حجاب اسلامی اور عورت: احکام الٰہی اورنسوانی فطرت کے خلاف عالمی رجحانات کاایک جائزہ

0

ڈاکٹر ریحان اخترقاسمی
(آخری قسط)
حجاب اسلامی اور اسلاموفوبیا
بین الاقوامی سطح پر حجاب کو لے کر مغربی ودیگر ممالک میں منفی جذبات منظر عام پر آتے رہے ہیں۔اسی کی ایک کڑی برطانیہ میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے جس میں ایک خاتون کو محض اس بنیاد پرکہ وہ پردہ کرتی ہے۔جیوری کا ممبر نہیں بنا یا گیا۔یہ واقعہ مغرب کے دوہرے معیار کوطشت ازبام کرتاہے۔
مختلف آراء سامنے آتی رہتی ہیں۔امریکہ اور برطانیہ میں حالانکہ حجاب یا برقعہ پر پابندی نہیں ہے مگر سعودی عرب اور ایران میں یہ لازمی ہے ۔افغانستان میں طالبان نے بھی اس کو لازمی قرار دیاہے۔مجموعی طور پر خواتین میں بھی حجاب کو لے کر اختلاف ہے اور مسلم خواتین بھی حجاب کے بارے میں ایک رائے نہیں رکھتی ہیں۔کچھ مقامات پر حجاب لازمی اور اختیار ی ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ حجاب پہننا یانہ پہننا آپ کی ذاتی رائے پسند اور ناپسند پرمنحصر ہے۔جس طرح حجاب یاپردہ کو لازمی بناناغلط ہے اسی نقطہ نظر سے حجاب نہ پہننے دینا یااس پر پابندی عائد کرناغیر ضروری اور غیرمناسب ہے۔
ماضی قریب تک ترکی جیسے مسلم اکثریتی ملک میں حجاب پرپابندی تھی اور حجاب کو لے کر عوام طبقات میں تقسیم تھے اور حجاب اوڑھنے پر اسکولوں اور یونیورسٹیوں سے طلبااور اساتذہ کو نکالاگیا ہے۔اس میں ترکی کے علاوہ تونسیااورتاجکستان شامل ہیں۔۲۰۰۶ میں ترکی کی حکومت نے حجاب پہننے پر لگی پابندی کو یونیورسٹی سے ختم کرناچاہاتھا مگر آئینی عدالت نے اس پابندی کو ہٹانے سے انکارکردیاتھا۔بعد ازاں دسمبر ۲۰۱۰میں ترکی کی سرکاری یونیورسٹی سے پابندی ختم کردی تھی اور خواتین کو حجاب پہننے کی اجازت مل گئی تھی۔یورپی ملک فرانس میں حجاب پرپابندی کو زیادہ زور وشور سے عائد کیاگیا۔اس وقت کے فرانس کے صدر سرکوزی اس میں پیش پیش رہے ہیں۔۱۵ مارچ ۲۰۰۴ کو فرانس میں ایک قانون پاس ہواجس میں اسکولوں میں ایسے لباس پرپابندی عائد کردی گئی جس سے مذہبی وابستگی ظاہر ہوتی ہو۔اس کے بعد ۱۳جولائی۲۰۱۰ کو فرانس کے ایوان زیریں میں ایک قانون پاس ہواجس کے تحت عام پبلک مقامات پرنقاب پہننے پرمکمل پابندی عائد کردی گئی۔اس قانون کو ہٹانے کے لیے جو ووٹنگ ہوئی اس میں ۵۵۷والے ایوان میں ۳۳۵ ووٹ پڑے۔ایک ووٹ اس قانون کے خلاف پڑا۔
یورپی یونین کا کہناہے کہ ہم برقعہ پر پابندی کے خلاف ہیں،لیکن کئی ملک چہرہ ڈھکنے کو حفاظتی نقطہ نظر سے غلط قراردیتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف مہم کے تحت حجاب پر پابندی کی پرزوروکالت کی جاتی ہے۔یمن کی نوبل انعام یافتہ خاتون توکل کرمان سے جب پوچھاگیاکہ ان کاحجاب ان کے طرز زندگی اور ان کے ذہنی میلان کے خلاف نہیں تو انھوں نے کہاابتدائی ایام میں بالکل عریاں رہتی تھی اور جیسے جیسے اس کا ذہن پختہ ہوتاگیااس نے کپڑے پہننے شروع کر دئیے۔آج اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ گئی ہے،اس سے یہ کب ظاہر ہوتا ہے کہ حجاب پریشان کرنے والے نظام کی علامت ہے۔ میراخیال ہے کہ کپڑے اتارناہم کو واپس پرانے زمانے کی طرف لے جاتاہے۔حجاب کو لے کر مختلف سماجی ڈھانچوں میں علاحدہ شناخت پر اسرار ہے۔اس کو متوازن اور بعض اوقات متصادم اقدار کے طور پر دیکھاجاتاہے۔برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئرجن کی سالی نے اسلام قبول کرلیاتھا۔انھوں نے حجاب کے بارے میں کہاتھاکہ یہ علاحد گی کی علامت ہے،یورپی عیسائی اس کو اپنی تہذیبی روایات کے خلاف قراردیتے ہیں۔
کیاہے مغربی ممالک کا حجاب پرموقف
امریکہ مختلف تہذیبوں اور مذاہب کے احترام اور ان کے طور طریقوں کو اختیار رکھنے کی اجازت دیتاہے۔امریکہ میں مکمل آزادی کا نظام ہے جس کے تحت آزادی خیال کو سرکار کے عمل دخل سے آزاد رکھا گیا ہے۔لہٰذا اسلامی لباس پر پابندی کا نفاذ امریکی سیاسی سماجی ڈھانچہ کے ناممکنات میں شامل ہے۔اسلامی لباس پر پابندی امریکہ میں ناممکن ہے اور مذاہب ،تہذیبوں کے افراد کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کا لباس پہن سکتے ہیں۔اس ضمن میں امریکی صدر براک اوبامہ نے قاہرہ میں عالم اسلام کے نام اپنے پیغام میں صاف طرز پر اعلان کردیاتھا کہ مسلم عورتوں کو کیاپہنناچاہئے،اس پر کوئی ہدایت نہیںہے۔ایساکرنامسلمانوں کے تئیں نامناسب جذبات ظاہر کرتاہے اور یہ لیبرلزم کے خلاف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں جو فٹ نیس کلب اور جم ہیں ان میں حجاب پہننے والی خواتین اور آزاد خواتین دونوں کے لئے انتظامات ہوتے ہیں۔لہٰذا امریکہ میں حجاب یا مکمل برقعہ پرپابندی کا اندیشہ نہیں ہے۔
کناڈامیں حالات مختلف ہیں پچھلے سال ۱۲دسمبر ۲۰۱۱کو حکومت نے اپنے شہریوں کے لئے چہرہ ڈھکنے پرپابندی عائد کردی ہے۔اس سے قبل ۲۰۰۷ میں فٹ بال کھلاڑی اسماہن منصورکو کیوبیک ٹورنامنٹ سے صرف اس لئے باہر کر دیاتھاکیوں کہ وہ حجاب پہننے پر مصرتھی۔ حجاب کناڈا کی سوسائٹی میں کافی گرماگرم موضوع رہاہے۔کناڈا کی ایک مسلم تنظیم دی مسلم کناڈین کانگریس حجاب کو غیر اسلامی قرار دیتی ہے۔اس تنظیم کی ترجمان فرضانہ حسن کا کہناہے کہ قرآن میں ایسا کہیں نہیں لکھاہے کہ عورتوں کو چہرہ ڈھکنالازمی ہے۔لہٰذا یہ گروپ برقعہ پرپابندی کا قائل ہے۔
ترکی:ترکی یوروپ کاایک سیکولر مسلم ملک ہے اور ۱۹۸۰ میں فوجی انقلاب کے بعدسرکاری عمارتیں،لائبریریوں وغیرہ میں حجاب پر مکمل پابندی تھی یعنی کوئی بھی باحجاب خاتون ان عمارتوں میں داخل نہیں ہوسکتی تھی اور ۱۹۹۷میں مہم چلاکر اس قانون کو سختی سے نافذ کردیاگیا۔کئی مقامات پر تو عورتوں سے نقاب یاحجاب اتارنے کے لیے زبردستی کی گئی اور حجاب نا اتارنے والی عورتوں کے خلاف قانونی کاروائی کی گئی۔مگر موجودہ حکمراں پارٹی اے کے پی کے اقتدارمیں آنے کے بعدغیرسرکاری طور پر اس قانون کے نفاذ میں نرمی دکھائی گئی۔ بعدازاں جب سرکارنے حجاب کو ختم کرنے کے لیے قانون بنایاتو وہاں کی سپریم کورٹ کی ایک آئینی بنچ نے اس کوغیر قانونی قراردے دیا۔
فروری۲۰۰۸کو ترکی کی پارلیمنٹ نے ایک آئینی قانون پاس کیاجس کی رو سے عورتوں کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ حجاب پہن کر اپنی اعلیٰ تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں۔اس کو قانون بنانے کے لیے یہ جوازدیاگیاکہ تعلیم گاہوںمیں حجاب پہن کر آنے کی اجازت سے زیادہ سے زیادہ عورتوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ لیکن اس قانون کو بھی اسی سال جون میں غیر آئینی قرار دے کر رد کر دیاگیا۔لہٰذا یہ معاملہ حکمراں اے کے پی اور سیکولرطاقتوں،اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا سبب بن گیا۔فوج، یونیورسٹیوں اور عدالتوں نے حجاب پرپابندی ہٹانے کی مخالفت کی۔ترکی میں یہ تین ادارے سیکولر طاقتوں کے سب سے اہم مراکز تھے۔
ڈنمارک:ڈنمارک میں پیغمبر اسلام کے کارٹونوں کی اشاعت اسلاموفوبیاکی بدترین مثال قرار دیاجاسکتاہے۔ان کارٹونوںکے ذریعہ مسلمانوں کو مشتعل کیاگیااور جب مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیاتو جوابی کاروائی کرتے ہوئے جان بوجھ کریورپ کے کئی ملکوں میں یہ کارٹون دوبارہ شائع کئے گئے ۔اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے اس پورے معاملہ کو اسلاموفوبیا،نسل پرستی اور شدت پسندی سے تعمیرکیا۔
فرانس:فرانس میں حجاب کے خلاف پوری مہم اور قانون سازی کو مسلمانوں کو حراساں کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتاہے۔اس کے علاوہ پیرس کی مشہورمسجد میں توڑپھوڑ اور تشدد کے واقعات کو اسلاموفوبیاکے زمرے میں رکھاجاتاہے۔۱۳دسمبر۲۰۰۹کو جنوبی فرانس میں کیسٹرس کی ایک مسجد میں تشدداور تخریب کاری،ایک مسجد کی انتہائی بے حرمتی سے مقامی مسلم آبادی کے جذبات کو بر انگیختہ کیاگیا۔
ناروے:اسی طرح جولائی۲۰۱۱میں ایک سرپھرے نوجوان کے ذریعہ ۷۶ افراد موت کے گھاٹ اتارنے کی واردات کو اسی زمرے میں رکھا گیا۔اس سنگین واردات کے لیے ایک۳۲ سالہ نوجوان آندریزبجرنگ بیرویک کااقبال جرم دائیں بازوکی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔
اسلاموفوبیادہشت گردی کا بے بنیادالزام اور مسلمانوں سے نفرت
آج پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سخت نفرت کے جذبات عام ہیں۔ان کو امن عالم باہمی میل جول اور رواداری کے لیے خطرہ بناکر پیش کیاجاتاہے۔۱۹۸۰کے آخر اور ۱۹۹۰ کے اوائل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور ناپسندیدگی کے جذبات کے لیے ایک اصطلاح اسلاموفوبیامعرض وجود میں آئی۔ دنیا کے کئی ممتاز تعلیمی اداروں اور سماجی رویوں پر نظر رکھنے والے ارباب فکر نے اس جذبے کے مختلف پہلوؤں پر غورکرناشروع کیا۔لیکن ۱۱ستمبر۲۰۱۱کے دہشت گردانہ حملے کے بعد پوری دنیامیں جو ماحول پیداہوا۔ مسلمانوں کو قابل نفرت اور دہشت گردی کاسرچشمہ قراردیا ۔ Stockholm International forum on Combating Intolerance میں دنیاکے ممتازاداروں کے ذمہ داران شریک ہوئے۔جن میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل ، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ کے علاوہ یورپین یونین کونسل آف یوروپ نے ایک قرارداد پاس کی جس میں قتل عام،نسلی تطہیر،نسل پرستی ،یہودیوں کے خلاف جذبات اور اسلام کو خطرہ قراردئیے جانے کی مذمت کی گئی۔
اسلاموفوبیاامریکہ پردہشت گردانہ حملے کے بعدمبصرین اور ماہرین کی زبان پر اتناآیا کہ یوروپ اور دیگربراعظموںمیں مسلمانوں کی آبادی کو لے کر خوف و پریشانی کے جذبات کھلے عام ظاہرکئے گئے۔خاص طور پر مغربی یوروپ میں یہ جذبات کافی قوی تھے۔ان ملکوں کی مقامی آبادی کو اس بات کی تشویش تھی کہ عرب اور مسلم ملکوں سے آنے والی آبادی میں شرح پیدائش زیادہ ہے۔یوروپی یونین کے ایک ممتازادارے ای یوایم سی نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایاکہ یوروپ میں ستمبر۲۰۰۱ کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد مسلمانوں کے خلاف جذبات میں کتنی شدت آئی ہے۔
برطانیہ کے ایک اور معتبرادارے Runnymede Trust نے ایک مذاکرہ کرایاجس کی صدارت یونیورسٹی آف سسیلس کے وائس چانسلرپروفیسر گورڈن کانوے نے کی تھی۔اس مذاکرہ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی Islamophobia:A Challenge for us all1997 میں وزیر داخلہ برطانیہ جیک اسٹرانے پیش کی تھی۔اس میں کہاگیاتھاکہ اسلاموفوبیاایک جذبہ ہے جو مسلمانوں کے خلاف بے بنیادجذبات کو فروغ دیتاہے اور جس کی وجہ سے تعصب اور الگ تھلگ کرنے کے جذبات پیداہوتے ہیں۔اس مطالعہ میں بتایاگیاتھاکہ یہ جذبہ نفسیاتی اور شخصی نوعیت کا ہے۔ پروفیسر آف ریلیجن پڑگوٹس چاک اور گیبرل گرین برگ نے کہاہے کہ اسلاموفوبیااس جذبہ کا نام ہے جوسماج میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں تشویش پیداکرتاہے۔
مسلمانوں کے خلاف تشدد برطانیہ کی تہذیبی روایت کے منافی
برطانیہ خاص طور پرلندن اپنی رنگارنگ تہذیب کا مرکز اور ثقافتی اور مذہبی روادداری کے لیے مشہور ہے۔لیکن حال ہی میں لندن کے بلیک فیئرکراؤنڈ کوٹ میں جیوری ممبر کی حیثیت سے حلف لینے جارہی ایک خاتون کو صرف اس وجہ سے حلف نہیں دلایاجاسکاکہ اس نے دوران ڈیوٹی حجاب اتارنے سے انکار کردیاتھا۔اطلاعات کے مطابق جج ایڈن مارن نے اس کو یہ کہتے ہوئے حلف دلانے سے انکارکردیاکہ وہ مختلف معاملات کی سماعت کے دوران اپنانقاب نہیں اتارے گی۔جج کا کہنا تھاکہ وہ مختلف معاملات پر کس طرح سے ردعمل ظاہرکرتی ہیں۔نقاب کی وجہ سے سامنے نہیں آسکے گا۔برطانیہ امریکہ کاقریب ترین حلیف ملک ہے ،امریکہ پر دہشت گردانہ حملہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی قیادت میں جومہم چلائی گئی تھی اس میں برطانیہ پیش پیش تھا۔حالاں کہ اس دہشت گردانہ حملے کا اس پر کوئی فوری اثر نہیں پڑالیکن امریکہ نے جہاں جہاںدہشت گردی کے خاتمے کے بہانے فوجی کاروئیاں کیں۔ان میںبرطانیہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔چاہے وہ عراق کامعاملہ ہویاافغانستان کا برطانیہ نے امریکہ کی سرپرستی میں ہونے والی جنگوں اور فوجی کارروائیوں میں تن من دھن سے عالمی برادری کا ساتھ دیا۔اس میں اس کا جانی نقصان بھی ہوااور مالی خسارہ بھی اس کو اٹھاناپڑا۔برطانیہ ایک مستحکم سماج ہے اور وہاں کے باشعور عوام غیر جانب دارانہ طریقہ سے امور پر غور کرتے ہیں۔لیکن مسلمانوں کے خلاف جذبات میں خاص طور پر کچھ دہشت گردانہ واقعات کے بعد مسلمانوں کے تئیں نفرت کے جذبات دیکھے گئے۔ان میں خاص طور پر مارچ۲۰۰۶میں پریسٹن کی جامع مسجد کے باہر کھڑی کئی کاروں کو نقصان پہنچایا گیااور اس واردات میں ایک ۱۶ سالہ مسلم نوجوان کو بھی چھری مارکر زخمی کیا۔اس سے قبل ۲۰۰۵ میں بھی اسی شہر میں ایک ۲۰ سالہ نوجوان شیزسان عمر جی کو تین نوجوانوں نے ہلاک کردیاتھا۔وسط ۱۹۰۹ میں گلاسگو کے ایک اسلامک فلاحی دفتر میں حملہ کیا گیااور اس میں آگ لگائی گئی۔برطانیہ میڈیاذرائع میں یہ بات باربارآئی ہے کہ جولائی۲۰۰۵کے لندن بم دھماکوں کے بعد اسلاموفوبیاکے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔اوپن سوسائٹی انسٹی ٹیوٹ کا کہناہے کہ ہوائی اڈوں پر ۳۲فیصدی مسلمانوں کو تعصب جھیلنا پڑا۔اسی طریقہ سے نوٹنگم میں کچھ نوجوانوں نے ایک مسلم نوجوان کو مارمارکر موت کے گھاٹ اتار دیا۔یہ لوگ اسلام کے خلاف نعرے لگارہے تھے۔
جنوری ۲۰۱۰ میں یونیور سٹی آف ایگزیٹرکے یوروپین مسلم ریسرچ سینٹر میں یہ بات محسوس کی گئی کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جرائم لگاتاربڑھ رہے ہیں۔ان پر تھوکاجارہاہے،ان کو گالیاں دی جارہی ہیں۔کئی لوگوں کاکہناہے کہ اس صورت حال کے لیے سیاست داں اور میڈیا کی رپوٹنگ ذمہ دارہے۔ اسلاموفوبیاکے کئی واقعات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔ان میں لندن سینٹرن مسجد کے امام پر حملہ جون ۲۰۰۹میں گرین ویچ اسلامک سینٹرپر آگ لگانے کی کوشش ۲۰۰۹ میں سٹی یونیورسٹی میں مسلم طلباپرحملہ اور ستمبر۲۰۰۹ اکرام سید الحق پر حملے شامل ہیں۔ اگست ۲۰۰۸میں ایک تنظیم نے برطانیہ میں بڑھتے اسلامی اثرات کے خلاف Bamabas Fundنام کاادارہ شروع کیا۔
مگر آج کایہ دور آزادیٔ نسواں اور حقوق مساوات وعدل کا نام دے کر اس مقدس ومحترم صنف ِ نازک کودوبارہ اسی جاہلیت ، سامانِ راحت وآرام،متاع لہو ولعب کے ماحول کی طرف لوٹانے کی سعی مذموم کررہاہے کہ مسلمانوں کی یہ شرافت وعزت کی دولت عظیم اور قیمتی خزانہ ایک بار پھر گھرکی دہلیز سے نکل کر سرِ بازار تماشائے عالم بن جائے ، رونق خانہ بننے کے بجائے شمع ِ محفل ہو، آلات وصنائع اور حقیر سے حقیر مصنوعات کی تشہیر اور فیکڑیوں، تھیٹروں، سنیماؤں، سڑکوں اور میلوں میں اور سیاست کے اسٹیج پر بھٹکتی ہوئی اور رسوا ہوتی ہوئی ، مشقتیں اور مصیبتیں اٹھاتی ہوئی مردوں کے نشاطِ طبع اور ان کے لہوولعب اور ہوس پرستی کاسامان بن جائے۔
غرض کہ مغرب اور اس کے مقلد ایک بارپھر سے اس مقدس ومحترم اور عصمت وحیا کوسرِ بازار ذلیل ورسوا اور ان کی عفت وعصمت اور پاکدامنی وپاکبازی کوپاش پاش کرناچاہتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS