چاند سے بڑھتی ملکوں کی دلچسپی

0

ایک وقت تھا کہ مستحکم اور ترقی یافتہ ہونے کے لیے آبی راستوں کی جانکاری اور زیادہ سے زیادہ سمندری علاقوں پر قبضے کواہم مانا جاتا تھا۔ یہ سوچ آج بھی نہیں بدلی ہے،کیونکہ دنیا کی زیادہ تجارت آبی راستوں سے ہی ہوتی ہے مگر اب طاقتور بننے کے لیے خلا میں طاقتور ہونے اور علم فلکیات میں آگے بڑھنے کو بھی ضروری سمجھا جانے لگا ہے، خاص کر دنیا کے پہلے آدمی کے چاند پر قدم رکھنے کے بعد سے ترقی یافتہ ملکوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ اسپیس سائنس میں نئی نئی ریسرچیں کی جائیں، اس جہان کے لیے نئی سہولتوں کے ساتھ نئے جہان کی تلاش کی جائے۔ اسی لیے کئی ملکوں کی دلچسپی چاند سے بڑھی ہے۔ اس دلچسپی کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج بھی دنیا کے ان ملکوں کے لیے چاند دور ہے جن کی اسپیس ایجنسی نہیں ہے اور اگر ہے تو ان کے پاس مون مشن پر خرچ کرنے کے لیے زیادہ پیسے نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کسی ملک کا مون مشن کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر اسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کافی آگے ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیاروں کی طرف بڑھنے اور انسانوں کے لیے نئے جہان کی تلاش کرنے کے لیے آج چاند پہلے مرحلے کی طرح ہے، اس کے سارے اسرارو رموز سے پوری طرح پردہ نہیں اٹھا ہے، اس کے سارے حصوں کے بارے میں سائنس داں دعوے سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ امریکہ چاند پر آدمی بھیج چکا ہے مگر اس کے باوجود سائنس داں یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ چاند کے کس حصے میں کتنے دنوں تک آدمی رہ سکتے ہیں، ان کو وہاں وقت گزارنے میں کیا دشواریاں پیش آئیں گی۔ مطلب یہ کہ چاند کے بارے میں ابھی بہت کچھ جاننے کی گنجائش باقی ہے اور اسی لیے ایک سے زیادہ ملکوں کی مون مشن سے دلچسپی ہے۔
امریکہ کا خلائی ادارہ ناسا ’آرتمیس پروگرام‘ نام سے مون مشن چلا رہا ہے۔ ناسا کی کوشش ہے کہ پھر سے چاند پر انسانوں کو بھیجا جائے۔ اس بار ایک خاتون کو بھی چاند پر بھیجنے کا پروگرام ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ عورتوں کے لیے بڑی کامیابی ہوگی۔ اس کا اثر دنیا بھر کی عورتوں پر پڑے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ ناسا 2024 تک انسانوں کو چاند پر بھیج سکے گا۔ فی الوقت وہ ابتدائی مرحلے کے تجربوں کے لیے طاقتور راکٹ اسپیس لانچ سسٹم یعنی ایس ایل ایس بھیج رہا ہے۔ امریکہ کے علاوہ بھی دیگر ملکوں کی مون مشن سے دلچسپی ہے۔ ان ملکوں میں ہمارا ملک بھارت اور روس، جاپان، جنوبی کوریا شامل ہیں۔ زیادہ تر ملکوں کے لیے مریخ مشن ہی اصل مشن ہے اور اسی مشن کے تحت وہ چاند کو پہلا مرحلہ مانتے ہیں۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف برسٹل میں ایسٹروفیزیسسٹ ڈاکٹر زوئی لنہارٹ کا ماننا ہے کہ ’یہ سال ایک نئی طرح کی اسپیس ریس کا گواہ بنے گا اور اس فہرست میں کئی اور ملکوں کے نام جڑیں گے۔ ان میں سے زیادہ تر چاند کی ریسرچ مہم ہوگی لیکن کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کا مقصد چاند پر طویل مدت تک رہنے سے بڑا ہوگا۔‘ ڈاکٹر زوئی کا یہ بھی ماننا ہے کہ ’کچھ مشن کا مقصد ایک بڑے منصوبے کے لیے پہلا قدم بڑھانے جیسا ہے۔ چاند کا مشن کچھ نئے تصورات کو ثابت کرنے کا موقع تو ہوگا ہی، یہ خلا سے وابستہ نئی تکنیک اورنئی حصہ داریوں کے امتحان کا بھی بہتر موقع ہوگا۔‘
ہمارے ملک کے مون مشن ’چندریان-1‘ نے کافی شہرت حاصل کی۔ چین میں بھی کافی پہلے سے مون مشن پر کام ہو رہا ہے۔ جاپان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کافی آگے ہے، چنانچہ اس سے مون مشن سے وابستگی کی توقع کی جاتی تھی۔ ذرا دیر سے ہی سہی، اس نے اس طرف توجہ دی۔ رپورٹ کے مطابق، ’اس سال چاند پر جاپان کے بھی دو پروجیکٹس ہیں۔ جاپان اسپیس ایجنسی یعنی جے اے ایکس اے اس سال اپریل میں چاند پرایک لینڈر اتارنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اسمارٹ لینڈر فوک انوسٹی گیٹنگ دی مون یعنی ایس ایل آئی ایم نام کے اس مشن کے ساتھ چاند پر لینڈنگ تکنیک کا ٹسٹ کیا جائے گا۔ یہ مشن فیشیل ریکنگ نیشن سسٹم کے ذریعے چاند پر موجود گڈھوں کے بارے میں جانکاری یکجا کرے گا۔‘مختلف ملکوں کے مون مشن پر اگر غور کریں تو اس سے یہ لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں چاند کے بارے میں نئی معلومات سامنے آئیں گی اور یہ معلومات بھی اگر اس سے دلچسپی بڑھانے کی وجہ بن جائیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS