو

خواجہ عبدالمنتقم

بغاوت جسے سرکشی، غداری یا فتنہ انگیزی کا نام بھی دیا جا سکتا ہے، جیسے جرم اور اس کے لیے سزا کے جواز کو ایک طویل عرصہ سے عدلیہ کے روبر کتنے ہی معاملوں میں (بشمول ونود دوا، دشاروی، عائشہ سلطانہ و صدیق کپن والے معاملے) تنقید کانشانہ بنایا جاتا رہا ہے مگر جب تک کوئی قانون ملک کی قانونی کتابوں میں موجود ہے اور نافذالعمل ہے، اس سے انحراف تب تک ممکن نہیں جب تک کہ سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار نہ دے دے یا حکومت اس کو حذف نہ کردے یا اس میں ترمیم نہ کر دے۔اب یہ معاملہ بغرض سماعت پھر ایک بار سپریم کورٹ کے روبرو ہے۔ویسے توچیف جسٹس آف انڈیا اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ پہلے ہی اس دفعہ کے بارے میں اپنی اس ضمنی رائے(جو قابل احترام تو ہوسکتی ہے مگر قابل پابندی نہیں ہوتی) کا اظہار کرچکے ہیں کہ اس دفعہ کو برقرار رکھنا قرین مصلحت نہیں۔چیف جسٹس رمنا کا تو یہ کہنا ہے کہ دفعہ124Aدور گزشتہ یعنی برطانوی دور حکومت کی نشانی ہے۔ اس دفعہ کو بار بار اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کہ یہ آئین کے ذریعہ عطا کی گئی ا ظہار خیال کی آ زادی پر کاری ضرب ہے اور کبھی کبھی اس کا استعمال معاندانہ و انتقامی کارروائی کے طور پر بھی کیا جاتا رہا ہے۔
مجموعہ تعزیرات بھارت کی دفعہ 124A میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ جو کوئی بذریعہ الفاظ زبانی یا تحریری یا واضح اشارات یا دیگر طور پر قانون کے ذریعہ قائم کی گئی حکومت کو معرض نفرت یا حقارت میں لائے یا لانے کا اقدام کرے یا اس کی نسبت بدخواہی کے لیے جوش دلائے یا دلانے کا اقدام کرے اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ جرمانہ بھی کیا جائے گا یا 3سال تک کی سزا مع جرمانہ دی جاسکتی ہے یا محض جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ اس دفعہ کی پہلی تشریح میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ بدخواہی میں عدم وفاداری کے ساتھ ساتھ ہر طرح کا جذبۂ دشمنی بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی اس کی دوسری تشریح میں حکومت کے کن ہی اقدامات کی ناپسندیدگی کی بابت تبصرہ کرنا اور نفرت، حقارت یا بدخواہی پیدا کیے بغیر ان اقدامات میںجائز طریقے سے تبدیلی چاہنا اس دفعہ کے تحت جرم نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس دفعہ کی تیسری تشریح میں اس بات کو بھی واضح کردیا گیا ہے کہ حکومت کی کسی انتظامی یا دیگر کارروائی کی ناپسندیدگی کی بابت تبصرہ کرنا اور نفرت، حقارت یا بدخواہی پیدا کیے بغیر ان اقدامات میں جائز طریقے سے تبدیلی چاہنا بھی اس دفعہ کے تحت جرم نہیں ہے۔
اس طرح اس دفعہ پر محض ایک نظرطائرانہ ڈالنے سے اورسپریم کورٹ کی مختلف نظائر کی روشنی میں، جن میں سے کچھ کا ذکر مابعد کیا گیا ہے، یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ حکومت کے کسی اقدام کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا اور حکومت کے خلاف نفرت وحقارت یا بدخواہی پیدا کیے بغیر ان اقدامات کی آئینی یا قانونی طور پر تبدیلی چاہنا فتنہ انگیزی کے زمرے میں نہیں آتا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اگر کوئی شخص ایسی حرکت اس غرض سے کرے کہ وہ حکومت کے خلاف بدخواہی کے جذبات بھڑکائے وہ غداری یا فتنہ انگیزی کا مرتکب ہوگا۔ یہ رائے ہماری سپریم کورٹ کی بھی رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کینی اور سر جیمس اسٹفین، جنہیں اصول قانون کے حوالے سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ان کی بھی کم وبیش یہی رائے ہے۔ اسی طرح ہیلسبری نے، جنہیں ہندوستان کے قوانین وضع کرنے کی نسبت حیثیت سربفلک حاصل ہے، انہوں نے بھی seditionکے برطانوی پس منظر میںلگ بھگ ہم معنی لفظ treason یعنی بغاوت کی تعریف کرتے وقت یہ لکھا ہے کہ یہ اصطلاح اپنے وسیع قانونی مفہوم میں اس حکومت سے، جو قانونی طور پر قائم ہو، سرکشی کرنے اور اس کے مقابل ہوکر جنگ کا اقدام کرنے یا ایسی جنگ میں اعانت کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ لفظseditionکا استعمال دفعہ 124Aکی عبارت میں نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کا استعمال محض اس کی عبارت حاشیہ (marginal note) میں کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کتنے ہی معاملوں میں اپنی اس رائے کا اظہار کرچکی ہے کہ حاشیہ کی عبارت قانون کا جز نہیں ہوتی اور نہ اس سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اگر دفعہ کا متن مبہم اور غیرواضح ہو تو اس سے مدد لی جاسکتی ہے۔ جہاں تک اس عبارت میں شامل جرم کی بات ہے، اس کی بابت بلونت سنگھ بنام ریاست پنجاب (1995) 3ایس سی سی214 )میں سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ دفعہ 124A کے تحت اثبات جرم کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ مجرم نے متنازع الفاظ اپنی زبان سے ادا کیے اور اس طرح قانون کے ذریعہ قائم کی گئی حکومت کومعرض نفرت یا حقارت میں لایا یا لانے کا اقدام کیا یا اس کی نسبت بدخواہی کے لیے جوش دلایا یا دلانے کا اقدام کیا۔ کیدار ناتھ سنگھ بنام ریاست بہار والے معاملے (1962 SCR Supl. (2) 769) میں سپریم کورٹ اس دفعہ کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرچکی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی کہہ چکی ہے کہ صحافیوں کے اظہار خیال کی آزادی کا تحفظ بھی لازمی ہے۔ اسی نظیر پر rely کرتے ہوئے ونود دوا والے معاملے میں یہ بات واضح کرتے ہوئے کہ ہر شہری کو حکومت اور ارباب حکومت کی تنقید اور تبصرہ کا حق صرف اس شرط پر حاصل ہے کہ وہ لوگوں کو سرکار کے خلاف تشدد کے لیے آمادہ نہ کرے، سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ ونود دوا کو بغاوت جیسے جرم کا مرتکب نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ ان کے ذریعہ مستعمل الفاظ سے امن و امان کو کسی قسم کا خطرہ لا حق نہیں ہوا اور یہ کہ صحافیوں کے اظہار خیال کی آزادی جیسے حق کا تحفظ لازمی ہے۔
جہاں تک لفظ seditionکا سوال ہے، اس کے لیے انگریزی دور حکومت میں تو لفظ غداری یا بغاوت کا استعمال کسی حدتک صحیح ہوسکتا تھا لیکن ہمارے ملک میں جہاں جمہوریت اپنی جڑیں نہایت مضبوطی کے ساتھ جما چکی ہے اور جہاں معقولیت کی حدود میں رہتے ہوئے اور مفاد عامہ، امن عامہ اور ملک کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور کوئی بھی رائے قائم کرنے کی مکمل آزادی ہے اور یہاں اپنی حکومت ہے نہ کہ کسی غیرملک کی ،اس لیے اب اس اصطلاح کی عبارت کو بدلنے اور اس جرم کو نیا نام دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارا لاء کمیشن اپنی 43ویں رپورٹ میں خود اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ہمارے ملک میں treason, sedition اور اس طرح کی ہم نسبتی اصطلاحات کی بنیاد غیرملکی قوانین پر رکھی گئی ہے نہ کہ مجموعہ تعزیرات بھارت پر، یہ سجھاؤ دے چکا ہے کہ اس معاملے پر الگ سے باقاعدہ غور کیا جائے اور ان تمام اصطلاحات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے۔
اب رہی بات دفعہ 124A کو حذف کرنے کی یا اس کی عبارت یا عبارت حاشیہ میں ترمیم کرنے کی یا اسی طرح قائم رکھنے کی تو اب گیند عدلیہ اورسرکار کے پالے میں ہے البتہ یہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ برطانیہ تک نے بھی، جس سے ہمیں بیشتر قوانین وراثت میں ملے ہیں، اسے اپنے قانون میں سے نکال دیا ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS