سماجی انصاف کی سیاست کی دستک

0

2014کے بعد سے ملک میں جو حالات بنے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ شمالی ہندوستان میں بی جے پی کی عوامی مقبولیت کو ختم کرنا آسان نہیں ہے۔ بی جے پی نے خاص طور پر لوک سبھا کے انتخابات میں جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس کااندازہ راجستھان، گجرات ، مدھیہ پردیش، اترپردیش اور دہلی وغیرہ کے انتخابی جائزوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ کچھ ریاستوں میں بی جے پی نے اسمبلی انتخابات میں ان نتائج کا مظاہرہ نہیں کیا اور راجستھان ، ہماچل پردیش کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں اتنی کامیابی حاصل نہیں کی، مگر اس کے باوجود لوک سبھا انتخابات میں مذکورہ بالا دونوں ریاستوں اور مدھیہ پردیش میں بھی جہاں اس نے اقتدار سے بے دخل ہونے کے 15ماہ کے بعد دوبارہ اپنی حکومت بنا لی تھی، اپنی سبقت برقرار رکھی، اگرچہ کئی حلقوں میں اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ کے الیکشن چاہے وہ لوک سبھا کے ہوں یا اسمبلی کے۔ بی جے پی کے لیے نقصان پہنچانے والے ہوسکتے ہیں۔
انتخابی تجزیہ نگارو ںکی رائے ہے کہ ہندوتو کے ایشو کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے او بی سی طبقات کو اہمیت دے کر اپنی جڑوں کو کافی مضبوط کیا ہے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ او بی سی میں بھی انتہائی پسماندہ طبقات نے بی جے پی کو کافی حد تک مضبوط کیا ہے۔ بہار میں یہ تجربہ بی جے پی سے پہلے نتیس کمار نے کیا تھا جہاں انہوںنے انتہائی پسماندہ طبقات کے زمرے کو وضع کرکے ایک نئے ووٹ بینک کو حقیقت کا روپ دیاتھا۔ بہارکی حالیہ ذات برادری پر مبنی مردم شمار ی کے اعدادوشمار پیش کیے گئے ہیں وہ نتیش کمار اور ان کی ہم مشرب راشٹریہ جنتا دل کی پوزیشن کو مضبوط کرنے والے ہیں۔ بی جے پی مخالف محاذ اور پارٹیاں اگرچہ اس معاملہ پر بالکل الگ حکمت عملی رکھتی ہیں، مگر کوئی طبقہ بھی اس بات سے غیر متفق نہیں ہے کہ یہ وار بہت کاری ہے اور بی جے پی کو شاید گہرے گھائو دے کر جائے گا۔ بہار میں جو نئی صورتحال ہے اس میں نتیش کمار او رلالو یادو کی پارٹیاں ان طبقات پر اپنی توجہ فوکس کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جو اقتصادی اور سماجی سطح پر انتہائی کمزور ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاستی سرکار جلد ہی ایک ایسا اقتصادی پروگرام وضع کرسکتی ہے جو کہ پسماندہ طبقات کی سماجی اور اقتصادی بدحالی کو ختم کرنے کے لیے بنایا جار ہا ہے ۔ کانگریس لگاتار یہ بات اٹھاتی رہی ہے کہ ملک میں سماج کے پسماندہ اور اقتصادی طور پر کمزور طبقات کے اعدادوشمار منظر عام پر لائے جائیں تاکہ اس کے حساب سے ہی ملک کی اقتصادی، سماجی اورفلاحی حکمت عملی طے کی جائے۔ پچھلے دنوں پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے دوران کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے او بی سی پر مرکوز حکمت عملی کی پول کھولنے کی کوشش کی تھی۔ انہوںنے مرکز میں سکریٹری اور دیگر اہم عہدوں پر او بی سی افسران کی عدم موجودگی کی طرف توجہ دلائی تھی۔ راہل گاندھی نے کھلم کھلا کہا تھا کہ بی جے پی محض علامتی طور پر او بی سی طبقات کو اختیارات دینے کی بات کرتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اہم عہدوں پر اعلیٰ ذات کے افراد ہی فائز ہیں۔ راہل گاندھی نے اس موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ خواتین کا ریزرویشن بل جو کہ اس اجلاس میں پاس ہوا تھا اس میں بھی او بی سی اور دیگر ان طبقات کو اہمیت دیے جانے کا التزام کیا جائے جو کہ سیاسی سطح پر بھی سماج کا ایک محروم طبقہ ہے۔
خیال رہے کہ کانگریس پارٹی نے سب سے پہلے خواتین ریزرویشن بل کے ذریعہ خواتین کی پارلیمانی اداروں میں نمائندگی بڑھانے کا التزام کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور سوشلسٹ پارٹیاں جیسے جنتا دل یو ، جنتا پارٹی یا سماج وادی پارٹی مسلسل یہ دعویٰ کرتی رہی ہیں کہ خواتین ریرزویشن بل آنے کے بعد قانون ساز اداروں یعنی مقننہ (پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں)میں او بی سی او رمسلمانوں کی نمائندگی متاثر ہوگی ۔ اس زمانے میں جنتا دل یو کے لیڈر مرحوم شرد یادو کا پرکٹی کا فقرہ کافی مشہور ہوا تھا۔ شرد یادو اور ان کے ہم خیال پارٹیوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ خواتین ریزرویشن بل سے صرف وہی طبقات اور ذات برادریاں فائدہ اٹھاسکتی ہیں جو کہ پہلے ہی سماج کی اولین صف میں کھڑی ہیں۔ اس مرتبہ اگرچہ بی جے پی نے خواتین ریزرویشن بل پیش کرنے کے شاندار طریقے سے اپنی کامیابی حاصل کی، مگر کانگریس پارٹی نے بھی موقف کی تبدیلی کرکے سماجی انصاف کے لیے کام کرنے والے طبقات ، رضا کارو ںاور سیاسی جماعتوں کو کافی تقویت پہنچائی ہے۔ کانگریس ہی نہیں مغربی بنگال کی سیاسی جماعت ترنمول کانگریس نے بھی جس طرح سے خواتین کی نمائندگی کے معاملے میں فیاضی کا ثبوت دیا ہے وہ بھی اپنے آپ میں غیر معمولی ہے۔ ممتا بنرجی نے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں خواتین کو نمائندگی دے کر اپنی ریاست سے پارلیمنٹ میں ایسے طبقات اور روشن خیال اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو لیڈر شپ کے مقام پر پہنچانے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام رجحانات ملک کی سیاست کو نئے اور ترقی پسند رویے کی طرف لے جانے والے ہیں۔ اب دیکھنایہ ہے کہ نئی پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں خواتین ریزرویشن بل کس حد تک سماج کی نصف آبادی کو ایک باعزت مقام فراہم کرسکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS