مقدس قرآن کریم: امن و سلامتی کا ضامن ہے: ڈاکٹر ریحان اخترقاسمی

0

ڈاکٹرریحان اخترقاسمی
اسلامی تہذیب وثقافت اوراسلامی تعلیمات کے فروغ میں ہمیں صرف ایک نعرہ نظرآتاہے وہ ہے امن کا نعرہ۔اسلام میں تلوار کے استعمال کومحدودکردیاگیاہے۔اس کے استعمال کوبالکل منسوخ نہیں کیا گیا ہے۔تلوار منطق یاانصاف کی جگہ نہیں لے سکتی، لیکن بعض دفعہ اس کااستعمال ناگزیر صورت بن جاتی ہے۔جیساکہ کتب سیر میں بہت سارے واقعات موجود ہیں۔اسلامی جنگوں کی ترقی اوراسلام کی ترقی کاواحد ذریعہ رہاہے کہ وہ صرف حزب اللہ یعنی اللہ کی جماعت تھی اوربلاشبہ فوجی وعسکری کامیابی اسلام کے مقدر کی تکمیل میں ایک قومی عنصر کی حیثیت رکھتاہے۔لیکن قرآنی تعلیمات سے ہٹ کر کوئی بھی عمل اہل اسلام کانہیں رہاجواصول قرآن نے مرتب کئے اس کے مطابق عمل ہوا۔جیساکہ قرآن کریم نے اسلام کے جنگ وامن اصولوں کومختلف سورتوں اورآیات میںبیان کئے ہیں ہم ان اصولوں پریہاں اختصار کے ساتھ روشنی ڈالیں گے۔
(1)اسلام میں ہوس ملک گیری کے لئے جنگ جائز ہے۔سب سے پہلااصول یہ ہے کہ محض فتوحات اورہوس ملک گیری کے لئے جنگ جائز نہیں۔صرف دفاعی اغراض اورظالموں کے خلاف جنگ جائز ہے، قرآن میں مسلمانوں کوجب مدینہ پہنچنے کے بعدپہلی باراپنے دشمنوں کے خلاف جنگ کی اجازت دی گئی تواس میں اس اصول کی وضاحت کردی گئی۔اللہ رب العزت کاارشاد ہے:
مفہوم:(وہ لوگ یعنی مسلمان جن سے جنگ کی گئی اب ان کو جنگ کی اجازت دی جاتی ہے،یہ اس لئے کہ ان پر ظلم کیاگیااوراللہ ان کی نصرت پرپوری طرح قاد ر ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جواپنے علاقوں سے ناحق نکالے گئے،صرف اس لئے نکالے گئے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے۔)
اس آیت کی تشریح کی ضرورت نہیں ،بات صاف ہے کہ ان کواس لئے جنگ کی اجازت دی جارہی ہے کہ ان پرظلم کیاگیا اوروہ اپنے شہر(مکہ) سے ظالمانہ طورپر نکلنے پرمجبور کئے گئے۔اس کے بعد ہی دوسرے سال رمضان میں اسلام کی پہلی اہم جنگ جنگ ِ بدر2ہجری میں پیش آئی۔
یہاں یہ بات بہت اہم اورقابل ِ ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچتے ہی اس جنگ سے کافی پہلے ایک Pact کے ذریعہ مدینہ میں آباد مالدار اورطاقتور یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیاتھا جس کو میثاق مدینہ کے نام سے یادکیاجاتاہے اورجن کی روسے مسلمان اور یہودی نئی ریاست مدینہ کے باشندے تھے، دونوں قوموں کواپنے مذہب پرقائم رہنے کی اجازت تھی اورمدینہ پرحملہ کی صورت میں یہودیوں پرلازم تھاکہ وہ مسلمانوں کی اپنی جانوں سے مدد کریں یعنی جنگ میں شریک ہوں اوراس کے مصارف برداشت کریں، لیکن یہودی نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے خلاف کفارمکہ کی جنگوں احدواحزاب میں شریک ہی نہیں بلکہ انہوں نے اس میثاق یا Fact کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دشمنوں کاساتھ دیا،اسی لئے ان یہودیوں کے خلاف بھی مدینہ کے مضافات اورخیبر میں جنگ کرنی پڑی۔
اس بات سے ثابت ہوتاہے کہ امن اوراس کے لئے کوشش بنیادی چیز ہے اورجنگ ایک ہنگامی شئے ہے۔
(2)دوسرااصول جنگ یہ ہے کہ باہمی مشورہ کیاجائے،جنگ احد کی مناسبت سے کہاگیا۔
(اوران سے معاملات میں مشورہ کیاکرو۔)
(3)تیسرااصول یہ ہے کہ جب جنگ کاپختہ ارادہ کرلیاجائے توپھر اللہ پرپورا بھروسہ کرناچاہئے،ترددنہیں کرنا چاہئے۔خدائے وحدہ لاشریک کاارشاد ہے:
(اوراے قرآن پڑھنے والے)جب تم نے عزم کرلیاتواللہ پرتوکل کرواوراللہ توکل کرنے والوں کوپسند کرتاہے۔)
(4)چوتھا اصول یہ ہے کہ جنگ میں اپنی طاقت سے زیادہ اللہ کی نصرت پربھروسہ کرناچاہئے۔احکم الحاکمین کا ارشاد ہے۔
مفہوم:(اگراللہ تمہاری مددفرمائے توتم پر کوئی غالب آنے والانہیں اوراگر اللہ تم کوچھوڑدے توکون ہے جواس کے علاوہ تمہاری مدد کرسکتا ہے اوراللہ ہی پر اہل ایمان بھروسہ کرتے ہیں۔)
اپنی کثرت وطاقت کے گھمنڈ کاجوحشر ہوتاہے اورجومسلمانوں کوغزوہ حنین(8ھ) میں ابتدائی شکست کی صورت میں پیش آیا اس کاذکر سورئہ توبہ کی آیت 25میں اس طرح ہے۔
مفہوم:(اللہ نے تمہاری بہت سے مواقع پرمدد کی اورجنگ حنین کے موقع پربھی جب تمہاری تعداد کی کثرت نے تم کوغرور میںمبتلا کردیا اوریہ تعداد کی کثرت تمہارے کام نہ آئی اورزمین اپنی تمام وسعت کے باوجود اس موقع پرتمہارے لئے تنگ ہوگئی،پھرتم پیٹھ موڑ کربھاگ کھڑے ہوئے۔)
سیرت کی کتابوں میں ہے کہ جنگ حنین کے لئے میدان جنگ میں جاتے ہوئے قبیلہ ہوازن وثقیف کے تیراندازوں نے ان پر گھاٹیوں سے زبردست تیراندازی کی جن سے مسلمانوں کے قدم اکھڑگئے اوروہ میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشعار پڑھتے ہوئے کافروں کوللکارا۔
اناالنبی لاکذب
ان ابن المطلب
اوراپنے چچاحضرت عباس کوجوآپ کے گھوڑے کی لگام پکڑے کھڑے تھے حکم دیا کہ بھاگنے والے انصارومہاجرین کوآواز لگائیں،ان کی ا?واز بہت بلندتھی اوران کے نعرے پرمسلمان واپس آئے گھمسان کی جنگ ہوئی اورمسلمان فتحیاب ہوئے۔
سورہ انفال میں اللہ رب العزت کاارشاد ہے۔
مفہوم:(اوران لوگوں کی مانند نہ بننا جواپنے گھروں سے اکڑتے اور لوگوں کے آگے اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے،اورجواللہ کی راہ سے روکتے ہیں،حالاں کہ وہ جوکچھ کررہے ہیں،وہ سب اللہ کے دائرئہ علم میں ہے۔)
(5)پانچواں اصول یہ ہے کہ دورانِ جنگ اگرمسلمان کومشکلات پیش آئیں،وہ زخمی ہوں یاشہید ہوں تواس سے دل برداشتہ نہ ہوں بلکہ اپنے مورچوں یاپوزیشنوں پرجمے رہیں۔
مفہوم:(اورکتنے ہی انبیاء گزرے ہیں جن کے ساتھ ہوکر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی،تووہ ان مصیبتوں کے سبب سے جوانہیں خدا کی راہ میں پہنچیں نہ توپست ہمت ہوئے،نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اورنہ دشمنوں کے آگے گھٹنے ٹیکے اوراللہ ثابت قدم رہنے والوں کوپسند فرماتاہے۔)
(6)چھٹااصول یہ ہے کہ دورانِ جنگ پیٹھ دکھاکربھاگنا نہیں چاہئے سوائے اس کے کہ اپنے حملے کی پوزیشن بدلنا ہو۔اللہ کاارشاد ہے:مفہوم:(اے ایمان والوجب تمہارا کفارسے مقابلہ ہو،فوج کشی کی صورت میںتوان کوپیٹھ نہ دکھائیواور جوان کوپیٹھ دکھائے بجز اس کے کہ جنگ کے لئے پینترا بدلنا چاہتاہویاکسی جماعت کی طرف سمٹ رہا ہو تو وہ اللہ کاغضب لے کرلوٹا،سواس کا ٹھکانا جہنم ہے اوروہ نہایت براٹھکاناہے۔)
(7)دورانِ جنگ(جہاد) موت سے ڈرنا نہیں چاہئے:
مفہوم:(اوراگرتم اللہ کی راہ میں قتل ہوگے یامروگے تووہ مغفرت اوررحمت جوتمہیں اللہ کی طرف سے حاصل ہوگی اس سے کہیں بہتر ہے جویہ (مال) جمع کررہے ہیں۔)
( 8)دشمن سے مقابلہ ہوتوڈٹ کرلڑنا چاہئے اورکثرت سے اللہ کاذکرزبان پرہوناچاہئے۔
مفہوم:(اے وہ جوایمان لائے جوجب تمہارا کسی جماعت سے مقابلہ ہوتوثابت قدم رہو اوراللہ کوزیادہ یادکرو کہ تم کامیابی حاصل کرو۔)
(9)جنگ کے موقع پراپنے کمانڈر کی پوری اطاعت کرنی چاہئے، سوائے اس کے کہ وہ کسی حرام بات کاحکم دے اورآپس میں اختلاف نہ کرناچاہئے،جنگ بدر پرتبصرہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے کہا:
مفہوم:(اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو،اورآپس میں اختلاف نہیں کرو بلکہ اگر تم کبھی پست ہمت ہوجائو اورتمہاری ہوا اکھڑ جائے توثابت قدم رہو،بیشک اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے۔)
(10)کمانڈر کواپنی فوج کودشمن کی سمت لڑنے کے لئے بڑھاناچاہئے:
مفہوم:(اے نبی مؤمنین کوجہاد پرابھارو،اگرتمہارے بیس آدمی ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پرغالب آئیں گے اوراگرتمہارے سوہوں گے توہزار کافروں پربھاری ہوںگے یہ اس وجہ سے کہ یہ (کافر) لوگ بصیرت سے محروم ہیں۔)
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوات کے موقع پرمسلمانوں کی افواج کے سپریم کمانڈر تھے اس لئے آپ سے یہ خطاب کیاگیاہے اوراس سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ کسی فوج کے مورال کوبرقرار رکھناکتناضروری ہے۔لازم ہے کہ فوج کے قائدین اپنے فوجیوں کی ہمت بندھائیں اوران کی نظر فتح پر رکھیں،کمانڈرہی کم ہمتی اور بزدلی دکھائے گا تواس کی فوج جنگ نہیں کرسکتی۔
(11)جنگ کی حالت میں زیادتیاں نہیں کرنی چاہئے،یعنی بوڑھوں اورعورتوں اوربچوں اوردیگر سویلین کوقتل نہیں کرنا چاہئے،نہ دشمن کے مقتول فوجیوں کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا،نہ ان کے ناک کان وغیرہ کاٹناچاہئے،نہ سروں کے مینار بنانے چاہئے جیسے چنگیز خاں اورہلاکو خاں وغیرہ کرتے تھے اورموجودہ عہد میں کمبوڈیا میں امریکہ کے حلیف پول پوٹ نے کیا جس نے لاکھوں مقتول فوجیوں کوکھونپڑیاں جمع کی تھیں،اس بارے میں اللہ رب العزت کاواضح ارشاد ہے:
مفہوم:(جولوگ تم سے جنگ کرتے ہیں ان سے جنگ کرواورزیادتی نہ کرو،اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کوپسند نہیں کرتا۔)
(12)جنگ اپنے دفاع میں ہونی چاہئے،یااعلائے کلم اللہ کے لئے یعنی ان لوگوں کے خلاف جولوگوں کو ایمان لانے اورصرف اپنے خالق کی عبادت کرنے سے روکتے ہیں یاایمان کے راستے میں سدراہ بنتے ہیں،اس لئے قرآن میںباربار جہادفی سبیل اللہ اورقتال فی سبیل اللہ کی عبارت اختیار کی گئی ہے۔خالق کائنات کاارشاد ہے:
مفہوم:(وہ لوگ جنہوں نے دنیا کے عوض آخرت کاسودا کرلیاہے ان کوچاہئے کہ وہ اللہ کے راستے میں جنگ کریں اور جوکوئی اللہ کے راستے میں جنگ کرے گا اوراس میں وہ قتل ہوجائے گا یافتح یاب ہوگاتوہرحال میں ہم اس کواجرعظیم عطافرمائیں گے۔)
یہی بات زیادہ تفصیل سے سورئہ توبہ میں کی گئی ہے:
مفہوم:(بیشک اللہ نے اہل ایمان سے ان کے جان ومال کے لئے جنت کے عوض خریدلئے ہیں،وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں،پس مارتے بھی ہیں اورمرتے بھی ہیں۔)
اس سے معلوم ہواکہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ سب کے سب غالب ہوں،بلکہ وہ شہید بھی ہوسکتے ہیں، لیکن کامیاب ہرحال میں وہی ہیں،جہادفی سبیل اللہ کی عبارت مثال کے طورپر سورہ انفال کی آیات 71اور74میں دیکھی جاسکتی ہیں،اس سے ہماری اس سابقہ بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ محض ملک گیری اورکسی ملک کی دولت لوٹنے کے لئے جنگ جائز نہیں۔
(13)جنگ کامقصود دنیا کامال ودولت یامادی فائدہ نہیں ہوناچاہئے،جنگ بدر کے قیدیوں سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اوربعض صحابہؓ کی رائے کے مطابق فدیہ کی رقم لے کر ان کوآزاد کردیاتواس پراللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی:
مفہوم:(کسی نبی کے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ اس کوقیدی ہاتھ آئیں ،جب تک وہ ان کے لئے ملک میں ان کی خونریزی برپانہ کردے،یہ تم ہو جودنیا کے سروسامان کے طالب ہو،اللہ تو آخرت چاہتاہے اوراللہ رب العزت غالب اورحکمت والا ہے، اگر اللہ کانوشتہ پہلے سے موجود نہ ہوتو جوروش تم نے اختیار کی اس کے باعث تم پر ایک عذاب عظیم آدھمکتا۔)اللہ کی طرف سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ رخ اس لئے اختیار کیاگیاکہ اللہ نے اس سے قبل سورئہ محمد کی آیت نمبر4 میں فرمایا تھا:
مفہوم:(پس جب ان کافروں سے تمہارے مقابلہ کی نوبت آئے توان کی گردنیں اڑائو، یہاں تک کہ جب ان کو اچھی طرح چورکردو،پھران کومضبوط باندھ لو،یا تواحسان کرکے چھوڑناہے یافدیہ لے کریہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے،یہ ہے(کام تمہارے کرنے کا) اوراگراللہ چاہتاہے تووہ خودہی ان سے انتقام لے لیتا،لیکن(اس نے تم کویہ حکم اس لئے دیا)کیو نکہ ایک کو دوسرے سے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے اللہ ان کے اعمال ہرگز رائیگاں نہیں کرے گا۔)
جہاں اس آیت سے یہ معلوم ہوتاہے کہ جب تک دشمن کی اچھی طرح خوں ریزی نہ کردی جائے اس وقت تک قیدی بناناجائز نہیں، وہیں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ قیدیوں کوبلامعاوضہ یافدیہ لے کرچھوڑا بھی جاسکتاہے،اس کا اختیار حاکم وقت کوہے۔
(14)جہاں اسلام نے اپنے دفاع میں اوراللہ کے راستے میںجنگ کی دعوت دی ہے وہیں ایک انتہائی اہم بات یہ کہ دیگر کمزور اورمظلوموں کی خاطر بھی جنگ کرنے کوکہاہے:
مفہوم:(اورتمہیں کیاہوگیاہے کہ تم اللہ کی راہ میں اوران بے بس مردوں وعورتوں اور بچوں کے لئے جنگ نہیں کرتے جودعا کررہے ہیں کہ اے پروردگار ہمیںان ظالم باشندوں کی بستی (مکہ سے نکال اورہمارے لئے اپنے پاس سے مددگار پیدا کر۔)یہ اس وقت کی بات ہے جب بیشتر مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے جاچکے تھے اورکچھ بے سہارا کمزور مرد،عورتیں اوربچے مکہ میں رہ گئے تھے،اس جنگ کے بارے میں عالم عرب کے معروف مصری دانشور اپنی کتاب ’’امن ِ عالم‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’اب رہی اس جنگ کی بات،سویہ جنگ انسانی آزادی کی خاطرہے۔یہ جنگ جاگیرداری اوراستبدادی نظاموں کے خلاف ہے۔انسان کی انسان کے لئے غلامی کے خلاف ہے،سرکشی وظلم وستم کے خلاف ہے۔یہ جنگ ہرمعنی اورہرمیدان کے لحاظ سے آزادی کی جنگ ہے۔اقتصادی، نسلی،جبری مقاصد سے پاک ہے۔ اس جنگ میںحصہ لینا شرف ِ انسانیت کے عین مطابق ہے،کیونکہ یہ انسانی صفات انسانی حقوق اورانسانیت کے بنیادی اصولوں کوقائم کرنے کے لئے لڑی جاتی ہے۔یہ تووہ جنگ ہے جواس زمین پربسنے والی ہرانسانی مخلوق کے لئے اپنے ساتھ مساوات عدل وانصاف اورعزت واحترام دلاتی ہے‘‘۔19
’’الجہاد‘‘ کے مصنف یحییٰ نعمانی اسلامی جنگوں کے سلسلے میں گویاہیں:
’’قرآن میںجہاد کی یہ آیتیں ان ظالمانہ حملوں سے دفاع کی تیاری کاحکم لے کر جب آتی ہیں تویہ بتاتی ہیں کہ تمہاری یہ جنگ اورمال وجان کی قربانی صرف قومی و سیاسی دفاع اورعزت وغیرت کے تحفظ کے لئے نہیں ہے۔نہ تم اپنی آزادی و خود مختاری کی حفاظت کے لئے لڑرہے ہو،بلکہ قرآن اس کوباربار یاددلارہاتھا کہ تم اپنی اس پوزیشن کویادرکھو کہ تم انسانوں کاکوئی عام گروہ نہیں ہو،تمہاری ترقی دنیاکی لذتوں میںسے اپناحصہ لینے کے لئے نہیں ہے۔تم دنیاسے منھ موڑنے والے گروہ ہو۔تم عبادت خداوندی اورساری انسانیت کونفع پہنچانے کے لئے ہمارے رسول کی گردجمع ہوئے ہو۔تم نے خدا سے عہدباندھا ہے کہ فقیر انہ زندگی کی ضرورت پڑی تو اس کواختیار کرکے دوسروں کی ہدایت اورنفع رسانی کے لئے قربانیاں دوگے۔اس لئے تم کواپنے دفاع کے لئے جس جنگ کاحکم دیاجارہاہے یہ صرف دنیا کی عام جائز قسم کی بلکہ عام ضروری قسم کی جنگ نہیں ہے،بلکہ یہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔یہ یقینا ایک مقدس جنگ ہے جو خداکے لئے اوراس کے دین کے لئے لڑی جارہی ہے‘‘۔20
(15)مسلمان اللہ کے راستے میںیعنی اس کے دین کے دفاع کے لئے جنگ کرتے ہیں جب کہ کافر شیطان کی خاطر جنگ کرتے ہیں:
مفہوم:(جولوگ ایمان لائے ہیں اوراللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اورجنہوں نے کفرکیا وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں،توتم شیطان کے حامیوں سے لڑو،شیطان کی چال توبالکل بودی ہوتی ہے۔)
برصغیر کے نامور مفکرسیدابوالاعلیٰ مودودی حق وباطل جنگ کی حدبندی کے سلسلے میںاپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ میں رقمطرازہیں:
’’یہ ایک قول ِ فیصل ہے، جس میں حق وباطل کے درمیان پوری حدبندی کردی گئی ہے،جولوگ ظلم وسرکشی کی راہ سے جنگ کریں وہ شیطان کے دوست ہیں جوظلم نہیں بلکہ ظلم کومٹانے کے لئے جنگ کریں وہ راہِ خدا کے مجاہد ہیں ہروہ جنگ جس کا مقصد حق وانصاف کے خلاف بندگانِ خداکوتکلیف دیناہو،جس کامقصد حق داروں کوبے حق کرنااورانہیں ان کی جائز ملکیتوں سے بے دخل کرناہو،جس کا مقصد اللہ کانام لینے والے کوبے قصور ستانا ہو،وہ سبیل طاغوت کی جنگ ہے۔ اسے خداسے کچھ واسطہ نہیں۔ایسی جنگ کرناایمان داروں کاکام نہیں ہے۔البتہ جولوگ ایسے ظالموں کے مقابلہ میںمظلوموں کی حمایت ومدافعت کرتے ہیں۔ جو دنیا سے ظلم وطغیان کومٹاکر عدل وانصاف قائم کرنا چاہتے ہیں جو سرکشوں اور فسادیوں کی جڑکاٹ کر بندگانِ خداکوامن واطمینان سے زندگی بسرکرنے اور انسانیت کے اعلیٰ نصب العین کی طرف ترقی کرنے کاموقع دیتے ہیں۔ان کی جنگ راہِ خدا کی جنگ ہے۔وہ مظلوموں کی کیامدد کرتے ہیں اوراللہ کی نصرت کا وعدہ انہیں کے لئے ہے‘‘۔22
جنگ وجدال اورتلوار کااسلام میں استعمال کن وجوہات واسباب کی وجہ سے ہواہے سرسیداحمدخاں لکھتے ہیں:
’’جس اصول پرکہ حضرت موسیٰ نے کافروں پرتلوار کھینچی تھی کہ تمام کافروں اوربت پرستوں کو بغیرکسی استثناء کے قتل وغارت ونیست ونابود کردیں،اس اصول پر مذہب اسلام نے کبھی تلوار کومیان سے نہیں نکالا۔اس نے کبھی تمام کافروں اور بت پرستوں کونیست ونابود کرنے یاکسی کو تلوار کی دھار سے مجبور کرکے اسلام قبول کرانے کاارادہ نہیں کیا۔ہاں بلاشبہ اسلام نے بھی تلوار کو نکالا ،مگردوسرے مقصد سے یعنی خداپرستوں کوامن اوران کی جان ومال کی حفاظت اوران کو خداپرستی کا موقع ملنے اور یہ ایک ایسامنصفانہ اصول ہے، جس پرکوئی شخص کسی قسم کاالزام نہیں لگاسکتا‘‘۔23
(16)میدان جنگ میںموت سے ڈرنا نہیں چاہئے۔کیونکہ:
مفہوم:(اورموت تم کوپالے گی تم جہاں کہیں بھی ہوگے،اگرچہ مضبوط قلعوں کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔)
(17)اگردشمن صلح وامن کی بات کریں توان سے اس پربات کرکے صلح وامن قائم کرناچاہئے:
)اوراگروہ مصالحت کے لئے جھکیں توتم بھی اس کے لئے جھک جائو اوراللہ پربھروسہ رکھو،بیشک وہ سننے والا اورجاننے والا ہے۔)
(18)اگردشمن کی طرف سے خیانت کرکے معاہدہ توڑنے کااندیشہ ہوتومسلمانوں کوان نوٹس دے کر معاہدہ ختم کرناچاہئے:
مفہوم:(اگرتمہیں کسی قوم سے بدعہدی کاخطرہ ہوتوتم بھی اسی طرح ان کاعہد ان پر پھینک دو،بیشک اللہ بدعہدوں کوپسند نہیں کرتا۔)
(19)اگرکوئی غیرمسلم امن پیش کرتے ہوئے اپنے اسلام کااعلان کرے تو یہ کہہ کر اس پرحملہ آور نہ ہوناچاہئے کہ تم مومن نہیں ہو:
مفہوم:(اے ایمان والو!جب تم خدا کی راہ میں نکلاکرو تواچھی طرح تحقیق کرلیاکرو اور جو تم کوسلام کرے اس کودنیوی زندگی کی خاطر یہ نہ کہو کہ تومومن نہیں ہے،اللہ کے پاس بہت سامان غنیمت ہے، تمہارا حال بھی پہلے ایساہی رہ چکاہے،سواللہ نے تم پر فضل فرمایا توتحقیق کرلیاکرو،جوکچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔ )
(20)دشمن سے بھی عہدکی پاس داری کرناچاہئے:
مفہوم:(اورعہد کوپورا کروکیوں کہ عہد کی پرستش ہونی ہے۔)
مفہوم:(ان مشرکین سے اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے اعلان برآت ہے جس سے تم نے معاہدے کئے تھے سواب ملک میں چارماہ چل پھرلو اورجان رکھو کہ تم اللہ کے قابو سے باہرنہیں جاسکتے اوراللہ کافروں کورسوا کرکے رہے گا۔)
ہم نے آخرکی ان آیتوں کی تشریح نہیں کی ہے کیونکہ وہ ترجمہ سے ہی اتنی واضح ہیں کہ ان کو کسی مزید تشریح کی اس مختصر درس میںضرورت نہیں،اس بیان میںاختصار کوملحوظ رکھاگیا ہے، لیکن اس میںجنگ وامن سے متعلق قرآن کے اہم اصولوں پرروشنی پڑگئی ہے۔اسلام کاپیغام امن وسلامتی کاپیغام ہے اوراس کی قرآنی تعلیمات سے کوئی بھی انسان بے نیاز نہیں ہوسکتا اورنہ ہی اس کی ضرورت سے مستغنیٰ ہوسکتاہے۔مصری عالم سید قطب شہید لکھتے ہیں:
’’یہ ہے ان اسلامی جنگوں کی داستان ،جن کامحرک اسلام کاجذبہ تھاکہ انسانیت صراطِ مستقیم پر گامزن ہوجائے۔اس مقصد کے حصول میںپرامن ذرائع سے کام نہ چلے تومجبوراً اسلام قوت کااستعمال کرتاہے۔ اسلام کی یہ جنگیں کسی فوجی قائد کی خودغرضی اورہوس ملک گیری کی پیداوار نہیں تھیں۔نہ ان کے پیچھے دوسروں کوغلام بنانے کاجذبہ کارفرماتھا بلکہ یہ جنگیں محض خدا کے لئے لڑی گئیں تھیں ان کااصل مقصد رضائے الٰہی کے حصول کاجذبہ تھا۔مگربات صرف جذبے پرہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اسلام سے ان جنگوں کے لئے باقاعدہ اصول وقوانین بھی مقرر کئے‘‘۔30
جنگ وجہاد کے بارے میں بڑی عام غلط فہمی ہے کہ یہ مسلمانوں کی قومی جنگ ہے۔قومی جنگ یعنی جنگ جوکوئی قوم اپنی طاقت بڑھانے کے لئے اوردیگرمقاصد کے حصول کے لئے لڑتی ہے۔اسلام ایسی جنگ کوکرئہ ارضی کا سب سے بڑافساد قرار دیتاہے۔اس لئے مسلمانوں کی ہرجنگ جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہوسکتی۔قرآن وسنت نے جن جنگ وجہاد کومتعین مقاصد کے لئے کئے ہیں بس وہی ہیں۔اس کے علاوہ ساری فساد فی الارض کے زمرے میںآتی ہیں۔ان مقاصد حسنہ اورقوانین ِ مبارکہ کے خلاف جوبھی جنگ ہوگی قرآن اوراسلام کی نظر میںو ہ فساد ہی ہوگی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS