بلال کریم مغل
حال ہی میں اپنے لیے ایک نیا سمارٹ فون لینے کا اتفاق ہوا جس میں آٹھ جی بی ریم، 128 جی بی کا سٹوریج اور نہ جانے کیا کچھ فیچرز تھے۔اپنے دوست کے ساتھ اسے کھول کر آن کرتے ہوئے ہم کافی دیر تک اس حوالے سے بات کرتے رہے کہ جب ہمارے بچپن میں پاکستان میں پرسنل کمپیوٹرز لوگوں کے گھروں تک نئے نئے آنے لگے تھے، اُس وقت کے بھاری بھرکم اور مہنگے ترین کمپیوٹرز بھی آج کے دور کے ایک سادہ اور سستے سے سمارٹ فون کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔کچھ دیر کے لیے 2003 میں اپنے پہلے کمپیوٹر سے لے کر اپنے جدید ترین گیجٹ تک کا وقت ذہن میں گھوم گیا۔اور یہ تو صرف گذشتہ 20 برس میں ہونے والے ارتقا کی کہانی ہے۔آج سے 39 سال قبل 12 اگست 1981 کو آئی بی ایم نے پرسنل کمپیوٹر کے نام سے پہلا ایسا کمپیوٹر مارکیٹ میں متعارف کروایا تھا جو آج کے تمام موجودہ پرسنل کمپیوٹرز کا جد ہے۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر میں پہلا نیا نیا کمپیوٹر 2003 میں آیا تھا۔ اس وقت ہماری خوشی دیدنی تھی۔ کمپیوٹر بمشکل ہی چلانا آتا تھا اور ساری توجہ بس گیمز پر ہوتی تھی یا کبھی کوئی انٹرنیٹ کارڈ استعمال کر کے براؤزنگ وغیرہ کر لیا کرتے تھے کیونکہ ڈاؤن لوڈنگ جتنی سپیڈ تو آتی ہی نہیں تھی۔اُس وقت ہمارے کمپیوٹر کی ریم صرف اور صرف 128 میگابائٹ تھی جو کہ ونڈوز 98 چلانے کے لیے کافی اور ونڈوز ایکس پی چلانے کے لیے بالکل ناکافی تھی۔
کیا آپ اس کمپیوٹر کے لیے ساڑھے چار ہزار ڈالر دینے کا سوچ سکتے ہیں؟آج کے دور کے حساب سے دیکھیں تو شاید 128 ایم بی ریم کا سوچ کر ہی عجیب لگے کہ کیا ریم اتنی کم بھی ہو سکتی ہے؟تو جناب اپنی حیرانی کو تھوڑا بچا کر رکھیں کیونکہ آپ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ آئی بی ایم کے جاری کردہ پہلے پرسنل کمپیوٹر کی زیادہ سے زیادہ ریم 640 کلو بائٹ تھی۔
اور اگر آج کے دور کے حساب سے اس کی قیمت کا موازنہ کریں تو یہ کوئی ساڑھے چار ہزار ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔کمپیوٹنگ کی دنیا میں ترقی کا سفر ہر گزرتے دن کے ساتھ تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ فون پراسیسرز بھی نت نئی ایپلیکیشنز چلانے کی اہلیت ہر چند ماہ میں کھونے لگتے ہیں اور ہر نیا ویڈیو گیم آپ کو یہ احساس دلاتا ہے کہ آپ کے پاس موجود کمپیوٹر اسے ہچکیاں لے لے کر ہی چلا سکتا ہے۔تو بات ہو رہی تھی ہمارے نئے نویلے کمپیوٹر کی۔ چند ماہ بعد دل چاہا کہ اس کمپیوٹر میں ونڈوز 98 کے بجائے ونڈوز ایکس پی ہونی چاہیے، سو اس کا پہلا مرحلہ اس کی ریم 256 ایم بی تک بڑھوانا تھا۔وہ بھی کروا لیا تو معلوم ہوا کہ بہت سے پسندیدہ گیمز ایسے ہیں جو گرافکس کارڈ کے بغیر نہیں چل سکتے۔
کہا جاتا ہے کہ کمپیوٹرز اور کمیونیکیشن کی دوڑ میں جیت کمیونیکیشن کی ہوئی ہے، یعنی ہمارے پاس موجود مواصلاتی ذرائع جتنا ڈیٹا ایک وقت میں منتقل کر سکتے ہیں، ہمارے کمپیوٹرز اُس ڈیٹا کو اتنی جلدی پراسیس نہیں کر سکتے۔اسی طرح کمپیوٹرز اور ہماری جیب کی دوڑ میں ہماری جیب کہیں دور دور رہ گئی ہے کیونکہ کمپیوٹرز میں جتنی جلدی ترقی ہو رہی ہے، اتنی جلدی ہماری ترقی نہیں ہو رہی۔ اسی لیے ہم نت نئے گیمز کھیلنے میں کچھ خاص کامیاب نہیں رہے ہیں۔
آج اگر کسی بچے کو فلاپی دکھائی جائے تو وہ شاید یہ سمجھیں کہ ہم نے سیو آئیکن کا تھری ڈی پرنٹ نکال لیا ہےاور یہ معاملہ صرف ہم اور ہمارے کمپیوٹر تک محدود نہیں، بلکہ آئی بی ایم کے اپنے پہلے کمپیوٹر کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا۔پہلے پرسنل کمپیوٹر کی ریلیز کے دو سال بعد مارچ 1983 میں آئی بی ایم نے اپنا دوسرا کمپیوٹر ریلیز کیا جو کہ تھا تو پہلے کمپیوٹر جیسا ہی مگر اس کے اندر 10 میگا بائٹ کی ہارڈ ڈرائیو پہلے سے نصب تھی۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ تو پہلے پرسنل کمپیوٹر کی ہارڈ ڈرائیو کہاں تھی اور کتنی تھی؟ تو جناب بات یہ ہے کہ اس کمپیوٹر میں کوئی ہارڈ ڈرائیو تھی ہی نہیں۔اس میں ڈیٹا کو کمپیوٹر سے باہر سٹور کرنے کے لیے ایک یا دو فلاپی ڈرائیوز ہوا کرتیں جس سے مطابقت رکھنے والی ہر فلاپی 320 کلوبائٹ ڈیٹا سٹور کر سکتی تھی۔
اور 10 میگا بائٹ سے شروع ہونے والا یہ سفر اب ہمارے سستے سے لیپ ٹاپ کی ایک ٹیرابائٹ ہارڈ ڈرائیو، 256 گیگابائٹ کی ایس ایس ڈی ہارڈ ڈرائیو، 2 ٹی بی کی ایکسٹرنل ڈرائیو اور 32 جی بی کی یو ایس بی تک پہنچ چکا ہے۔سٹوریج اس قدر زیادہ ہو چکا ہے کہ اسے بھرنا مشکل لگتا ہے، جبکہ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے نئے کمپیوٹر میں جو بھاری بھرکم سی ہارڈ ڈسک لگی ہوئی تھی، اس میں سے ہر وقت کچھ نہ کچھ ڈیلیٹ کرتے رہنا پڑتا تھا کیونکہ سٹوریج تھا ہی اتنا کم۔پھر ایک وہ وقت بھی آیا جب ہم نے بالآخر اپنے کمپیوٹر میں 40 جی بی کی ہارڈ ڈرائیو لگوا کر اپنی پہلی یو ایس بی ڈرائیو خریدی جو پورے 256 ایم بی کی تھی۔ہمارے خالو نے اُس وقت پر کہا تھا کہ 40 جی بی بھرتے بھرتے تھک جاؤ گے مگر بھرے گی نہیں۔اُس وقت کے لیے تو یہ بات ٹھیک تھی مگر چند ہی برس میں وہ نوبت آ گئی کہ ہمیں ہارڈ ڈرائیو بڑھوا کر پہلے 256 اور پھر 512 جی بی پر لے کر جانی پڑی۔دکان پر کھڑے ہو کر اپنا نیا کمپیوٹر بنتے دیکھ کر جو نشہ سا طاری ہونے لگتا ہے وہ بات بنا بنایا لیپ ٹاپ لینے میں کہاں؟
مگر پرسنل کمپیوٹرز کی ترقی کا سفر اُس وقت اتنا تیز رفتار نہیں رہا جس کی بنیادی وجوہات یہ تھیں کہ مارکیٹ میں اتنے زیادہ فیچرز کی طلب نہیں تھی۔ کمپیوٹرز کے لیے ونڈوز آپریٹنگ سسٹم پہلی مرتبہ نومبر 1985 میں لانچ کیا گیا۔ اُس سے پہلے تک کمپیوٹرز پر زیادہ تر کام ڈوس جیسے کمانڈ لائن طرز کے پروگرامز کے ذریعے ہی کر لیا جاتا تھا۔تاہم ونڈوز کی لانچ کو گھریلو استعمال کے کمپیوٹرز کی ترقی کے لیے ایک اہم سنگِ میل تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد کمپیوٹر ہر ایسا شخص استعمال کر سکتا تھا جو کمانڈ لائن یا پروگرامنگ سے واقف نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ بچے بھی جنھیں پیچیدہ کمانڈز اب یاد کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
دنیا میں کمپیوٹر چپس کی کمی سے آپ کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا؟کمپیوٹر کوڈنگ سیکھنے سے ‘آپ کی زندگی بدل جائے گی‘۔’ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے کون کون سی پورن ویڈیوز اپنے کمپیوٹر میں رکھی ہوئی ہیں‘
تاہم جب ہم سکول میں تھے تب بھی ایک عرصے تک ڈوس سکھایا جاتا رہا کیونکہ ہم ونڈوز 98 اور ونڈوز ایکس پی کے دور میں بڑے ہوئے ہیں جس میں پھر بھی ان پروگرامز کی کچھ نہ کچھ ضرورت پڑ جایا کرتی تھی۔سکول میں ایک ایک کمپیوٹر کے آگے چار چار بچے گھیرا بنا کر بیٹھے رہتے۔ کوئی اپنی باری کا چپ چاپ انتظار کرتا رہ جاتا تو کوئی سب کے ہاتھ پرے ہٹا کر خود ماؤس کنٹرول کرنے کا اعزاز حاصل کر لیتا۔ اور پھر اسے روکنے کے لیے دوسرے بچے کی بورڈ پر حملہ کر دیا کرتے۔کمانڈ لائن پر کام کر کے ہم خود کو پروگرامر سمجھتے تھے مگر اب یو ایس بی کے ذریعے 10 منٹ میں ونڈوز انسٹال کر لینے والے لوگ ہمارے دور کی پریشانیوں کو کیا جانیں جب ہم ایک ایک سی ڈی کے لیے دھکے کھاتے پھرتے تھے، یا پھر چار سی ڈیز میں آنے والا کوئی بڑا ویڈیو گیم انسٹال کرتے وقت ایک کے بعد ایک سی ڈیز بدلتے رہتے تھے۔نہ ہی یہ نسل وہ وقت جانتی ہے جب ونڈوز 98 اور ایکس پی میں ہم ڈائل اپ انٹرنیٹ کا کارڈ کھرچ کر کمپیوٹر کے ذریعے نمبر ڈائل کیا کرتے تھے اور کنیکٹ ہونے کی ٹون کو نہایت غور سے سنتے ہوئے ٹون سے اندازہ لگانے کی کوشش کرتے تھے کہ انٹرنیٹ کنیکٹ ہونے والا ہے یا نہیں۔مجھے خود ذاتی طور پر آج تک ڈیسک ٹاپ پر کام کرنا اور گیمز کھیلنا پسند ہے۔ پتا نہیں لوگ یہ سب کچھ لیپ ٹاپ اور سمارٹ فون پر کیسے کر لیتے ہیں۔ ہمارے پاس پہلی مرتبہ لیپ ٹاپ 2010 میں آیا تھا۔
اس وقت شروع شروع میں اس کو چلانے میں مزا آیا تھا مگر جب اس میں اپنا پسندیدہ ویڈیو گیم گرینڈ تھیفٹ آٹو فور انسٹال کیا تو سکرین نے کچھ خاص مزا نہیں دیا۔ سو بڑی مایوسی ہوئی۔ ویسے بھی ویڈیو گیمنگ کا سب سے زیادہ مزا کمپیوٹر پر ہی آتا ہے سو ایک نیا کمپیوٹر لینے کی ٹھانی۔
ہماری عمر کے جتنے بھی لوگ ہیں وہ سب کبھی نہ کبھی کمپیوٹر لینے کے تجربے سے گزر چکے ہوں گے، گو کہ اب وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ تر لوگ لیپ ٹاپ لینا ہی پسند کرتے ہیں۔غالباً مشتاق احمد یوسفی نے کہا تھا کہ پڑھانے اور اپنے آپ کو استاد کہلوانے میں جو سو بوتلوں کا نشہ ہے وہ بادشاہی میں ہو تو ہو، ورنہ دنیا کا ہر مزہ اس کے سامنے ہیچ ہے۔ہمارا کہنا ہے کہ اس میں نیا کمپیوٹر بنوانے کا نشہ بھی شامل کر لیں تو کیا ہی بات ہے۔دکان پر خود کھڑے ہو کر ایک ایک کمپونینٹ کو بے تابی سے کمپیوٹر کی نئی کیسنگ میں فٹ ہوتے ہوئے دیکھنے اور دل ہی دل میں اس کمپیوٹر پر ویڈیو گیمز کھیلتے ہوئے تصور کرنے میں جو مزا ہے، وہ بنا بنایا لیپ ٹاپ لینے میں کہاں؟
سو اب کی بار ایک سرکاری ادارے کی نیلامی سے پرانا مگر برانڈڈ کمپیوٹر خریدا۔ اس کی سکرین اور پاور سپلائی ‘نسلی قسم کی تھی۔ اس میں خود نئی ہارڈ ڈسک، نئی ریم، نیا ساؤنڈ کارڈ اور نیا گرافکس کارڈ گھر پر ہی لگا کر اسے گیمنگ کمپیوٹر کا روپ دیا اور بالآخر برسہا برس بعد جی ٹی اے فور کو بڑی سکرین پر کھیلنے کا شوق پورا کیا۔
پھر دو سال قبل اسلام آباد منتقل ہونے کا موقع ملا تو یہاں آ کر ہم نے ایک نیا لیپ ٹاپ خریدا کیونکہ کام کی مجبوری اب ایسی ہے کہ کہیں بھی لیپ ٹاپ لے کر روانہ ہونا پڑ سکتا ہے۔مگر دل اب بھی کراچی میں رکھے نیلامی سے حاصل کردہ اپنے اُسی کمپیوٹر کی جانب لگا رہتا ہے جسے ہم نے بہت چاؤ سے بنایا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایک خوشبو تک آپ کو ماضی میں لے جا سکتی ہے۔ اسی طرح نئے کمپیوٹر پارٹس کے پلاسٹک کی وہ بھینی بھینی سی خوشبو محسوس کرنے، کمپیوٹر کھول کر، اس میں بلوور کے ذریعے مٹی صاف کرنے میں اور طرح طرح کی کیبلز ادھر سے ادھر سوئچز میں لگانے کا اپنا ہی ایک لطف ہے۔شاید ایسا اس لیے بھی ہے کیونکہ اس سے بچپن کی بہت سی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے یہ مزہ آج کے کسی لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون میں نہیں آتا۔آج کے گیجٹس کام تو دے جاتے ہیں، لیکن ان سے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کارڈ والا جذباتی تعلق پیدا نہیں ہو پاتا۔