میڈیکل ایمرجنسی کا اعلان کرے حکومت

0

ملک میں کورونا کی دوسری لہر نے موت کا تانڈو مچا رکھا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں انفیکشن کے نئے معاملے اور ہزاروں کی تعداد میں ہورہی اموات اب استثنیٰ نہیں، بلکہ معمول کا حصہ بن گئی ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بیڈ نہیں، جانچ کے مکمل انتظام نہیں، انجکشن نہیں، دوا نہیں، آکسیجن نہیں، وینٹی لیٹر نہیں اور جب موت آجائے تو شمشان اور قبرستان میں جگہ بھی نہیں۔ کورونا کا خوفناک دھماکہ معلوم نہیں ہمیں ابھی اور کیا کیا نظارے دکھائے گا۔ اور یہ سب کچھ تب ہے جب ہم نے کورونا سے لڑنے کے لیے دنیا میں موجود سب سے بہترین وسائل اکٹھے کیے ہیں۔ لیکن مرکز-ریاستوں میں ہم آہنگی کی کمی اور عوام کی لاپروائی سے یہ وسائل بھی کورونا کے سامنے بونے ثابت ہورہے ہیں۔ ہر دن بڑھتے موت کے اعدادوشمار تو صرف اس کی ایک علامت ہے۔ تشویش اس بات کی ہے کہ تمام مثبت تبدیلیوں کے باوجود ہمارا ہیلتھ سسٹم پھر سے چرمراتا نظر آرہا ہے۔ اور سہولتوں اور انتظامات کے محاذ پر ہم وہیں کھڑے نظر آرہے ہیں، جہاں ایک سال قبل تھے۔ بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کہا جائے تو یہ ہماری گزشتہ ماہ تک جاری رہی اس بداحتیاطی کا ہی نتیجہ ہے، جس نے انفیکشن میں آرہی مسلسل گراوٹ کے دوران ہمیں اتنا لاپروا بنادیا کہ ہم نے کورونا کا دم اکھاڑنے سے قبل ہی اسے بے دم سمجھ لیا۔ ہماری یہی سوچ آج اتنا بڑا بحران بن گئی ہے کہ اس میں مستقبل کی تصویر بھی کھوگئی ہے۔ روزانہ دو لاکھ سے زائد لوگوں کو متاثر کررہی کورونا کی دوسری لہر کے راستہ میں آگے کون کون سی دشواریاں ہیں، اس کا ٹھیک ٹھاک اندازہ لگانا بھی مشکل ہورہا ہے۔ ایمرجنسی شاید اسی کو کہتے ہیں اور شاید اسی لیے ملک بھی اب حکومت سے میڈیکل ایمرجنسی کا اعلان کرنے کی اپیل کررہا ہے۔

کیوں نہیں ٹیکہ کاری کو 45برس سے زائد عمر کے لوگوں تک محدود رکھنے کے بجائے اسے سبھی عمر کے لوگوں کے لیے کھول دیا جاتاہے۔ کئی ریاستیں اس کا مطالبہ بھی کرچکی ہیں۔ اگر ٹیکوں کی کم دستیابی اس کی وجہ ہے تو پروڈکشن کو بڑھانے کے لیے قدم اٹھانے چاہئیں۔ اگر ٹیکوں کی مناسب تعداد میں دستیابی ہے تو پلس پولیو مہم کی طرح گھر گھر جاکر ٹیکہ لگانے جیسی مہم شروع کی جاسکتی ہے۔

یاد کیجیے محض ایک پکھواڑے پہلے تک ہم کس طرح کورونا کی دوسری لہر کو سیاست کا کھیل بتاکر خارج کرنے میں لگے تھے۔ اچانک معاملے بڑھنے کے بعد ریاستوں کی جانب سے آرہی آکسیجن، وینٹی لیٹر اور ویکسینیشن کی شکایتوں کو ساتھ بیٹھ کر سلجھانے کے بجائے سیاسی جامہ پہنایا جارہا تھا۔ اس دوران ریاستوں کی جانب سے بھی مرکز پر سیاسی تفریق کی تہمت لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ہم آپس میں لڑتے رہے اور کورونا اپنے کم-زیادہ اثر کے فرق کو اس طرح مٹاتا گیا کہ آج ملک کی ایک دو نہیں، بلکہ 16ریاستوں میں کہرام مچا ہواہے۔ ایک ستم ظریفی اور دیکھئے۔ کورونا کے اتنے کہرام کے باوجود سرکاری انتظامیہ بھی کوئی سبق سیکھنے کو تیار نظر نہیں آرہی ہے۔ انتخابی ریلیوں سے لے کر ہری دوار میں چل رہے کنبھ میں کورونا گائیڈلائنس کی کھلے عام دھجیاں اڑتی نظر آئیں۔ عام آدمی کو صبح شام سوشل ڈسٹینسنگ کا سبق پڑھا رہا سسٹم ان انعقاد میں مصروف ہزاروں لاکھوں کی بھیڑ میں ماسک پہننے سے لے کر جسمانی دوری پر کتنا عمل کررہا ہے، یہ ملک ہی نہیں، پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ حقیقت سے منھ چراتے ان انعقادوں سے ہم ملک-دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟
گزشتہ سال تک ہم کورونا کی عالمی جنگ کی قیادت کررہے تھے۔ ہم صرف غریب ملکوں کی ہی امیدوں کا مرکز نہیں تھے، ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی مثال ثابت ہورہے تھے۔ لیکن ہماری سوچ کی اس پسماندگی نے دوسرے ممالک کے مقابلہ میں آج ہمیں کہاں لاکر کھڑا کردیا ہے؟ دنیا کے کئی ملک آج کورونا پر قابو پانے کے بعد اپنے اپنے ویکسینیشن پروگرام کو رفتار دینے میں مصروف ہیں۔ 97دنوں کا دنیا کا سب سے لمبا لاک ڈاؤن جھیلنے کے بعد برطانیہ پھر سے گلزار ہونے لگا ہے۔ 4جنوری کو جب برطانیہ میں لاک ڈاؤن ہوا تو حکومت کے منصوبوں میں ہر بات واضح تھی۔یہاں تک کہ کون سا سیکٹر کب تک بند رہے گا، کب کھلے گا اس پر بھی کوئی بھرم نہیں تھا۔ اس وجہ سے کوئی افراتفری نہیں مچی اور لاک ڈاؤن کے وقت روزانہ آرہے 55ہزار نئے معاملے اب گر کر 4ہزار سے بھی نیچے آگئے ہیں۔ اس کامیابی نے برطانیہ کی حکومت کو اپنی پوری توجہ ویکسینیشن پروگرام پر مرکوز کرنے کا موقع دیا ہے، جس کے مثبت نتائج وہاں کے عوام کو مل رہے ہیں۔ برطانیہ میں دنیا میں سب سے پہلے ویکسینیشن پروگرام شروع ہوا اور اب تک وہ اپنی آبادی کے 48فیصد حصہ کی ٹیکہ کاری کرچکا ہے۔ اس کا ہدف جولائی تک اپنی بالغ آبادی کے صدفیصد ویکسینیشن کا ہے۔ یہی حال امریکہ کا ہے۔ بیشک ویکسینیشن کے اعدادوشمار میں امریکہ ابھی برطانیہ سے پیچھے ہے، لیکن پورے ملک کو ٹیکہ کاری کے دائرہ میں لانے کے معاملہ میں وہ برطانیہ کو پیچھے چھوڑنے کی تیاری میں نظر آرہا ہے۔ ابھی تک امریکہ کی کل آبادی کے تقریباً 29فیصد حصہ یعنی تقریباً ایک تہائی شہریوں کو ویکسین لگ چکی ہے اور برطانیہ کے جولائی تک صدفیصد ہدف کے مقابلہ امریکہ اسے مئی میں ہی حاصل کرلینا چاہتا ہے۔ لیکن ہم پوری دنیا میں ویکسین کے سب سے بڑے بنانے والے ہونے کے بعد بھی اس ریس میں پیچھے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ٹیکہ کاری کے تین ماہ اور ٹیکہ اُتسو کے باوجود ہمارے یہاں ویکسینیشن کی رفتار ابھی بھی کافی آہستہ ہے اور روزانہ اوسطاً 30لاکھ سے کچھ زیادہ ویکسین ہی لگائی جارہی ہے۔ اس کے سبب اب تک صرف 7فیصد آبادی کی ٹیکہ کاری ہوپائی ہے۔ اس رفتار سے حکومت کو ملک کے آخر شخص تک ویکسین پہنچانے میں اب مزید 415دن یعنی ایک سال سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
تشویش کا ایک سبب ٹیکہ کی بڑے پیمانہ پر ہورہی بربادی بھی ہے۔ کئی ریاستوں میں ابھی بھی اس کی شرح 15-16فیصد کے درمیان قائم ہے۔ ایسی ریاستوں کو کیرالہ سے سبق سیکھنا چاہیے، جہاں ویکسین بربادی کی شرح صفر ہے یعنی کیرالہ اپنے کھاتے میں آرہی ویکسین کی ایک ایک ڈوز کا صحیح استعمال کررہا ہے۔ اس سب کے پیچھے یہ دلیل بھی گلے سے نہیں اتررہی ہے کہ جب ہم ٹیکہ کاری کے ہدف سے کافی پیچھے چل رہے ہیں اورٹیکہ مراکز پر مناسب تعداد میں لوگوں کے نہیں پہنچنے سے لاکھوں ٹیکے برباد ہورہے ہیں، تب بھی ہم ٹیکہ کاری کے لیے عمر کی بندش کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں؟ کیوں نہیں ٹیکہ کاری کو 45برس سے زائد عمر کے لوگوں تک محدود رکھنے کے بجائے اسے سبھی عمر کے لوگوں کے لیے کھول دیا جاتاہے۔ کئی ریاستیں اس کا مطالبہ بھی کرچکی ہیں۔ اگر ٹیکوں کی کم دستیابی اس کی وجہ ہے تو پروڈکشن کو بڑھانے کے لیے قدم اٹھانے چاہئیں۔ اگر ٹیکوں کی مناسب تعداد میں دستیابی ہے تو پلس پولیو مہم کی طرح گھر گھر جاکر ٹیکہ لگانے جیسی مہم شروع کی جاسکتی ہے۔
کہنے کا مطلب یہی ہے کہ اپنی تمام کوششوں کے باوجود کورونا سے لڑائی میں ہم عالمی سطح تو دور، اپنے خود کے بنائے ہدف سے پیچھے چل رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ نئے انفیکشن اور اموات کی تعداد میں اضافہ واضح اشارہ کررہا ہے کہ وبا سے نمٹنے کے لیے ہماری اب تک کی کوششیں بھلے ہی صحیح راستہ پر ہوں، لیکن یہ کافی نہیں ہیں۔ اسے اور تیز کیے جانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ملک میں اب میڈیکل ایمرجنسی نافذ کرنا ضروری ہوگیا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS