جمہوری اداروں میں تصادم سے اجتناب ضروری

0

ہندوستان کا سیاسی نظام اگرچہ برطانیہ کے ویسٹ مسٹر کے طر ز پر ہے،جہاں پارلیمنٹ کے دوایوان ہے ، وزیراعظم حکومت کا سربراہ ہے،جو ممبران پارلیمنٹ کا لیڈر ہوتا ہے اور صدرجمہویہ ملک کا سربراہ ہوتاہے، جس کو عوامی نمائندے چنتے ہیں یعنی سربراہ مملکت بالوستہ طور پرمنتقل ہوتی ہے ، ہرملک کے اپنے سیاسی اور سماجی تقاضے اور ضروریات ہوتے ہیں، مگر ایک صحت مند جمہوریت میں سربراہ حکومت عوام یا یوں کہیں پارلیمنٹ کے تئیں جواب دہ ہوتاہے۔پچھلے دنوں مانسون اجلاس کے دوران ہندوستان کے پارلیمنٹ میں جو تعطل دکھائی وہ غیرمعمولی تھا اور ایسا لگ رہاتھا کہ برسراقتدار پارٹی جو کہ این ڈی اے کا حصہ ہے پوری اپوزیشن کے ساتھ برسرپیکار ہے۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مختلف ایشوز خاص طور پر غیرمعمولی صورتحال کو مد نظررکھتے ہوئے دونوں فریقوں میں خوب کھینچ تان ہوئی ، دونوں ایوانوں میں کئی مرتبہ ، کئی ناخوشگوار واقعات پیش آئے اور اسپیکر اور صدرنشین نے کئی ممبران پارلیمنٹ کو معطل کیا۔بعض اوقات تو ایسا محسوہوا کہ اپوزیشن کے خلاف اور خاص کرنوتشکیل شدہ سیاسی محاذ ’انڈیا‘ اور بی جے پی اس قدر شدت متصادم دکھائی دی کہ اس شدت پر تشویش کا اظہار کیاگیا۔اس تصادم کی نوعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ حکمراں بی جے پی اور اپوزیشن ’انڈیا‘اس بات پر متفق نہیں ہوپائے کہ منی پور کے معاملہ میں پارلیمنٹ کے قواعد کی کس شق کے مطابق بحث ہو۔اس صورتحال میں ایک چالاک اپوزیشن کی طرح کانگریس پارٹی نے لوک سبھا میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرکے گویا حکمراں جماعت کو مجبور کیا کہ وہ منی پورپر لب کشائی کرے،مگر اپوزیشن کا بڑا مقصد وزیراعظم نریندر مودی کو ایوان میں منی پور کے معاملہ پر بولنے کے لئے مجبور کرنا تھا۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن اور حکمراں پارٹی کے دوران نوک جھونک اور ٹکرائو و تصادم کوئی نیا نہیں ہے ،بلکہ یہ جمہوری اقدار اور آزاد سیاسی ماحول کی شناخت اور نشانی ہے۔ مگر جس شدت کا مظاہرہ دونوں فریقوں نے کیا اس سے یہ لگ رہاتھا کہ گویا یہ آر پار کی لڑائی ہو۔این ڈی اے کے خلاف بنائے گئے محاذ ’ انڈیا ‘ کے قیام کے بعد اپوزیشن میں نئی جان پڑگئی ہے۔
پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپوزیشن نے متحد ہو کر بی جے پی کا مقابلہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکمراں این ڈی اے جو کہ تقریباً 30پارٹیوں کے اتحاد کا دعویٰ کررہی تھی پارلیمنٹ میں کافی حد تک اکیلے ہی اپوزیشن کا مقابلہ کرتے دکھائی دی۔مبصرین کا کہناہے کہ مانسون اجلاس کے دوران یہ ٹکرائو اور تصادم 2024اور اس سے قبل پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کا ہے، جہاں پر د ونوں محاذوں کو ہر طریقے سے الیکشن جیتنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر تصادم اور کشیدگی ایسے لگ رہاتھا کہ دونوں محاذآئندہ انتخابات کے ایجنڈے کو طے کررہے ہیں۔اپوزیشن پارٹیاں ملک کو یہ باور کرانے پر آمادہ تھیں کہ نریندر مودی قیادت والی سرکار ہر مورچے پر ناکام ہے، بطور خاص اقتصادی محاذ پر تو بالکل ہی ناکام ہے۔ جب کہ عوام کی تحفظ کے معاملات پر منی پور کے سانحات کو لے کر یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ 2002 سے لے کر 2023تک نریندر مودی کی حکمت عملی اور طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔لوک سبھا میں وزیراعظم نے اعتماد کی تحریک پر بچتے بچاتے ہوئے اظہار خیال کیا اور پورا فوکس اپنی پارٹی کی کامیابیوں ،کانگریس کی تاریخ اور اس کے کرپشن پر مرکوز کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ وہ اپوزیشن کی منشا کوسمجھتے ہیں۔سیاسی ماحول میں اتنی کڑواہٹ اور سیاسی ٹکرائو کسی بھی جمہوری نظام کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوسکتی ہے۔اپوزیشن اور حکمراں پارٹی کو سیاسی مجبوریوں ،وقتی ٹکرائو اور تعصبات سے باہر ہوکر کام کرنا چاہئے ۔ اپوزیشن کسی بھی سیاسی نظام کا ایک اہم حصہ ہوتاہے ۔ اس اپوزیشن کی باتوں کو بھی دھیان میں رکھا جائے۔ ہندوستان کے آئین نے انہی چیکس اینڈ بیلیس کوفروغ دیاہے۔ عدلیہ مقننہ کو اپنے دائراختیار سے آگے بڑھنے سے روکتا ہے اور عدلیہ کے اسی رول کو اس مخصوص کا اختیار کہتے ہیں۔یعنی اگر کوئی قانون یا انتظامیہ کا کوئی بھی قدم آئین کے دائرے سے باہر ہو تو عدلیہ مداخلت کرکے اس قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے، اسی لئے کسی بھی ملک میں عدلیہ کا غیر جانبدار اور آزاد ہونا ضروری ہے۔عدلیہ کو مقننہ کی دسترس سے باہر ہونا چاہئے ، یہی وجہ ہے کہ عدلیہ کے کسی بھی فرد کے خلاف قانونی چارہ جوئی یعنی مواخذہ کا عمل انتہائی پیچیدہ اور طویل ہے۔ ہندوستان میں مواخذے کے دوواقعات ہوئے ہیں ،یہ کارروائی Rare of rare کیس ہوتی ہے۔انتخاب ہر پانچ سال میں آتے ہیں، سیاسی حالات بدلتے ، بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ان حالات سے متاثر ہو کر ملک کے سیاسی نظام کو مفلوج کرنے والے اقدامات سے اجتناب کرنا چاہئے۔ یہ ذمہ داری صرف اپوزیشن کی نہیں حکومت کی بھی ہوتی ہے۔ایسے لگ رہاتھا کہ پارلیمنٹ میں 2024کے لئے ابھی سے مہم چھیڑ دی گئی ہے۔اس سے نہ صرف یہ کہ پارلیمانی امورمتاثر ہوئے بلکہ اس کی حرمت اور تقدس بھی پامال ہوئی۔ایوان کے اعلیٰ ترین منصبوں پر فائز شخصیات اس سیاسی درجہ حرارت میں اپنا توازن اور وقار برقرار رکھ پائیں یہ ضروری نہیں۔
ہماچل پردیش اور کرناٹک میں الیکشن جیتنے کے بعد کانگریس کے تیور بالکل مختلف ہے۔راہل گاندھی کی پارلیمنٹ پر واپسی کو بڑی جیت کی طور پردیکھا جارہاہے۔ حکمراں پارٹی خطرہ بھانپ گئی ہے، کانگریس پارٹی ہندوستان کے تمام خطوں میں موجود ہے ، یہ قومی سطح پر موجودگی اس کی کمزوری بھی ہے اور طاقت بھی۔بی جے پی کی پوری طاقت کانگریس کو دبانے میں مصروف ہیں۔ جبکہ کانگریس پارٹی تقریباً9سال سے زائد برسراقتدار بی جے پی کونااہل اور ناکارہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS