سرزمین ِانبیاء پھرصیہونی استبداد کے نشانے پر: عبدالعزیز

0

مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کی دہشت گردی اور حملے کی ایک تاریخ ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جس پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسریٰ اور معراج کا شرف حاصل ہوا تھا۔ یہ مقام مقدس ہے جہاں مسجدِ اقصیٰ واقع ہے اور جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے۔ اس سرزمین پر بڑے بڑے انبیاء علیہ السلام، صحابہؓ، شہداء اور اولیا کی متبرک یادگاریں واقع ہیں، لیکن مسلم حکمرانوں کی کمزوری اور بے ضمیری کی وجہ سے یہ مقدس سرزمین صیہونیوں کے نشانے پر ہے اور اس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ قبضہ جدید تاریخ کے طویل ترین اور ظالمانہ قبضوں میں سے ایک ہے، دنیا اس پر خاموش رہی اور اب تک خاموش ہے۔ اب جبکہ حماس نے ششدر کردینے والے حملے کیے جس میں اسرائیل میں ہلاکتوں کی تعداد 1200 سے زائد ہو گئی ہے، اور 2900 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں تو دنیا اس طرف متوجہ ہوئی ہے، لیکن آج بھی اصل مسئلے پر کم ہی لوگ بات کررہے ہیں۔ فلسطینیوں کی تباہ حالی کو پوری دنیا نے معمول کی صورتِ حال سمجھ لیا ہے اس لئے فلسطینیوں پر ظلم جاری ہے۔
امریکہ اس سارے کھیل میں پہلے دن کی طرح اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے، اور اس کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اسرائیل کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے چند گھنٹوں میں اسرائیل پہنچ گئے تھے۔ اس وقت فلسطین میں مغربی کنارے کی نام نہاد سیاسی جماعت ’’الفتح‘‘ حماس کی حمایت اور مخالفت میں تقسیم ہے، جبکہ اسرائیلی قابض فوج نے اپنے جنگی طیاروں کے ذریعے غزہ کی پٹی میں طوفان الاقصیٰ کے آغاز کے بعد سے گزشتہ پانچ دنوں کے دوران بیس سے زائد مساجد کو شہید کردیا ہے۔موتوںمیں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مرنے والوں میں سیکڑوں بچے، خواتین، بوڑھے اور عام شہری شامل ہیں۔جب کہ 20 صحافی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران بمباری میں شدید زخمی ہوئے ہیں۔ بیان میں بتایا گیا کہ خاندانوں کے خلاف اب تک کم از کم 22 اجتماعی قتلِ عام ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ وزارتِ صحت نے خبردار کیا کہ اسرائیلی جارحیت کی شدت سے اسپتالوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، ہم محاصرے کے نتیجے میں ادویہ، طبی استعمال کی اشیاء اور ایندھن کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ بزدل دشمن غزہ کی پٹی میں معصوم اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناکر اپنی سفاکی کا ثبوت پیش کررہا ہے۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق ہفتہ 7 اکتوبر کو فلسطینی تنظیم حماس کے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کے تحت اسرائیلی شہروں پر حملے کے نتیجے میں جہاں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے، وہیں جنگجو درجنوں افراد کو یرغمال بناکر اپنے ساتھ غزہ لے گئے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ یرغمال بنائے گئے افراد کی تعداد 100 سے 150 کے درمیان ہے اور ان میں اسرائیلی شہریوں کے علاوہ دیگر ممالک کے شہری بھی شامل ہیں۔ حماس کے مطابق ان افراد کو ’محفوظ مقامات‘ کے علاوہ غزہ میں موجود ان سرنگوں میں بھی رکھا گیا ہے، جنھیں اسرائیل ماضی میں نشانہ بناتا رہا ہے۔ فلسطینی تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ کی آبادی والے علاقوں پر بمباری کا سلسلہ نہ روکا تو اِن یرغمالیوں کو ہلاک کردیا جائے گا۔ حماس کے ہاتھوں یرغمال بننے والے افراد کون ہیں، اس بارے میں سوشل میڈیا پر بہت سے دعوے سامنے آئے ہیں۔ قطر، مصر اور ممکنہ طور پر دیگر ممالک بھی اس وقت اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی کوشش کررہے ہیں۔
ایک خیال یہ ہے کہ حماس خواتین اور بچوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید 36 فلسطینی خواتین اور کم عمر قیدیوں کے بدلے رہا کرے گی، لیکن اصل بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے، اس کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1948 میں امریکہ، برطانیہ، مغربی ممالک اور مسلم حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی کے نتیجے میں ناجائز اسرائیلی ریاست کا وجود جبر کے ذریعے عمل میں آیا اور فلسطین کا53فی صد رقبہ دے دیا گیا، جبکہ اکثریتی آبادی کے حامل فلسطینی عوام کو صرف 47فی صد علاقے دیئے گئے۔ اس وقت کے بعد سے اسرائیل نے فلسطینی عوام کے خلاف دہشت گردی اور تشدد کی ایک منظم مہم چلائی ہوئی ہے، جس کا مقصد انہیں ان کی سرزمین اورگھروں سے بے دخل کرنا تھا۔
فلسطین پر اسرائیل کے حملوں کی کئی شکلیں ہیں۔ جو دنیا آج پریشان ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیلی فورسز نے فلسطینی شہریوں کا بے شمار قتل عام کیا ہے، جس میں 1948 میں دیریاسین کا قتل عام بھی شامل ہے۔ یہ یروشلم کے قریب تقریباً 600 لوگوں کا ایک عرب گاؤں تھا۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب یہودی فوجیوں نے فلسطین میں برطانوی حکمرانی کے خاتمے سے قبل خانہ جنگی کے دوران یروشلم کی ناکہ بندی کرنے کی کوشش کی تھی۔ گاؤں میں لڑائی کے دوران اور اس کے بعد سو سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ پھر 1982 میں صابرہ اور شطیلہ کا قتل عام اور 2002 میں جنین کا قتل عام تاریخ میں محفوظ ہے۔ اسرائیل نے فلسطین پر متعدد فوجی حملے کیے ہیں، جن میں 1967 کی چھ روزہ جنگ، 1982 کی لبنان جنگ، 2002 کی مغربی کنارے کی جارحیت، اور 2014 کی غزہ جنگ شامل ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے خلاف 51 روزہ جنگ کا آغاز کیا، جس کے جواب میں حماس نے اسرائیل پر راکٹ داغے تھے۔ اس جنگ کے نتیجے میں 500 سے زائد بچوں سمیت کئی ہزار فلسطینی شہید کیے گئے۔ حالیہ برسوں کے دوران شاید ہی کوئی ایسا دن دیکھنے میں آیا ہو، جب اسرائیل نے فلسطین کے انتہائی گنجان آباد علاقوں پر بمباری اورفائرنگ یا حملہ نہ کیا ہو۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 5.7 ملین سے زیادہ فلسطینی پناہ گزین ہیں۔ فلسطینی معیشت تباہ ہوچکی ہے۔ غزہ کی ناکہ بندی اور مغربی کنارے میں نقل و حرکت پر پابندیوں نے فلسطینی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ غزہ میں بے روزگاری کی شرح 50 فیصد سے زیادہ، اور شرحِ غربت 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ اسرائیل کی دہشت گردی اور حملے بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ یہ سب جاننے کے باوجود دنیا کی آنکھیں بند ہیں اور مسلم دنیا کا حال یہ ہے کہ اسرائیل روزانہ کی بنیاد پر بیت المقدس کا تقدس پامال کررہا ہے اور اس کی قیمت پر مسلم حکمران اسرائیل کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ تجارت، سیاحت، ماحول دوست معاشیات اور سائنسی ترقی پر معاہدے ہورہے ہیں۔ یہ حکمران اسرائیل سے تو محبت کرتے ہیں جس کے نشانے پر پوری امتِ مسلمہ ہے، لیکن اخوان المسلمون اور حماس جو پوری امت کا قرض ادا کررہے ہیں اور اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج بن کر ہر ظلم کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں، بدقسمتی سے یہ ان کے خلاف اسرائیل کے ساتھ مل کر اقدامات کرتے ہیں اور یہی ان کی تاریخ ہے۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS