مسجد اقصیٰ قرآن وحدیث کی روشنی میں

0

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:پاک ہے، وہ ذات جو اپنے بندۂ خاص کو لے گیا رات میں مسجد حرام سے مسجدِاقصیٰ تک، وہ مسجد جس کے اردگرد ہم نے برکت فرمادی ،تاکہ ہم اسے دکھائیں اپنی نشانیاں۔(سورہ اِلاسراء) قدس ہی وہ شہر اورعلاقہ ہے جومسجد کے اردگرد ہے تو اس لحاظ سے وہ بابرکت ہوا۔ سرزمین فلسطین نہایت مبارک اور محترم جگہ ہے، یہ آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے ، اس سرزمین پر اکثر انبیا اور رسل آئے ہیں ، یہی وہ سرزمین ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہاہوئی ، یہ آسمان کا دروازہ ہے ، یہ سرزمین محشر بھی ہے ۔اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرما یا ہے۔
ارشاد ربانی ہے: اور جن لوگوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا، ہم نے انہیں اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جس پر ہم نے برکتیں نازل کی تھیں اور بنی اسرائیل کے حق میں تمہارے رب کا کلمہ خیر پورا ہوا، کیونکہ انہوں نے صبر سے کام لیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بناتی چڑھاتی رہی تھی، ان سب کو ہم نے ملیا میٹ کردیا۔ (سورۃ الاعراف: 137)مزید فرمایا گیا: اور ہم نے نجات دی اسے اور لوطؑ کواس زمین کی طرف جو (کہ) ہم نے برکت رکھی اس میں تمام جہان والوں کے لیے۔ (سورۃ الانبیاء:71) ترجمہ: اور ہم نے تیز چلتی ہوئی ہوا کو سلیمانؑ کے تابع کردیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں اور ہمیں ہر ہر بات کا پورا پورا علم ہے۔(سورۃ الانبیاء:81) ترجمہ:اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں ، ایسی بستیاں بسا رکھی تھیں جو دور سے نظر آتی تھیں ، اور ان میں سفر کو نپے تلے مرحلوں میں بانٹ دیا تھا اور کہا تھا کہ ان (بستیوں ) کے درمیان راتیں ہوں یا دن، امن و امان کے ساتھ سفر کرو۔(سورۃ السبا:18)
بیت المقدس وہ مقدس مقام ہے جو مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے یکساں طور پر متبرک ہے ، یہیں شب ِمعراج کے موقع پر رسولؐ اللہ کو عالم بالا کا سفر کرایا گیا۔ رسول اکرمؐ نے نبوت کے بعد سولہ ماہ سے زیادہ عرصہ تک اسی طرف رْخ کر کے نماز ادا فرمائی ، اس لئے یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ، بعض روایتوں سے معلوم ہوا ہے کہ بیت اللہ شریف کی تعمیر کے کچھ عرصہ بعد سیدنا حضرت ابراہیمؑ ہی نے بیت المقدس کی بھی تعمیر فرمائی تھی ، حضرت صالحؑ، حضرت یعقوبؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت یحییٰ ؑ، حضرت مسیحؑ اور کتنے ہی انبیائے کرامؑ کی حیات طیبہ اس مبارک مقام سے متعلق رہی ہے ، شہر بیت المقدس کے قرب و جوار میں بھی مختلف علاقے ہیں ، جو مختلف پیغمبروں سے منسوب ہیں ، اسی لئے اسلام کی نگاہ میں اس شہر اوراس مسجد کی خاص اہمیت ہے۔
ایک صحابیؓ نے رسول اللہ ؐسے بیت المقدس کے بارے میں دریافت کیا توآپ ؐنے فرمایا : یہ حشر و نشر کی سر زمین ہے ، یہاں آؤ اور نماز ادا کرو کہ اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنا دوسری مسجدوں میں ایک ہزار نماز ادا کرنے کے برابر ہے، ان صحابیؐ نے استفسار کیا : اگر میرے اندر وہاں تک جانے کی استطاعت نہ ہو ؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: کم سے کم تیل کا ہدیہ ہی بھیج دو، جو وہاں چراغ میں کام آئے۔( ابن ماجہ)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپ ؐنے فرمایا : جب حضرت سلیمانؑ بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی ، اس میں ایک دعا ایسی حکومت کی تھی جو آپ کے بعد کسی کو میسر نہ آئے اور اس میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ جو اس مسجد میں صرف نماز کے لئے آئے، تو اس کے گناہ اس طرح معاف ہو جائیں کہ گویا وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا کہ تین دعاؤں میں سے دو تو مقبول ہو گئیں اور مجھے امید ہے کہ یہ تیسری دْعا جو مغفرت سے متعلق تھی ، وہ بھی مقبول ہوگئی ہوگی۔ ( ابن ماجہ) اور یہ روایت تو حدیث کی متعدد کتابوں میں وارد ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ خاص طور پر تین ہی مسجدوں کے لئے سفر کرنا درست ہے ، مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔( ابن ماجہ ) اس لئے مسلمانوں کو اس مقدس اور متبرک مقام سے ہمیشہ قلبی اور جذباتی تعلق رہا ہے۔
ارض مقدس سے مراد ’’ارض مطہر‘‘ (پاک وصاف سرزمین ) ہے ، راغب کہتے ہیں : بیت المقدس : یعنی یہ شرک وکفر کی نجاست سے پاک ہے ، زجاج کہتے ہیں : ارض مقدس سے مراد دمشق، فلسطین اور اردن کے بعض حصے ہیں ، حضرت قتادہؓ سے مروی ہے : اس سے ملک شام مراد ہے ، ابن عساکر نے معاذ بن جبلؓ سے روایت کی ہے کہ ارض مقدس عریش سے فرات تک کی سرزمین کو کہتے ہیں۔
سرزمین فلسطین کو ’’ارض مقدس‘‘ صرف قرآن مجید میں ایک جگہ پر کہا گیا ہے ، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے : اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے،اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد ہوجائوگے۔( سورۃالمائدہ: 21)
اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو ’’سرزمین محشر‘‘ بھی فرمایا ہے ، ارشاد باری عزوجل ہے :وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافر لوگوں کو ان کے گھروں سے پہلے اجتماع کے موقع پر نکال دیا۔ (سورۃالحشر:2)یہاں ’’ اول حشر‘‘ سے مراد یعنی ان یہودیوں کا ملک شام میں اکٹھا ہونا ہے ، جس وقت نبی کریمؐ نے بنو نضیر کو سرزمین مدینہ سے جلاوطن کردیا تھا، زہری سے مروی ہے کہتے ہیں ، اول حشر کے طور پر ان کی دنیا میں جلا وطنی سرزمین شام میں ہوئی تھی، ابن زید کہتے ہیں : ’’اول حشر‘‘ سے مراد سرزمین شام ہے، ابن عباسؓ سے بکثرت روایات میں منقول ہے، فرماتے ہیں : جسے اس بات میں شک ہو کہ ارض محشر سے مراد سرزمین شام ہے وہ اس آیت کو پڑھے ، پھر اس آیت کا آپؐ نے تذکرہ فرمایا۔
قرآن کریم میں کئی جگہوں پر بغیر کسی صفت کے تذکرہ کے سرزمین فلسطین کا ذکر موجود ہے۔اور ہم نے فیصلہ سنادیا بنی اسرائیل کو کتاب میں کہ بلاشبہ ضرور تم فساد کرو گے زمین میں دو مرتبہ اور ضرور بالضرور تم چڑھائی کرو گے بہت بڑی چڑھائی۔(سورۃ الاسراء :4) شوکانی نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ یہاں اس آیت میں سرزمین شام اور بیت المقدس مراد ہے۔(ترجمہ) اور ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد یہ لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔(سورۃالانبیاء :105)ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ یہاں ارض مقدسہ سے سرزمین شام اور فلسطین ہے،امت محمدیہؐ وارث ہوں گے۔
ارشاد رب العزت ہے:اور ہم نے بنو اسرائیل کو ایسی جگہ بسایا جو صحیح معنی میں بسنے کے لائق جگہ تھی، اور انہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق بخشا، پھرانہوں نے (دینِ حق کے بارے میں ) اس وقت تک اختلاف نہیں کیا جب تک ان کے پاس علم نہ آگیا۔یقین رکھو کہ جن باتوں میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے، ان کا فیصلہ تمہارا پروردگار قیامت کے دن کرے گا۔(سورہ یونس:93)یہاں ملک شام کا جنوبی علاقہ فلسطین مراد ہے۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS