ہند-چین تجارت میں تاریخی حصولیابی

0

صبیح احمد

ہندوستان اور چین نے اس سال تب ایک اہم اور چونکانے والی کامیابی حاصل کی جب ان کی باہمی تجارت نے 100 ارب ڈالر کے تاریخی اعداد و شمار کو پار کر لیا۔ چونکانے والی اس لیے کیونکہ گزشتہ سال مشرقی لداخ میں دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی اور اس کے نتیجے میں غیر اعلانیہ طور پر ایک طرح سے چینی سامان کے بائیکاٹ کے رجحان اور ’آتم نربھر بھارت‘مہم پر خصوصی توجہ کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان کاروبار میں اس قدر اضافہ بہت ہی حیران کن لگتا ہے۔ حالانکہ اس ’حصولیابی‘ پر دونوں ملکوں کی راجدھانیوں میںنہ کوئی گرمجوشی دیکھنے کو ملی اور نہ ہی اس پر کوئی خاص تذکرہ ہوا کیونکہ مشرقی لداخ میں فوجی تعطل کے سبب ایشیا کے 2 بڑے ملکوں کے رشتے ’خاص طور پر خراب دور‘ سے گزر رہے ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ’مودی حکومت چین کی جانب سے سرحدی تجاوزات کے باوجود 2021 میں چین کے ساتھ تجارت میں 50 فیصد اضافہ کا جواز کیسے پیش کرتی ہے، جس میں جنوری اور نومبر کے درمیان چین کے حق میں 61.5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جو کہ موجودہ مالی سال میں ہندوستان کے کل دفاعی اخراجات کے تقریباً برابر ہے۔‘
بہرحال یہ دوطرفہ تجارت جو 2001 میں 1.83 ارب امریکی ڈالر تھی وہ رواں سال کے 11 ماہ میں بڑھ کر 100 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ چین کے جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹمز (جی اے سی) کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان اور چین کی باہمی تجارت 114.263 ارب ڈالر رہی جس میں جنوری اور نومبر 2021 کے درمیان 46.4 فیصد اضافہ ہوا۔ چین کے لیے ہندوستان کی برآمدات 26.358 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جس میں ہر سال 38.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور چین سے ہندوستان کی درآمدات 87.905 ارب ڈالر تک ہو گئی ہیں جو کہ 49 فیصد اضافہ ہے۔ ایک جانب دو طرفہ تجارت 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی، وہیں دوسری طرف ان11مہینوں کے دوران ہندوستان کا تجارتی خسارہ بھی تیزی سے بڑھا۔ تجارتی خسارے کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان نے چین کو جتنا سامان فروخت کیا اس سے زیادہ خریدا۔ تجارتی خسارہ ہندوستان کے لیے انتہائی تشویشناک ہے جو بڑھ کر 61.547 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ رواں سال اس میں 53.49 فیصد کا اضافہ ہوا۔ جھڑپوں اور شدید کشیدگی کے باوجود چین 2020 میں بھی ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا۔ گزشتہ مالی سال میں ہندوستان نے چین سے 58.7 ارب ڈالر مالیت کا سامان درآمد کیا جو امریکہ اور متحدہ عرب امارات سے درآمد کیے گئے سامان سے زیادہ تھا جبکہ ہندوستان نے چین کو 19 ارب ڈالر کا سامان برآمد کیا۔
سرحد پر خون ریز تصادم کے بعد سے ہندوستان میں چین مخالف جذبات بڑھتے دکھائی دیے تھے۔ گلی کوچوں میں مشتعل افراد نے چین کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ احمد آباد میں کچھ لوگوں نے چین ساختہ ٹیلی ویژن سیٹ اپنی اپنی بالکنیوں سے گلیوں میں پھینک دیے جبکہ دہلی میں چند دکانداروں نے چینی مصنوعات کو آگ لگا کر احتجاج کیا۔ ایک مرکزی وزیر نے چائنیز کھانے کے ریستوراں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جبکہ یہ چائنیز پکوان اب مقامی مصالحہ جات کے استعمال کی وجہ سے ہندوستانی پکوان بن چکے ہیں اور لوگوں میں بہت مقبول ہیں۔ حکومت ہند نے بھی چین سے ہونے والی تمام سرمایہ کاری پر پابندی کے ساتھ ساتھ 200 سے زیادہ چینی ’ایپس‘ پر بھی ملک کی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے پابندی عائد کردی تھی جس میں مقبول ایپس ٹک ٹاک، وی چیٹ اور ویبو شامل تھے۔ حکومت نے حالانکہ واضح طور پر کسی بائیکاٹ کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا لیکن غیر اعلانیہ طور پر حکومتوں نے یہ طے کر لیا کہ وہ آئندہ چینی کمپنیوں کو نیا ٹھیکہ دینے سے گریز کریں گی۔ انڈین ریلوے نے چینی کمپنی کو سگنلز کا 2016 میں دیا گیا ایک ٹھیکہ منسوخ کر دیا۔ بہرحال بائیکاٹ کے نعرے لگانا آسان ہے لیکن ان پر حقیقت میں عملدرآمد کرنا بہت مشکل ہے۔
چینی درآمدات ہندوستان کی کل درآمدات کا 12 فیصد بنتی ہے جن میں کیمیکل مصنوعات، گاڑیوں کے پرزے، الیکٹرانک مصنوعات اور ادویات وغیرہ شامل ہیں۔ انڈین فارماسیوٹیکل الائنس کے مطابق ہندوستان کی ادویات بنانے کی صنعت کے بنیادی عناصر اور اجزا کی 70 فیصد ضروریات چین پوری کرتا ہے۔ حالانکہ ہندوستان نے ادویات کی صنعت کے لیے خود انحصاری کی پالیسی کا اعلان کیا ہے لیکن اس پر عملدرآمد کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔ چین سے درآمد ہونے والی ادویات پرہندوستان کا انحصار تو ہے ہی، اس کے علاوہ میڈیکل آلات کا بھی ہندوستان کے بڑھتے ہوئے میڈیکل ٹورزم اور طبی سہولیات میں بڑا ہاتھ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2019 اور 2020 کے درمیان ہندوستان نے چین سے 1,150 کروڑ روپے کی فارما سے منسلک اشیا درآمد کی تھیں جن میں ادویات بنانے کے خام مال کے علاوہ میڈیکل آلات بھی شامل تھے۔ حالانکہ درآمد ہونے والے بڑے میڈیکل آلات میں زیادہ تر امریکہ سے آتے ہیں لیکن ہندوستان میں ایسیمبل ہونے والے آلات میں استعمال ہونے والے چھوٹے پرزوں میں چین کا اہم کردار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ میڈیکل آلات کی فراہمی کے لیے ہندوستان کا چین پر اتنا زیادہ انحصار نہیں ہے جتنا کہ ادویات بنانے کے خام مال میں ہے لیکن پھر بھی ہندوستان میں ایسیمبل ہونے والے میڈیکل آلات کے لیے ہارڈویئر چپس، مدر بورڈ یا ڈیجیٹل ایل سی ڈی یا ایل آئی ڈی اسکرینز جیسی چھوٹی لیکن ضروری اشیا عام طور پر چین سے آتی ہیں۔
کچھ مصنوعات کے حوالے سے چین پر انحصار کو ختم کرنے کے لیے گزشتہ سال مئی میں حکومت ہند نے خود انحصاری کی ایک مہم شروع کی تھی جس کا مقصد درآمدات میں کمی، برآمدات میں اضافہ اور مقامی صنعتوں کو فروغ دینا تھا اور ان سب اقدامات کا مقصد چین پر انحصار کم کرنے پر زیادہ توجہ دینی تھی لیکن تجارت سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان تمام اقدامات کے باوجود چین پر ہندوستان کا انحصار کم نہیں ہوا بلکہ اس میں اور اضافہ ہو گیا۔ درحقیقت ہندوستان کو خود انحصار بنانے کے لیے اہم ذریعہ کے طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلہ کو کسی ٹائم فریم میں نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ خود انحصاری ایک مستقل عمل ہے، اس میں وقت کی کوئی حد نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر ہم ایک بڑی برآمدات کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہمیں بھی ایک بہت بڑا درآمد کرنے والا ملک بننا پڑے گا، اس لیے خود انحصاری کو ٹائم فریم میں نہیں رکھا جا سکتا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS