بگڑ رہی ہے ندیوں کی صحت

0

پنکج چترویدی

ایک اندازہ کے مطابق، آزادی کے بعد سے ابھی تک گنگا کی صفائی کے نام پر تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ اپریل 2011 میں گنگا کی صفائی کا ایک منصوبہ 7 ہزار کروڑ کا بنایا گیا۔ عالمی بینک سے اس کے لیے کوئی ایک ارب ڈالر کا قرض بھی لیا گیا لیکن نہ تو گنگا میں پانی کی مقدار میں اضافہ ہوا اور نہ ہی اس کی آلودگی میں کمی آئی۔ واضح ہو کہ یہ حال صرف گنگا کا ہی نہیں ہے۔ ملک کی زیادہ تر ندیوں کو صاف کرنے کی مہم کاغذ، نعروں اور بجٹ کو ٹھکانے لگانے سے زیادہ نہیں رہی ہے۔ لکھنؤ میں گومتی ندی پر 600 کروڑ روپے خرچ کیے گئے لیکن حالت جوں کی توں ہے اور جمنا کئی سو کروڑ لگانے کے بعد بھی دہلی سے آگے اور متھرا-آگرہ تک نالے کی طرح ہی رہتی ہے۔
یہ سبھی جانتے ہیں کہ انسانیت کی بقا کا انحصار پانی پر ہے اور عام انسان کے پینے، کھیتی اور مویشیوں کے لیے لازمی میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ندیاں ہی ہیں۔ جہاں جہاں سے ندیاں نکلیں، وہاں وہاں بستیاں آباد ہوتی گئیں اور اس طرح مختلف تہذیبوں، زبانوں، ذاتوں اور مذاہب کا ہندوستان آباد ہوتا چلا گیا۔ تبھی ندیاں مقدس مانی جانے لگیں، صرف اس لیے نہیں کہ ان میں حیات بخش پانی مل رہا تھا، اس لیے بھی کہ انہی کے زیر سایہ انسانی تہذیب پروان چڑھتی رہی۔ گنگا اور جمنا کو ہندوستان کے وقار کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ترقی کی بلندیوں کی جانب گامزن ملک میں آب حیات تقسیم کرنے والی ندیاں آج خود زہر پینے کے لیے مجبور ہیں۔ اس کے باوجود ملک کی ندیوں کو آلودگی سے پاک کرنے کی پالیسیاں محض نعروں سے آگے نہیں بڑھ پا رہی ہیں۔ حکومت میں بیٹھے لوگ خود ہی ندیوں میں گرنے والی صنعتی آلودگی کی حد میں جب اضافہ کریں گے تو یہ امید رکھنا بے معنی ہے کہ ملک کی ندیاں جلد ہی صاف ہو جائیں گی۔ اصل میں ہماری ندیاں ان دنوں کئی سمت سے حملے برداشت کر رہی ہیں۔ ان میں پانی کم ہو رہا ہے، ان کی گہرائی کم ہو رہی ہے، ان سے ریت نکال کر ان کا راستہ تبدیل کیا جا رہا ہے، ندیوںکے کنارے پر ہو رہی کھیتی سے بہہ کر آر ہے کیمیائی مادے، کل کارخانوں اور گھروں کی گندگی کا ندی میں راست جانا انہیں گندا کر رہا ہے۔ واضح ہو کہ ندی صرف آبی گزرگاہ نہیں ہوتی، پانی کے ساتھ اس میں رہنے والے جاندار، نباتات، اس کے کنارے کی نمی، اس میں پرورش پانے والے انتہائی چھوٹے جاندار، اس کا استعمال کرنے والے انسان اور مویشی سبھی مل کر ایک ندی کو مکمل بناتے ہیں۔ اگر اس میں ایک بھی کڑی کمزور یا قدرت کے قانون کے برخلاف ہوتو ندی کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔
ہمارے ملک میں 13 بڑے، 45 میڈیم اور 55 چھوٹے آبی ذخائر کے علاقے ہیں۔ یہاں آبی ذخائر کے علاقوں سے مراد ان علاقوں سے ہے جہاں سے پانی بہہ کر ندیوں میں آتا ہے۔ ان میں گلیشیر، معاون ندیاں، نالے وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ جن ندیوں کا ماخذ 20 ہزار مربع کلومیٹر سے بڑا ہوتا ہے، انہیں بڑا ندی آبی ذخائر کا علاقہ کہتے ہیں۔ 20 ہزار سے 2 ہزار مربع کلومیٹر والے کو میڈیم، 2 ہزار سے کم والے کو چھوٹا آبی ذخائر کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ اس پیمانے کے مطابق، گنگا، سندھو، گوداوری، کرشنا، برہم پتر، نرمدا، تاپی، کاویری، پننار، ماہی، برہمنی، مہاندی اور سابرمتی بڑے آبی ذخائر کے علاقوں والی ندیاں ہیں۔ ان میں سے تین ندیاں گنگا، سندھو اور برہم پتر ہمالیہ کے گلیشیروں کے پگھلنے سے بہتی ہیں۔ ان ہمیشہ بہنے والی ندیوں کو ’ہمالیائی ندی‘ کہا جاتا ہے۔ باقی دس کو پٹھاری ندی کہتے ہیں جو بنیادی طور پر بارش پر منحصر ہوتی ہیں۔
یہ اعداد و شمار ویسے بڑے پرکشش لگتے ہیں کہ ملک کا کل جغرافیائی رقبہ 32.80 لاکھ مربع کلومیٹر ہے جبکہ سبھی ندیوں کو ملانے کے بعد آبی ذخائر کا علاقہ 30.50 لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ ہندوستانی ندیوں کے راستے سے ہر سال 1645 کیوبک کلولیٹر پانی بہتا ہے جو ساری دنیا کی کل ندیوں کا 4.445 فیصد ہے لیکن باعث تشویش یہ ہے کہ پورے پانی کا کوئی 85 فیصد بارش کے تین مہینوں میں سمندر کی طرف بہہ جاتا ہے اور ندیاں سوکھی رہ جاتی ہیں۔
2009 میں سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ نے ملک میں کل آلودہ ندیوں کی تعداد 121 پائی تھی جو اب 275 ہو چکی ہے۔ یہی نہیں، 8 سال قبل ندیوں کے کل 150 حصوں میں آلودگی پائی گئی تھی جو بڑھ کر اب 302 ہو گئی ہے۔ بورڈ نے 29 ریاستوں اور 6 مرکز کے زیرانتظام علاقوں کی کل 445 ندیوں پر تحقیق کی جن میں سے 225 کا پانی انتہائی خراب حالت میں ملا۔ ان ندیوں کے کنارے آباد 302شہروں کے650 مقامات پر 2009 میں 38 ہزار ایم ایل ڈی سیور کا گندا پانی ندیوں میں گرتا تھا جو کہ آج بڑھ کر 62 ہزار ایم ایل ڈی ہو گیا۔ تشویش کی بات ہے کہ کہیں بھی سیور ٹریٹمنٹ پلانٹ کی صلاحیت نہیں بڑھائی گئی ہے۔ سرکاری تحقیق میں 34 ندیوں میں بایوکیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ یعنی بی او ڈی کی مقدار 30 کلوگرام فی لیٹر سے زیادہ پائی گئی اور یہ ان ندیوں کی بقا کے لیے بڑے بحران کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
ہندوستان میں آلودہ ندیوں کے بہاؤ کا علاقہ 12,363 کلومیٹر ناپا گیا ہے۔ ان میں سے 1,145 کلومیٹر کا علاقہ پہلی سطح میں یعنی بے حد آلودہ ہے۔ دہلی میں جمنا اس سلسلے میں سرفہرست ہے، اس کے بعد مہاراشٹر کا نمبر آتا ہے جہاں 43 ندیاں ختم ہونے کی کگار پر ہیں۔ آسام میں 28، مدھیہ پردیش میں 21، گجرات میں 17، کرناٹک میں 15، کیرالہ میں 13، بنگال میں 17، اترپردیش میں 13، منی پور اور اوڈیشہ میں 12-12، میگھالیہ میں 10 اور کشمیر میں 9 ندیاں بقا کے لیے تڑپ رہی ہیں۔ ایسی ندیوں کے کوئی 50 کلومیٹر علاقے کے کھیتوں کی پیداواری صلاحیت تقریباً پوری طرح ختم ہو گئی ہے۔ علاقے کی زیادہ تر آبادی جلد کی بیماریوں، سانس کی بیماری اور پیٹ کے امراض سے بے حال ہے۔ گراؤنڈ واٹر ڈپارٹمنٹ کا ایک سروے گواہ ہے کہ ندی کے کنارے ہینڈپمپوں سے نکل رہے پانی میں کھارہ پن اتنا زیادہ ہے کہ یہ نہ تو انسان کے لائق ہے، نہ ہی کھیتی کے۔ حکومت کے ہی ماحولیات اور آلودگی کے محکمے گزشتہ 20 برسوں سے متنبہ کرتے رہے ہیں لیکن جدیدیت کی لالچ پورے سسٹم کو لاپروا بنا رہی ہے۔
اصل میں ان ندیوں کو مرنے کے دہانے پر پہنچانے والا یہی معاشرہ اور حکومت کی پالیسیاں ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ اس دور میں ترقی کا پیمانہ ترقیاتی کام ہیں- عمارتیں، سڑک، پل وغیرہ وغیرہ۔ تعمیر میں سیمنٹ، لوہے کے ساتھ دوسری لازمی شئے ہے ریت یا بالو۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے کسی کارخانہ میں نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ ندیوں کے بہاؤ کے ساتھ آتی ہے اور کنارہ پر جمع ہوتی ہے۔ قدرت کا اصول یہی ہے کہ کنارے پر خودبخود آئی اس ریت کو سماج اپنے کام میں لائے لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران ہر چھوٹی بڑی ندی کا سینہ چھید کر مشینوں کے ذریعہ ریت نکالی جا رہی ہے۔ اس کے لیے ندی کے قدرتی راستے کو تبدیل کیا جاتا ہے، اسے بے ترتیب کھودا اور گہرا کیا جاتا ہے۔ واضح ہو کہ ندی کے پانی کے بہاؤ کے علاقے میں ریت کی پرت نہ صرف بہتے پانی کو صاف رکھتی ہے بلکہ اسے مٹی کے ملنے سے آلودہ ہونے اور زمین میں جذب ہونے سے بھی بچاتی ہے۔ جب ندی کے بہاؤ پر پوک لینڈ اور جے سی بی مشینوں سے حملہ ہوتا ہے تو اس کا پورا ماحول ہی تبدیل ہوجاتا ہے۔
ندیوں کو سب سے بڑا خطرہ آلودگی سے ہے۔ کل کارخانوں کی نکاسی، گھروں کی گندگی، کھیتی میں ملائی جارہی کیمیائی دوا اور کھادوں کا حصہ، زمین کا کٹاؤ اور بھی کئی ایسے عناصر ہیں جو ندی کے پانی کو زہر بنا رہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ جتنے پانی کا استعمال کیا جاتا ہے، اس کے محض 20 فیصد کی ہی کھپت ہوتی ہے، باقی 80 فیصد سارا کچرا سمیٹے باہر آ جاتا ہے۔ ندیاں محض پانی کا راستہ نہیں ہیں، یہ برسات کی بوندوں کو اپنے اندر سمیٹتی ہیں اور زمین کی نمی قائم رکھتی ہیں۔ آب و ہوا میں ہو رہی تبدیلی میں ندیاں ہی زمین پر زندگی کی بنیاد ہیں اور ان میں بہتا پانی ہی انسان کی سانس کی حد طے کرتا ہے۔ ایسے میں ندیوں کو سنبھالنے کے کام کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS