دی کشمیر فائلس:آرٹ یا پروپیگنڈہ؟

0

عبدالماجد نظامی

اخلاق سے عاری اور چاپلوس فلم ساز وویک اگنی ہوتری جو کسی زمانہ میں کوک اور جیلیٹ جیسے پروڈکٹس کے لیے تشہیری فلمیں بنایا کرتا تھا وہ آج ایک ایسی پرپیگنڈہ فلم بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے جس کی وجہ سے دولت کا سیلاب دیکھ پانا اس کی آنکھوں کو بھی نصیب ہوگیا۔ لیکن کیا یہ فلم حقیقت کی عکاسی کرتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ صاف لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ نہ صرف حقیقت کو چھپانا اور انسانوں کی ٹریجڈی سے سیم و زر کے ڈھیر اکٹھا کرنا اس فلم کا مقصد ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہندوستانی معاشرہ کو نفرت، عداوت، قتل و غارتگری اور حیوانیت کے اسی جہنم میں دوبارہ جھونک دینے کی ایسی ناپاک کوشش ہے کہ ہر حساس ذہن و دماغ کا شخص اس جرأت پر حیرت زدہ ہے۔ فلم جو کہ آرٹ کا سب سے مؤثر وسیلہ ہے، اس کا مقصد زخموں کو بھرنا، ٹوٹے دلوں کو جوڑنا اور تاریخ کی ہولناکیوں کو اس حساسیت سے پیش کرنا ہوتا ہے کہ اس کو دیکھنے کے بعد ہر انسان یہ عہد کرکے سنیما ہالوں سے نکلے کہ ایسا دلخراش واقعہ ہم دوبارہ اپنے ملک و سماج میں رونما نہیں دیں گے۔ جبکہ ’’دی کشمیر فائلس‘‘ اس کے بالکل برعکس مزاج پیدا کرتی ہے۔ آرٹ کا استعمال جب کبھی انسانی قدروں کی ترویج و اشاعت کے بجائے معاشرہ میں تفرقہ و عداوت کا ماحول قائم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے تو وہ آرٹ کے مقام سے گر کر پروپیگنڈہ کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ ایسے آرٹ والی فلموں کو نہ تو لمبی زندگی نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی وہ فلم سازی کے اداروں میں مثال کے طور پر اسٹوڈنٹس کو دکھائی جاتی ہیں۔ خود ہندوستانی سنیما میں اس کی شاندار مثالیں موجود ہیں کہ فلموں نے نہایت مہارت کے ساتھ تاریخ کے سیاہ ترین باب کو بھی دردمندی اور انسانی لمس کے ساتھ پیش کیا ہے اور اسی لیے آج بھی ان کا شمار شاہکار میں ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک فلم کا نام ’’گرم ہوا‘‘ ہے جس کے ڈائریکٹر ایم ایس ستھیو نے تقسیم ہند کے نتیجہ میں پیدا ہونے ہونے والی ٹریجڈی کو بڑی کامیابی سے پیش کیا اور اس کا مثبت اثر مشاہدین کی فکر و نظر پر پڑا۔ اس فلم میں سلیم مرزا کا کردار نبھانے والے بلراج ساہنی نے ایک مسلم تاجر کے درد و کرب کو جس ایمانداری سے پیش کیا ہے، اس سے متاثر ہوئے بغیر کوئی ادنیٰ مشاہد بھی نہیں رہ سکتا۔ اس فلم کی اسی خوبی کی بنا پر اسے بہترین کہانی، بہترین مکالمے، بہترین منظرنامہ کے لیے فلم فیئر ایوارڈس سے نوازا گیا تھا اور ملک کے لوگوں کو جوڑنے میں اس فلم نے جو اہم کردار ادا کیا تھا، اس کی چو طرفہ تعریف ہوئی تھی۔ ’’دی کشمیر فائلس‘‘ کے ڈائریکٹر نے صرف کشمیریت کے ساتھ ہی ظلم نہیں کیا ہے بلکہ اس آرٹ کو بھی رسوا کیا ہے جو ہمیشہ اپنی خود داری کے لیے جانا جاتا رہا ہے۔ فلم ’’امراؤ جان‘‘ کا وہ منظر اگنی ہوتری کے پیش نظر ہونا چاہیے تھا جس میں آرٹ اور آرٹسٹ کے مقام کی تصویر کشی اعلیٰ انداز میں کی گئی ہے کہ جب ایک طوائف کے کردار نے سیٹھ کی اشرفیوں کو ٹھکراتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اشرفیاں ہم طوائفوں کی ٹھوکروں میں ہوا کرتی ہیں اور بڑی تعلّی و ناز کے ساتھ اپنی مرضی کے خلاف رقص و سرود کی محفل سجانے سے انکار کر دیتی ہے۔ کیا وویک اگنی ہوتری کا ضمیر ایک طوائف کے ضمیر سے بھی نیچے گر گیا کہ وہ آرٹ کو اتنی سستی قیمت پر بیچنے پر راضی ہوگیا؟ اب تو بعض حلقوں سے یہ پیشکش بھی آنے لگی ہے کہ اس فلم کو اکیڈمی ایوارڈ کے لیے بھیجا جائے۔ میری خواہش ہوگی کہ اس فلم کو اکیڈمی ایوارڈ کے لیے ضرور بھیجا جائے تاکہ پوری دنیا کے سامنے اگنی ہوتری اور اس کے ہم مشربوں کی رسوائی کا سامان مہیا ہوجائے اور اس کی اصلیت کا راز فاش ہوجائے۔
اگر اگنی ہوتری میں حقیقت پسندی ہوتی اور تاریخ کے ساتھ انصاف کرنے کا حوصلہ ہوتا تو وہ یہ بتاتا کہ1947 ہی سے جب کہ جموں و کشمیر ہندوستان میں شامل کیا گیا، انڈین نیشنل کانگریس کی مرکزی سرکار نے اس کو شفاف جمہوری و انتخابی عمل سے گزرنے کا موقع نہیں دیا اور آج بی جے پی بھی اسی روش پر نہ صرف قائم ہے بلکہ اس معاملہ میں کانگریس پارٹی کو میلوں پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ فلم ’’دی کشمیر فائلس‘‘ کو اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے تھی کہ1989میں جس ٹریجڈی کا آغاز ہوا تھا، اس سے قبل آخر وہ کیا نقطۂ آغاز تھا جس کی وجہ سے نہ صرف کشمیر کے پنڈت بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ وادی کے مسلمان ظلم و بربریت کا شکار ہوئے؟ کیا یہ ذمہ داری اس فلم ساز کی نہیں تھی کہ وہ اس ملک کے باشندوں کو بتاتا کہ دراصل اس بربریت کا بیج1987میں پڑ چکا تھا، کیونکہ اس برس جموں و کشمیر میں جو انتخاب ہوا تھا، اس میں75فیصد لوگوں نے حصہ لیا تھا اور اس میں مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کی شاندار جیت کا امکان تھا لیکن کانگریس کی مرکزی سرکار نے ایسا ہونے نہیں دیا اور ناجائز ڈھنگ سے نیشنل کانفرنس کو جتایا گیا۔ اس واقعہ کا استعمال حریت پسندوں نے خوب کیا اور مرکزی سرکار کے اس عمل کو عوامی اعتماد کے ساتھ بھدا مذاق قرار دیا۔ کشمیری پنڈتوں کو بھی اس کی قیمت چکانی پڑی، کیونکہ ایسا باور کرایا گیا کہ پنڈت ہندوستانی فوج کے ساتھ ہیں۔ لیکن یہ بھی پورا سچ نہیں ہے۔ پورا سچ یہ ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ پنڈتوں سے بھی قبل مسلمانوں کا قتل حریت پسندوں کے ہاتھوں ہونا شروع ہوچکا تھا۔ معاملہ جب ہاتھ سے نکلتا نظر آیا تو نیشنل کانفرنس کے اس وقت کے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ19 جنوری 1989 کو استعفیٰ دے کر لندن پہنچ گئے اور پھر بی جے پی کی حمایت والی مرکز کی سرکار نے جگموہن کو بطور گورنر کشمیر بھیج دیا۔ جگموہن نے کشمیری پنڈتوں کو وادی سے بھگانے میں دلچسپی تو دکھائی لیکن انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ مسلمانوں کے ساتھ جو بربریت برتی گئی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ بہت سے کشمیری پنڈت گھر بار چھوڑ کر ضرور چلے گئے بلکہ بھیج دیے گئے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وادی کشمیری پنڈتوں سے خالی ہوگئی۔ ایک بڑی تعداد آج بھی وادی میں بستی ہے۔ انہوں نے اس وقت بھی نفرت کے طوفان کا مقابلہ کیا تھا اور اپنے مسلم ہمسایوں کی محبت و انسانیت پر بھروسہ کرکے رک گئے تھے اور محفوظ رہے اور آج بھی رہ رہے ہیں۔ وویک اگنی ہوتری کی فلم نے ایک بار پھر سے اس زخم کو کرید تو دیا ہے لیکن کیا یہ فلم کشمیری پنڈتوں کے مسائل کو حل کرنے کی راہ ہموار کرپائے گی؟ بظاہر تو لگتا ہے کہ واجپئی کی قیادت والی بی جے پی سرکار کی طرح نریندر مودی کو بھی اس مسئلہ کو حل کرنے میں کوئی رغبت نہیں ہے بلکہ اس سے صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنا مقصود ہے ورنہ مودی سرکار کو سات برس گزر گئے اور آرٹیکل370کو ہٹائے ہوئے بھی دو سال کا عرصہ ہوگیا لیکن اب تک ایک بار بھی کشمیری پنڈتوں کو وادی میں بسانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے، البتہ ان کے ساتھ ہونے والی ٹریجڈی کا استعمال کرکے خود وزیراعظم اور تمام ریاستوں کی بی جے پی سرکاریں ملک میں ایک خاص طبقہ کے خلاف زہر افشانی کا ماحول مزید سازگار کرنے میں لگ گئی ہیں۔ یہ دستوری ذمہ داریوں کے ساتھ کھلا مذاق ہے اور اس کا قوی امکان ہے کہ ملک خانہ جنگی کی آگ میں جل اٹھے۔ اروندھتی رائے نے فاشزم کے نظریہ پر قائم نفرت کے اسی ماحول کے تئیں اپنے خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پورے ملک کو اپنی زد میں لے کر ختم کر دے گا۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندوستان کا دانشور طبقہ اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی بھی اس پروپیگنڈہ فلم کے نشانہ پر ہے۔ گویا دانشوروں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بے قیمت و بے حیثیت بنانے کا جو سلسلہ 2014میں نریندر مودی کی آمد سے شروع ہوا تھا، وہ آج اپنے عروج تک پہنچ گیا ہے اور یہ بڑے خطرہ کی بات ہے۔ کیونکہ جس طریقہ سے پولیس اور انتظامیہ کے لوگوں کو بی جے پی سرکار والی ریاستوں نے اس فلم کو دیکھنے کے لیے چھٹیاں تک دی ہیں، اس سے یہ لگتا ہے کہ خدا نہ کرے کہ اگر مسلمانوں کے خلاف قتل و خوں ریزی کا ماحول گرم ہوتا ہے جیسا کہ جینوسائڈ واچ نے وارننگ دی ہے تو اس کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ پولیس اپنی دستوری ذمہ داری نبھائے گی۔2002کے گجرات قتل عام میں اور 2020 میں شمالی دہلی کے فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس کا یہ منفی کردار سامنے آ چکا ہے۔ یہ بھی کیا عجیب اتفاق ہے کہ گجرات میں نریندر مودی سرکار کی پولیس اور انتظامیہ کا مسلم قتل عام میں جو مشکوک کردار تھا، اس کو بے نقاب کرنے کے لیے رعنا ایوب نے جو کتاب لکھی اس کا نام ’’گجرات فائلس: اناٹامی آف اے کور اَپ‘‘(Gujrat Files: Anatomy of a Cover Up) رکھا تھا اور اب کشمیری پنڈتوں کے بارے میں بنی پروپیگنڈہ فلم جس کا مقصد بی جے پی اور سنگھ کے نفرت آمیز نظریہ کو پھیلانا ہے، اس کا نام ’’دی کشمیر فائلس‘‘ رکھا گیا ہے۔ کہیں گجرات کا سچ چھپانے کے لیے ہی تو ’’دی کشمیر فائلس‘‘ کو اس قوت کے ساتھ پھیلایا نہیں جا رہا ہے؟
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS