فاتح ارض مقدس مراد ِرسول سیدناعمر فاروق ؓ

0

مولانامحمدطارق نعمان

نام :عمر،لقب: فاروق اعظم اور کنیت ابوحفص تھی۔ باپ کا نام خطاب اور والدہ کانام عنتمہ بنت ہشام بن مغیرہ تھا۔ جوکہ ابوجھل کی بہن تھیں۔ آپ کا رنگ سفید مائل بہ سُرخی ، رخساروں پرگوشت کم ، قدمبارک درازتھا آپ تمام آدمیوں میںاونچے معلوم ہوتے تھے۔ بدن مبارک مضبوط تھا۔ قریش کی ایک شاخ عدی سے تعلق تھا۔ سلسلہ نسب عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن زراع بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب نویں پشت میںجاکر حضورؐ سے ملتا ہے۔ آپ 583ء میںپیداہوئے۔ عرب ماحول میں تربیت حاصل کی ۔ اونٹ چرائے اور فن سپہ گری میںبھی دست رس حاصل تھی۔ شہسواری اور پہلوانی میں بھی مقام حاصل تھا۔ آپ کے گھرانے میں سب سے پہلے آپ کے بہنوئی حضرت سعدؓ اور پھر بہن فاطمہ نے اسلام قبول کیا اس کے بعد آپ نے نبوت کے چھٹے سال 27برس کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ نے رب سے التجاکی کہ یااللہ اپنے دین کی مضبوطی کے لئے یا تو ہشام کا بیٹادے دے یاخطاب کابیٹادے دے۔ نبی کریمؐ کی دعا قبول ہوئی اللہ پاک نے خطاب کے بیٹے کوچن لیا۔ میرے والد محترم قاضی محمداسرائیل گڑنگی فرماتے ہیںکہ امیرِشریعت حضرت مولاناسیدعطاء اللہ شاہ بخاری فرمایاکرتے تھے کہ تمام صحابہ مُرید رسولؐ ہیں مگر حضرت عمرؓ مراد رسولؐ ہیں۔ آپ کے اسلام لانے پر حضرت جبرائیل ؑ نبی کریم ؐ کے پاس آئے اور آپ کو مبارک باد دی اور فرمایا کہ آسمان والے ایک دوسر ے کو عمرکے اسلام لانے کی خوشخبریاںسنا رہے ہیں۔
ہجرت نبوی کے کچھ عرصہ بعد حضرت عمر نے بیس افراد کے ساتھ اعلانیہ مدینہ کو ہجرت کی ۔ تمام غزوات میں حصہ لیا۔ 634ء میںخلافت کے منصب پہ فائزکیے گئے۔644ء تک اس عہدہ پر کام کیا، آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھی آپ کے انداز ِحکمرانی کو دیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پہ مجبور ہوگیاکہ اگر عمر کو 10سال خلافت کے اور ملتے تو دنیا سے کفر کانام ونشان مٹ جاتا۔ حضرت عمر کازمانہ خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا۔ اس میںدو بڑی طاقتوں ایران و روم کو شکست دے کرایران، عراق اور شام کو اسلامی سلطنتوں میںشامل کیا۔ بیت المقدس کی فتح کے بعد آپ خود وہاںتشریف لے گئے۔
حضرت عمر فاروق ؓ کو فاروق کا لقب کیسے ملا: ایک دفعہ ایک یہودی اور ایک منافق کا جھگڑا ہوا منافق ظاہراًمسلمان تھا اس نے کہا کہ رسول اللہ ؐ کے پاس ہم اپنا جھگڑا لے کے جاتے ہیں جو فیصلہ وہ کریںگے ہم دونوں منظورکر لیںگے ۔ دونوں نبی کریم ؐ کے پاس گئے اور نبی کریم ؐنے دونوںکی بات سنی اور فیصلہ اس یہودی کے حق میںفرمادیا۔ اس منافق نے کہا کہ ہم اپنا جھگڑا حضرت عمر ؓکے پاس لے کے چلتے ہیں، حضرت عمر ؓکے پاس گئے اس یہودی نے کہا کہ ہمارے درمیان فیصلہ آپ کے پیغمبر نے کر دیا ہے جب آپ ؓ نے یہ سنا تو آپ اپنے گھر کے اندر سے تلوار لے کے آئے اور فرمایا جو میرے نبی کے فیصلے کو نہیںمانتا اس کا فیصلہ عمر کی تلوار کرتی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے تلوار چلائی اور اس منافق کا سر تن سے جدا کر دیا جب اللہ کے رسولؐ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ ؐ نے فاروق کا لقب عطاکیا (یعنی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا)
عدل فاروقی کی ایک جھلک: حضرت عمرفاروق ؓ بہت ہی بارعب اور نڈر تھے لیکن انصاف ہمیشہ آپ کی عدالت سے ہی ملتاتھا حضرت عمر ؓایک دفعہ ممبر رسولؐ پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑاہوگیا اورکہنے لگا کہ اے عمر! ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیںگے جب تک یہ نہ بتائوگے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہواہے یہ زیادہ ہے اور جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایاکہ اس مجمع میں میرا بیٹاموجود ہے اس بات کا جواب میرا بیٹادے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اٹھ کر کے کھڑے ہوئے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ بیٹا بتائوکہ تمہارا باپ یہ کپڑاکہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس ممبر پر نہیںچڑھوںگا۔ حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایاکہ جومیر ے باباکو کپڑاملاتھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا لباس نہیں بن سکتاتھا۔ اور ان کے پاس جو لباس تھا وہ بہت خستہ حال تھا اس لیئے میں نے اپنا کپڑا بھی اپنے والد کو دے دیاجس سے ان کاپورا لباس بن گیا۔ سبحان اللہ کیا عظیم لوگ تھے کہ جن کے سامنے ایک غریب آدمی بھی کھڑاہوکر کے پوچھ سکتا تھا کہ اے امیرالمئومنین تقریر بند کیجئے ذرایہ بتائیے کہ جو تن پہ لباس پہنا ہوا ہے یہ کہا ںسے لایاہے؟آج کے دور میں غریب کو اپنے حاکم سے پوچھناتو درکنار دیکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
دن کو مصلے پہ رات کو مدینہ کی گلیوںمیں: جب آپ ؓخلیفہ بنے تو آپ راتوںکو اٹھ کر مدینہ کی گلیوںمیں پہرادیاکرتے تھے تاکہ معلوم ہوسکے کہ رعایاکوکوئی تکلیف تونہیں۔ لوگ آرام سے سوتے مگرحضرت عمرؓ اپنی نیندکو رعایا کے سُکھ پہ قربان کر دیتے۔ ایک رات حسبِ معمول آپؓگشت پرتھے کہ ایک قافلہ کو دیکھاجس نے شہر سے باہر پڑائو ڈالاہوا تھا آپ نے سوچاکہ قافلہ والے تھکے ہارے ہوئے ہوںگے کہیں ایسا نہ ہو کہ چور ان کے سامان کاصفایاکردے۔ یہ سوچ کر آپ اس قافلے کی طرف روانہ ہوگئے کہ اچانک ایک طرف حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ تشریف لائے اور آپ کو دیکھ کر حیرانگی سے بولے امیرالمئومنین !آپ اس وقت کہاںجارہے ہیں؟حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ عبدالرحمان۔ ایک قافلہ نے یہاںپڑائوڈالاہے۔ مجھے ڈرہے کہ کوئی چور ان کوکوئی نقصان نہ پہنچائے اس لئے آئو ہم دونوں ان قافلہ والوںکے سامان کی رکھوالی کریں۔ وہ دونوںعظیم صحابی ساری رات قافلے کی نگہبانی کرتے رہے اور فجرکی آذان کاوقت ہوگیا۔ آپ ؓ نے بلند آواز سے فرمایا۔ اے قافلے والواٹھو! نمازکاوقت ہوگیاہے۔ جب وہ لوگ نیند سے بیدار ہوئے توحضرت عمرؓاورعبدالرحمان بن عوف ؓواپس تشریف لے گئے۔ ایسا حکمران ملنا آج کے اس دور میںمشکل ہے جو اپنی رعایاکے لیے اپنا سکون بھی قربان کر دے ۔
فاروقی عدالت میں اہلبیت کامقام: جب مدائن فتح ہوا تو مال غنیمت کاڈھیر مسجدنبوی میںلگایا گیا توحضرت عمرؓنے سب سے پہلے ایک ایک ہزار درہم حضرت حسن ؓاور حضرت حسین ؓکو دیئے اور پھر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو پانچ سودرہم دیئے تو حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا کہ میںنے آپ کی قیادت میںغزوات میں حصہ لیاجب کہ اس وقت حسنینؓ بہت چھوٹے تھے لیکن آپ نے انہیںزیادہ رقم عطافرمائی ہے۔ فاروق اعظم ؓ کو یہ سن کر جلال آگیا اور فرمایا کہ عبداللہ تم حسنین کے مقابلے میں اپنی بات پوچھتے ہو؟ تو جائو ان کے باپ (حضرت علیؓ)جیساکوئی باپ لے آئو۔ ان کی ماں(حضرت فاطمہؓ) جیسی کوئی ماں لے آئو۔ ان کے نانا (تاجدارمدینہؐ) جیسا کوئی نانالے آئو۔ ان کی نانی( حضرت خدیجہؓ)جیسی کوئی نانی لے آئو۔ ان کے چچا(حضرت جعفرؓ)جیساکوئی چچالے آئو۔ ان کی پھوپھی (حضرت ام ہانیؓ)جیسی کوئی پھوپھی لے آئو۔ ان کے ماموں(حضرت ابراہیمؓ ؓ)جیساماموںلے آئو۔ خداکی قسم! عمرپرتم ان جیساایک رشتہ بھی نہ لاسکو گے۔ جب یہ سارا واقعہ حضرت علی ؓ تک پہنچاتو حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ عمر جنتیوں کاچراغ ہے۔ جب یہ بات سیدناعمرؓ ؓتک پہنچی تو عمر ؓ بیقرارہوگئے اورحضرت علی ؓ سے فرمایا کہ علی میرے بھائی یہ بات مجھے لکھ کے دے دو۔ حضرت علی ؓ نے لکھا کہ میںنے رسول اللہ ؐسے سناکہ عمرجنت کے چراغ ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے وصیت فرمائی کہ میں مروں تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا اور ان کے وصال کے بعد اس وصیت پر عمل کیاگیا۔ اس واقعہ سے معلوم ہواکہ وہ حضرات ایک دوسرے کابہت احترام بھی کرتے تھے اور خیال بھی رکھتے تھے۔ اور ایک دوسرے کے مناقب بھی بیان کرتے تھے۔
شہادت فاروق اعظم ؓ:اللہ رب العزت نے مراد رسول ؐ کوشاندار زندگی دی اور میت بھی شاندار عطافرمائی ۔حضرت عمرفاروق نے خداتعالیٰ سے دعافرمائی : اے اللہ!تیرے رستے میں شہادت پانے کاسوال کرتاہوں اورتیرے حبیب کے شہر میں موت چاہتاہوں :شہر رسول (مدینہ منورہ) میں پروردگارعالم نے ایسی رعنائی اورکشش رکھی ہے کہ اس شہر آرزوکوچھوڑنا آسان کام نہیں ۔اکثر وبیشترصحابہ کرام نے اسی خواہش وتمناکااظہار کیا۔ حضرت عثمان غنی ؓنے تویہاں تک فرمایاتھاکہ مجھے موت منظور ہے لیکن رسول خداؐ کے شہر کی جدائی گوارانہیں ۔
حضرت عمرفاروق ؓ نے اللہ کے حضور شہادت کی موت کے لیے جودعامانگی تھی وہ بارگاہ خداوندی میں منظور ہوگئی ۔فیروز نامی پارسی حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کاغلام تھا۔وہ چکیاںبنانے کاماہر تھا۔امیرالمئومنین حضرت عمر فاروق کے دورحکومت میں ایرانی فتوحات سے اس قدر نالاں تھاکہ اس کے سینے میں حضرت عمر فاروق ؓ کے خلاف جوش انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی ۔ایک روزوہ حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر حاضر ہواکہ میرامالک مجھ سے زائد ٹیکس وصول کرتاہے ،حضرت عمرفاروق ؓ نے پوچھاکہ وہ تجھ سے کتناٹیکس وصول کرتاہیَ؟اس نے کہاکہ وہ مجھ سے دودرہم یومیہ وصول کرتاہے ۔امیرالمئومنین نے فرمایاکہ تمہارے فن اورکاریگری کے لحاظ سے یہ ٹیکس کچھ زیادہ نہیں ۔حضرت عمرفاروق ؓ نے فرمایاکہ سناہے کہ تم چکی بہت اچھی تیار کرتے ہو؟ایک چکی مجھے بھی بناکردو۔
اس نے کہاکہ میں آپ کوایسی چکی بناکر دونگاجس کی ساری دنیامیں دھوم مچ جائے گی جب فیروز امیرالمئومنین کے دربار سے چلاگیاتوسیدناعمرفاروق ؓ نے اپنی کمال بصیرت کی بناء پر موقع پہ موجود صحابہ کرام سے کہاکہ فیروز کی جواب سے مجھے انتقام کی بوآئی ہے یہ شخص مجھے قتل کی دھمکی دے گیاہے ۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ امیرالمئومنین اس شخص کوگرفتارکرلیاجائے فاروق اعظم ؓ کاعدل دیکھئے کہ انہوں نے جواب دیاکہ اس نے مجھے دھمکی ضرور دی ہے لیکن اقدام ِ جرم نہیں کیالہٰذاتعزیر نہیں لگائی جاسکتی۔بدھ کے دن 27ذوالحجہ23ھ کوحضرت عمرفاروق ؓ حسب معمول صبح کی نماز کے لیے اما م الانبیاءؐ کے مصلیٰ پہ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے ۔فیروز بھی نمازی کے روپ میں خنجرچھپائے پہلی صف میں کھڑاہوگیا اور موقع ملتے ہی ظالم نے امیرالمئومنین ؓ کوزہر میں بجھے ہوئے خنجرکے پے درپے وار کرکے گھائل کردیا مرادرسول ؐ کے عزم وہمت کے کیاکہنے زخموں سے چور امیرالمئومنین حضرت عمرفاروق ؓ نے گرتے ہی مصلیٰ امامت حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ کے سپرد کیا۔ خون میں لت پت امیرالمئومنین ؓ نے اشاروں سے نماز مکمل کی کہ کہیں امامت وخلافت میں حرف نہ آجائے ۔نماز کے بعد آپؓ نے پہلاسوال یہ کیاکہ میراقاتل کون ہے؟معلوم ہواکہ وہ غیرمسلم ہے ۔آپ ؓ نے بلند آواز سے کہاکہ الحمدللہ ۔گویاامیرالمئومنین کی شہادت کی خواہش پوری ہونے کاوقت آگیا۔ حکیم بلایاگیا لیکن اس کی پلائی ہوئی دوا زخموں کے راستہ باہرنکل گئی ۔ فاروق اعظم ؓ کو یقین ہوگیاکہ میری خواہش ضرور پوری ہوگی۔ اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کوبلایا اور فرمایاکہ اماں عائشہ ؓ کے پاس چلے جائو میراسلام کہنا اور یہ درخواست پیش کرناکہ عمرفاروق خادم اسلام کی حیثیت سے مصطفی ؐ کے پہلومیں جگہ چاہتے ہیں جوآپ ؓ نے اپنے لیے رکھی ہے حضرت عبداللہ ؓ حضرت عائشہ ؓ کے پاس چلے گئے ۔اماں عائشہ ؓ نے روتے ہوئے کہاکہ یہ جگہ بہت قیمتی ہے کوئی اورہوتا تومیں انکارکردیتی حضرت عمرفاروق ؓ کو میں کیسے انکارکرسکتی ہوں جس نے مشکل وقت میں میراساتھ دیاتھا جب سب میراساتھ چھوڑگئے تھے ۔حضرت عمرفاروق ؓ کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ۔جب اس عظیم المرتبت انسان نے برملااعلان کیاتھا’’سبحٰنک ھذابھتان عظیم‘‘
حضرت عبداللہ ؓ واپس لوٹے توحضرت عمرفاروق ؓ نے فرمایاکہ مجھے اٹھاکربٹھائو اماں عائشہ ؓ کاجواب لیٹے سننا میں بے ادبی وگستاخی سمجھتاہوں ۔ آپ کے صاحبزادے نے خوشخبری سنائی آنکھوں میں آنسوتھے ۔ سجدہ شکر اداکیا اور حاضرین مجلس کوایک بارپھروصیت کی کہ جب میراانتقال ہوجائے میری آنکھیں دیکھنابندکردیں۔ میرے کان سننا بند کردیں ،میری زبان بولناچھوڑدے ،میرے پائوں چلناچھوڑدیں ،میرے ہاتھ میراساتھ چھوڑدیں ،میراجسم کفن میں لپٹادیاجائے میری میت کوام المئومنین حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کے دروازے پرلے جاکررکھ دیاجائے میرے چہرے سے کفن ہٹادیاجائے اور ایک مرتبہ پھراماں عائشہ ؓ سے روضہ اقدس میں تدفین کی اجازت طلب کی جائے اگروہ اس امر کی اجازت دے دیں توٹھیک ہے ورنہ مجھے جنت البقیع میں دفن کردیاجائے اس لیے کہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ عمرنے زبردستی یاطاقت کے ذریعے یہ جگہ حاصل کرلی۔ ایساہی کیاگیاہفتے کے دن یکم محرم الحرام کو 63برس کی عمر میں مدینہ منورہ میںشہادت پاگئے آپ کی تدفین حضرت عائشہ ؓکی اجازت سے حضور ؐکے پہلومیںہوئی۔ آپ کی نمازجنازہ حضرت صُہیب ؓ نے پڑھائی۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت عمرفاروق ؓ کے اطوار پہ چلنے کی توفیق عطافرمائے۔ (آمین)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS