افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئے دوسال سے زیادہ کا وقت گزرچکاہے، مگر اس طویل مدت میں افغانستان کے حکمرانوں نے اپنے کسی قول یا عمل سے یہ ثابت نہیں کیاہے کہ انہوں نے گزشتہ بیس سال کی ناٹو اور مغربی ممالک کے اتحاد کے ساتھ جنگ یا دوسرے الفاظ میں کہیں کہ یکطرفہ کوئی بھی جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے ۔ یہ ملک بیس سال تک طاقتور، دولتمند ، جدید اسلحہ سے آراستہ ممالک سے لوہا لیتا رہا اگر چہ افغانستان کے لوگوں کی شجاعت اور بہادری بے مثال ہے اور اس غیورقوم نے کسی بھی استبدادی طاقت کے آگے سر نہیں جھکایا ، چاہئے وہ سویویت یونین عظیم ملک ہو یا چوبیس ملکوں کی ناٹو کی طاقت ہو۔مگر یہ بہادری اپنی جگہ درست ہے کہ اکثر اوقات افغانستان کے حکمرانوں اور خاص طور پرمذہبی جذبے سے شرشار طالبان نے پر امن طور پر اہل افغان کو زندگی گزار نے کے مواقع سے مرحوم رکھاہے۔یہ بات اس لئے بھی کہنا ضروری ہے کہ ناٹو افواج کے دوسال کے اخراج کے بعد آج تک کسی ملک سے طالبان نے سفارتی تعلقات قائم نہیں کئے ہیں یعنی یہ ملک ابھی پوری دنیا سے بالکل کٹا ہوا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ افغانستان کی سر زمین گزشتہ بیس سال کی امریکی اور اس کے حواریوں کی بمباری سے بنجر ہوچکی ہے ، وہاں پر اپاہج لوگوں کی تعداد کے بارے میں اگر چہ کوئی غیر جانبداریا مصدقہ ڈاٹا نہیں ہے، مگر زمینی سطح پر کام کرنے والے ادارے اور رضاکار تنظیمیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اس یہ بدنصیب ملک میں جنگ ، حادثات اور آپسی تصادم میں زخمی ہونے والے اور اپاہج لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک میں حفظان صحت کے میدان میں کام کرنے والے افراد کی کمی ہے ، جو رضا کار اس ملک میں کام کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں وہ بھی ڈر اور خوف کے ماحول میں رہتے ہیں، کیونکہ ان کو انتہائی سخت طالبانی قوانین اور قواعد کے تحت کام کرنا پڑتاہے۔خواتین کے لئے لازمی برقعہ اڑھنے ، حجاب پہننے کی پابندی ان کو ایک سرگرم رول ادا کرنے میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔پچھلے دنوں یہ بھی دیکھاگیاہے کہ طالبان نے خواتین کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے لکھنے سے روکا ، یہی نہیں بلکہ نوعمر بچیوں کو اسکول جانے اور بنیادی تعلیم سے بھی محروم رکھنے کی کوشش کی ۔کوئی بھی مہذب سماج اپنی نصف آبادی کو تعلیم سے محروم کس طرح رکھ سکتاہے ، وہ بھی آج کے اس پرفتن دور میں جب خواتین کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلانے اور ان کو روزگار کے مواقع فراہم کرکے بااختیار بنانے کی وکالت کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ افغانستان میں طالبان کو وسائل کے بحران سے گزرنا پڑرہاہے ، مگر یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ افغانستان کو کئی ممالک مدد کرناچاہتے ہیں اور طالبان کے ہٹ دھرمی والے رویہ میں اصلاح کے متمنی ہیں۔سعودی عربیہ کا شمار ان چند ممالک میں ہوتاہے جو طالبان کی مدد کرنا چاہتے ہیں ، مگر طالبان اپنے وہی پرانے روش پر قائم رہناچاہتے ہیں۔افغانستان میں عام نظام چلانے کے لئے بھی حکومت کے پاس سرمایہ نہیں ہے۔یہ بدقسمتی ہے کہ اس قدر خوبصورت ملک جس میں تمام قدرتی ومعدنی وسائل ہیں ۔آج اس مقام پر کھڑا ہے جہاں اس کا نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی پرسان حال۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ارباب اقتدار اپنے رویہ میں ذرا بھی تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں ہیں اور اس رویہ کے چلتے نہ ہی دیگر ممالک خصوصاً امریکہ اور اس کے حلیف کا رویہ تبدیل ہورہاہے۔ یہ صورتحال عام افغانی کے لئے انتہائی افسوسناک ہے۔
عام افغانی کی زندگی اور طالبان کا رویہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS