ملک کی آزادی میں کانگریس کے تاریخی کردار کوکبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا

0
timesofindia

نئی دہلی (پریس ریلیز) : کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق گورنر اترپردیش، اتراکھنڈ اور میزورم عزیز قریشی نے پریس کو جاری بیان میں کہا کہ
ملک ارجن کھڑگے انڈین نیشنل کانگریس کے نئے صدر ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے سیاسی تجربات، فیلڈ ورک،سینئریٹی، تنظیمی
صلاحیت، تنظیمی اور سیاسی تجربات پر سوال نہیں کیا جاسکتا۔ اپنے بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو آزاد کرانے میں کانگریس کے تاریخی
کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کے لیے اس کی قربانیوں اور خدمات کی ایک تاریخ ہے اور ان میں بھی نہایت ہی اہم یہ ہے کہ اس نے
سماجی اور سیکولر سوسائٹی کی تشکیل کی۔ ہر طرح کے استحصال کو ختم کرنے کے لیے مساوات، مواقع فراہم کرایا اور سماجی انصاف پر توجہ
دی۔ اس کے لیے دنیا کے سب سے بڑے اسٹیٹس مین نے اعلان کیا کہ ہر آنکھ کے آنسو پونچھیں گے اور اس کے لیے ان کی پارٹی وقف رہے
گی،کیونکہ یہ انسانیت کے وسیع مفاد میں ان کا فلسفہ ہے۔
یہ ستم ظریفی ہے کہ وہ پارٹی جو سیکولر طاقتوں اور تحریک کی علامت، نشان اور پرچم بردار تھی، موجودہ حالات میںنرم ہندتوسے خوف زدہ نظر
آتی ہے۔ جواہر لعل نہرو کی روح ضرورتڑپ رہی ہوگی، آنسوبہا رہی ہوگی جب وہ دیکھتی ہوگی کہ ان کی نسل کے لوگ بڑے فخر سے ’جنیو‘
دکھاتے ہیں اور مختلف مندروں میں پوجا کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جنیئو پہننے یا کسی بھی مندر میں پوجا کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا
لیکن یہ ان کا ذاتی معاملہ ہونا چاہیے۔ نہرو، گاندھی فیملی کے فرد یا کانگریس لیڈران جب سیاسی خدمات ادا کر رہے ہوں تو انہیں کانگریس لیڈر کی
طرح اظہارکرنا چاہیے، ان کی طرح نہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ صرف دو لیڈر ہوئے ہیں یعنی راہل گاندھی اوردگوجے سنگھ جو نظریاتی سطح پر آر
ایس ایس، بی جے پی اور نریندر مودی حکومت کی مسلسل مخالفت کرتے رہے ہیں اور سیکولرازم کا پرچم بلند کرتے رہے ہیں۔آر ایس ایس کے
نظریات اور پروگراموں پر زبردست حملوں اور مسلمانوں اور کمزور طبقات سے انتہائی ہمدری اور ان کی حمایت کرنے کے لحاظ سے دگوجے
سنگھ بہترین انتخاب ہوتے۔ میری عاجزانہ رائے میں کانگریس ہائی کمان کو یہ قبول کرنا چاہیے تھا کہ روز بروز بڑھتا ہندوتو کے زہریلے اثر سے
مقابلہ کرنا اور اسے شکست دینا چیلنج ہے۔ آر ایس ایس، بی جے پی اور نریندر مودی سرکار یہ ایشو بنا سکتی تھی کہ ایک ہندو مخالف اور مسلم
نواز کو کانگریس کا صدر بنا دیا گیا ہے۔ یہی وہ اصل چیلنج تھا جسے موجودہ حالات میں ہماری قیادت کو قبول کرنا چاہیے تھا۔ آزادی کی جدوجہد،
مہاتما گاندھی اور نہرو کا فلسفہ، آئین، جمہوریت، شہری آزادی، سماجی انصاف، مساوات، ہماری اخلاقیات اور ثقافت، سب کچھ خطرے میں ہے۔
نفرت انگیز، انسانیت سوز، خون کے پیاسے اس وسیع تعاون کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہاں سے پوری انسانی اقدار کو تقسیم، مسمار اورتباہ
و بربادکردیا ہے۔
میری عاجزانہ رائے میں، دگوجے سنگھ یقینا ایسے وقت میں ان طاقتوں کوسبق سکھانے کے لیے بہتر انتخاب ہوتے۔ ملک کا بے نام، شناخت اور
آواز سے محروم اور بے بس عام کانگریسی کارکن چاہتا ہے کہ مرکزی کانگریس قیادت نرم ہندوتو کا مقابلہ پورے جوش و خروش سے کرے اور
نہرو کے خوابوں کو حقیقت میں بدل دے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS