واقعۂ سویڈن اور مسلمانوںکے اعلیٰ و زریں کردار

0

جمہوریت پسندی، انسانی اقدار اور مذہبی رواداری کے نام نہاد علمبردار مغربی ممالک کے قول و فعل کے تضادات سامنے آتے جارہے ہیں۔ عین عیدالاضحی کی نماز کے بعد قرآن سوزی کو پولیس کے تحفظ میں نذرآتش کرنے اور اس کی بے حرمتی کرنے کے دلخراش واقعات نے نہ صرف امت مسلمہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا بلکہ پوری دنیا کے انصاف پسند لوگوں نے اس شرمناک واردات کی اوراس واردات کے انعقاد میں سویڈن کی حکومت کی درپردہ کاوشوں کی مذمت کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دلخرا ش واقعہ کے ویڈیو پوری دنیا میں دکھائے گئے اور الگ الگ ممالک اور الگ الگ طبقات نے اس پر روشنی ڈالی۔ جبکہ دو روز قبل سویڈن میں ہی ایک نوجوان نے توریت اور عیسائیوں کی مذہبی کتاب بائبل کو نذرآتش کرنے اور ان دونوںکتب کی بے حرمتی کی اجازت حاصل کرلی تھی، مگراس کے باوجود اس مسلم نوجوان نے تمام اجازتوں اور پروپیگنڈہ مشینری کے سرگرم ہونے کے باوجود عین وقت پر ان دونوں مذہبی صحیفوں کی بے حرمتی کرنے سے اجتناب کیا۔یہ واقعہ اتنا ہی دل کو چھو دینے والا تھا جتنا کہ قرآن شریف کی بے حرمتی کرنے کا دلخراش اور ضمیر کو جھنجھوڑنے والا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سویڈن کے دوسرے واقعہ جس میں نوجوان نے یہودیوں اور عیسائیوںکی کتب کو جلانے سے انکار کیا تھا اس کی کوئی چرچا، کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ اس پر کوئی ڈیبیٹ نہیں ہوئی جبکہ یہ واقعہ مسلمانوں کی اعلیٰ ظرفی اور دوسرے مذاہب کا احترام کرنے کی ایک طویل اور اسلامی تعلیمات پر مبنی جبلت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اسلام کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے دل توڑنے والے اور جذبات کو برانگیختہ کرنے والی حرکت کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ آج جس وقت یہ سطور لکھی جارہی تھیں اسی وقت عراق کی راجدھانی بغداد میں سویڈن کے سفارت خانے کونذرآتش کردیا گیا۔ ظاہر ہے یہ رویہ بھی کوئی مناسب نہیں ہے، مگر پوری دنیا میں مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے افغانستان کے حکمراں طبقے نے جب دودہائی قبل بامیان میں گوتم بدھ کے مجسموں کی بے حرمتی کی قابل مذمت کوشش کی تھی تو پوری دنیا میں اس کی زبردست نکتہ چینی ہوئی تھی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بامیان میں گوتم بدھ کے مجسموں کو منہدم کرنے کا فیصلہ انتہائی شرمناک اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کے خلاف تھا، مگر یہاں پر اگرہم مغربی ممالک اور مہذاب اقوام کے طور طریقوں پر غورکریں تو ان کے قول وفعل کا تضاد سامنے آجاتا ہے۔ اقوام متحدہ میں جو قرارداد پاس ہوئی اس میں ان مغربی ممالک نے قرآن سوزی کی واردات کی اتفاق رائے سے مذمت نہیں کی۔ اس میں امریکہ، برطانیہ ، فرانس اور کئی ممالک شامل ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جو بامیان کی مذموم کی حرکت کی مذمت کر رہے تھے۔
اقوام متحدہ میں جب اس دلخراش واقعہ پر ووٹنگ کا معاملہ آیا توانہوںنے اس بنیادی نکتے کو نظرانداز کیا کہ مذہبی جذبات، شخصیات، صحیفے اور مقامات کی بے حرمتی کرنا بہرطورپر ناقابل قبول ہے۔
ہمارے قوانین و ضوابط اس مذموم حرکت کو روکنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ سویڈن کی عدالت کے احکامات پر ہی قرآن سوزی، بائبل اور توریت سوزی کی اجازت ملی تھی۔ یہ انصاف کی اعلیٰ اقدار کو ثابت کرنے والا قدم اس لئے نہیں ہے کیونکہ قرآن یا دیگرمذہبی کتب یا صحیفے عام کتاب، عام اخبار یا کسی بھی اظہارخیال کی آزادی سے بالاتر ہیں۔ اگرچہ پچھلے دنوں ہم نے کئی مرتبہ نوٹ کیا کہ فرانس اورڈنمارک و دیگر مغربی ممالک میں بھی اس قسم کی حرکتیں ہوئی ہیں، لیکن مغربی ایشیا کے یا مسلم ممالک میں یا غیر عیسائی ممالک میں اس قسم کے واقعات نہیں ہوئے ہیں۔ جمہوریت کا تحفظ، اظہار خیال کی آزادی، اعلیٰ خیالات ہیں جن پر عمل ہونا چاہئے، مگر یہ اقدار اور اصول اگر مذہبی جذبات سے متصادم ہوتے ہیں تو ان پر نظرثانی کی گنجائش ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کسی ایسے شخص، تنظیم یا گروپ کے خلاف کوئی غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرانسانی حرکت کی وکالت کر رہے ہوں جو اس قسم کے مذموم حرکتوں کا مرتکب رہا ہے یا اس قسم کی حرکتوں کی وکالت کرتا رہا ہے۔ فرانس میں اس طرح کے واقعات دوہرائے گئے جہاں پیغمبراسلام کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ آپؐ کے شرمناک کارٹونوں کے ذریعہ ان کی شخصیت پر نعوذباللہ حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پیغمبراسلامؐ اور دوسرے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ یا حضرت ابراہیم علیہ السلام وغیرہ مسلمانوں کے اتنے ہی ہردلعزیز، محترم انبیائے کرام ہیں جن کی بے حرمتی کی کوشش مسلمان نہیں کرسکتا۔ اگرچہ کوئی بھی شخص ان شخصیات کی شان میں کوئی قابل اعتراض جملہ یا مذموم حرکت کرتا ہے اس سے مسلمانوںکو ٹھیس پہنچتی ہے بلکہ مسلمانوں کو حضرت عیسیٰؑ کی شان میں کی گئی کسی بھی بے حرمتی کی ٹھیس عیسائیوں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان میں کسی بھی گستاخی کی چوٹ یہودیوں سے زیادہ گہری ہوتی ہے۔ کیونکہ تمام مسلمانوںکا یہ ایمان ہے کہ یہ تمام انبیاء حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی تصدیق کرنے والے ہیں اوراللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نبی اور رسول ہیں۔ ان تمام دلائل اور نکات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمان چاہے ان پر کسی بھی قسم کا ٹھپہ لگا دیا جائے، مگر ان کے اندر دیگراقوام سے زیادہ وسعت قلبی و ذہنی ہوتی ہے وہ کسی بھی مذہب کی شخصیات اورعلامتوں کا مذاق اڑانا پسند نہیں کرتے۔ یہ معاملہ صرف ذاتی پسند یا ناپسند کا نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ خود قرآن پاک کی تعلیمات اور پیغمبر آخرالزماںؐ کے احکامات کا نتیجہ ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ مسلمانان عالم اور ہند اپنے قول وعمل میں کبھی بھی اس قسم کی کسی بھی دلخراش واقعہ کی نہ تعریف کریںگے اورنہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کریںگے۔ ایک مسلمان اس قسم کی حرکتوں میں شامل ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کسی بھی فرد کے ذاتی فعل کو کسی بھی امت، قوم یا طبقے سے نہیں جوڑنا چاہئے۔ ہر طبقے میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارے تمام مذہبی اکابرین، تبلیغی جماعتیں، تنظیمیں اس بات کی نقیب ہونی چاہئے کہ وہ مسلمانوںکویہ سمجھائیں کہ وہ سب کا احترام کریں اور بلاوجہ کے غیرضروری مناظروںمیں نہ پڑیں۔ پھر یہاں اسی قرآن کریم کی آیت کا ذکر کرنا بیجا نہیں ہوگا جس میں کہا گیاہے کہ لااکراہ فی الدین۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS