انٹرنیٹ اور بچے

0

2019 میں کووڈ-19کے معاملے سامنے آنے پر یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے اثرات زندگی کے تقریباً ہر شعبہ پر پڑیں گے، دنیا کے حالات کی تبدیلی نئی ضرورتوں کا احساس دلائے گی۔ 2019سے پہلے بھی کئی ممالک میں آن لائن کلاسز ہوا کرتی تھیں، تعلیم کی ترسیل کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال ہوا کرتا تھا لیکن اس وقت حصول علم کے لیے انٹرنیٹ پر انحصار کے بارے میں سوچا بھی نہیں گیا تھا۔ دراصل مختلف ملکوں میں مہینوں کے لاک ڈاؤن کے بعد جب یہ احساس ہونے لگا کہ کووڈ-19کی وجہ سے طلبا و طالبات کی پڑھائی بھی متاثر ہورہی ہے تو باضابطہ طور پر آن لائن کلاسز شروع کی گئیں، مگر جلد ہی یہ بات سامنے آنے لگی کہ آن لائن کلاسز وہی بچے لے پارہے ہیں جن کے والدین انہیں ایک اینڈرائیڈ فون، ٹیب یا لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کنکشن کی سہولتیں فراہم کرسکتے ہیں۔ اسی طرح جو بچے آن لائن کلاسز کررہے ہیں، وہ کلاسز تو کررہے ہیں مگر انٹرنیٹ ان پر دیگر طرح سے اثرات مرتب کررہا ہے یعنی انٹرنیٹ کے توسط سے تعلیم جاری رکھیں تو پریشانی، نہ رکھیں تو پریشانی۔ ایسی صورت میں ترسیل علم کے نئے ذرائع پر غور کرنے کی ضرورت ہے جب کہ یہ بھی سچ ہے کہ کورونا وائرس نے دنیا بھر کے ملکوں کی اقتصادیات پر اس طرح اثر ڈالا ہے کہ حکومتیں کسی مدمیں بہت زیادہ خرچ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان ممالک میں حالات زیادہ خراب ہیں جن کی خستہ اقتصادیات ایک مسئلہ تھی۔ سب-صحارا افریقہ کا علاقہ مفلسی سے متاثر رہا ہے۔ اس کے باوجود وہاں کے بچے کسی طرح تعلیم حاصل کررہے تھے مگر کووڈ-19نے وہاں کی تعلیمی سرگرمیوں پر بری طرح اثر ڈالا ہے۔ حالت یہ ہے کہ وہاں کے 10بچوں میں سے 9کے پاس انٹرنیٹ کنکشن نہیں ہے اور یہ رپورٹ کسی اور نے نہیں، یونیسیف نے دی ہے۔ 30نومبر،2020کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق، 3 سے 17سال کے دنیا کے دو تہائی یا 1.3ارب بچوں کے پاس انٹرنیٹ کنکشن نہیں ہے۔ عالمی سطح پر اگر دیہی علاقوں کی بات کی جائے تو دنیا کے 60فیصد بچوں کے پاس انٹرنیٹ کنکشن نہیں ہے۔ اس سے حصول علم میں انہیں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ یہ صورت اس وقت کی تھی جب کورونا کی وجہ سے دنیا کے حالات اتنے زیادہ خراب نہیں ہوئے تھے جتنے 2021میں خراب ہوئے۔ آج 222 ممالک اور خودمختار علاقوں تک کورونا اپنا دائرہ وسیع کرچکا ہے اور یوروپی ممالک میں کورونا متاثرین کی تعداد میں ایک بار پھر تیزی سے اضافہ نے نئے اندیشوں کو جنم دے دیا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ وہ بچے جنہیں انٹرنیٹ کنکشن دستیاب نہیں ہے، ان کی پڑھائی کا نقصان ہورہا ہے تو وہ بچے جنہیں انٹرنیٹ کنکشن دستیاب ہے، انہیں مختلف طرح کے مسئلوں کا سامنا ہے۔ مثلاً بہت زیادہ موبائل، ٹیب یا لیپ ٹاپ کے استعمال سے آنکھوں پر اثر پڑنا فطری ہے، کیوں کہ بچے موبائل پر صرف کلاس ہی نہیں کرتے، ہوم ورک بنانے اور پھر انہیں بھیجنے کے لیے بھی موبائل کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ کئی اسکولوں میں امتحان بھی مجبوراً آن لائن ہی لیے جارہے ہیں۔ کئی بار بچوں کے آن لائن کلاس لیتے وقت ’انٹروڈر‘(Intruder) کے آجانے سے بچوں کو پریشانی ہوتی ہے، کیوں کہ اس وقت کسی بچے کے موبائل کا کیمرہ آف ہے تو ٹیچر کو پہلا شک اسی پر جاتا ہے۔ آج اس مسئلہ پر غور کرنا ضروری ہے کہ کورونا وبا سے پہلے کے مقابلہ آج بچوں کے جنسی استحصال میں اضافہ کیوں ہوا ہے جب کہ ان کا زیادہ تر وقت گھروں میں گزر رہا ہے۔ ’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق، ’بھارت کی سائبر سیکورٹی میں اہم کردار نبھانے والی ریاست کیرالہ کے پولیس سائبر ڈوم کے سربراہ منوج ابراہم کے مطابق وبا کے دوران بچوں کے جنسی استحصال کے ویڈیو یا سی سیم ویڈیو میں200سے 300فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔‘ امریکہ میں تو 2020نیشنل سینٹر فورمسنگ اینڈ ایکسپلائیٹڈ چلڈرن کے سائبر ٹپلائن کو جو تقریباً 2کروڑ17تصویریں، ویڈیوز اور فلمس ملیں، ان میں سی سیم سے جڑا مواد بھی تھا۔ یہ صورت حال بے حد تشویشناک ہے۔ اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ انٹرنیٹ پر بچوں کا انحصار کم کرنے کے لیے نیشنل ٹیلی ویژن چینل ملک کی سطح پر یا ریاستی سطح پر کلاسز منعقد کریں؟ اس سلسلہ میں کچھ اور بہتر کرنے کے بارے میں بھی سوچا جاسکتا ہے، کیوں کہ بچوں کو پڑھانے کے چکر میں انہیں خطرات سے دوچار رکھنے میں کوئی دانشمندی نہیں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS