اپوزیشن اتحاد ’انڈیا ‘کا ہدف اور چیلنج

0

گزشتہ ساڑھے نو سالوں میں اپوزیشن جماعتوںکو ایسا قیمتی موقع شاید پہلی بار ہاتھ لگا ہے کہ جب وہ باہمی اتحاد کے پختہ اظہار و عزم کے ساتھ مرکز میں حکمراں جماعت بی جے پی کے خلاف نبرد آزما ہیں اور ایک محاذ بنا کر اس کے خلاف حالت ’جنگ ‘ میں ہیںاور آئندہ لوک سبھا الیکشن میں اس سے ہر محاذ پر لڑنے کے عہدو پیمان کررہی ہیں۔شاید وہ بی جے پی کو یہ بتا دینا چاہتی ہیں کہ اب انہوںنے اسے اقتدار سے بے دخل کرنے کی قسم کھالی ہے اور جب تک ایسا نہیں ہوجائے گا، وہ خاموش نہیں بیٹھیں گی۔ ان کو بھروسہ ہے کہ ان کو نہ توکوئی تقسیم کرسکتا ہے،نہ ہی منتشر کرسکتا ہے۔ اس عزم مصمم کے ساتھ اٹھائیس اپوزیشن جماعتیں گزشتہ تین دن سے ممبئی میں جمع ہیں اور آج ان کی میٹنگ کا آخری دن تھا۔یہ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘کی تیسری میٹنگ تھی،اس سے قبل پہلی میٹنگ پٹنہ اور دوسری بنگلورو میں ہوچکی ہے۔یہ میٹنگیں اس امر کا مظہر ہیں کہ انہوںنے بی جے پی کو اقتدار سے اکھاڑ پھینکنے اور ملک کو اس کی آئیڈیالوجی سے باہرنکالنے کی خاطرتمام آپسی مخاصمت اور رنجشوں تک کو بالائے طاق رکھنے کا عہد کرلیا ہے۔اس لیے اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘پورے جوش کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہے،ممبئی میں اس کیلئے نہ صرف ٹھوس حکمت عملی پر غورو خوض ہو رہا ہے بلکہ آج کی میٹنگ میں کئی تجاویز پاس کرکے ان کے اعلانات بھی ہوچکے ہیں جو بی جے پی کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کے عزم کا اشارہ ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ایک سیکولر ملک اورجمہوریت میں حزب اختلاف کو آئین سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ آئین کے خلاف پالیسی ساز ی کرنے اور من مانے ڈھنگ سے کام کرنے والی حکومتوں کا تختہ الٹ دے اور سیکولرازم کے اصولوں کی بقا کے لیے جدوجہد کرے۔اپنی اسی نیت و ارادے کے ساتھ اپوزیشن بی جے پی حکومت سے برسرپیکار ہے لیکن سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا اپوزیشن اپنے جس ہدف کو پانے کے لیے کام کررہا ہے، وہ اس کو کماحقہ حاصل کر پائے گا؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ حکمراں این ڈی اے،جسے وہ آسان نوالہ سمجھ رہا ہے، گزشتہ دو ادوار کامیابی کے ساتھ مکمل کرچکا ہے اور وزیراعظم مودی پورے تیقن کے ساتھ لال قلعہ کی فصیل سے یہ کہہ چکے ہیں کہ سال 2024 میںبی جے پی ہی بر سر اقتدار آئے گی اور انہیں کوئی ہرا نہیں سکتا۔بی جے پی کے اس دعوے میں نہ صرف مضبوط اعتماد چھپا ہے بلکہ ایک کھلا چیلنج بھی ہے جو حزب اختلاف کی بے چینی کو بڑھانے کیلئے کافی لگتا ہے۔ اس کا یہ دعویٰ اس لیے بھی اہم ہو جاتا ہے کہ گزشتہ دو نوں بار بی جے پی نے جتنی سیٹوں کے جیتنے کا دعویٰ کیا، اس کو ثابت کر کے دکھایا۔اس سے لگتا ہے کہ بی جے پی کے پاس اپوزیشن کا ایسا کوئی راز یا کنجی ضرور ہے جس کو وہ وقت پر ہی کھولے گی۔ایسے میں اپوزیشن اتحاد کے سامنے بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے جس ہدف کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے، اس سے اس کی نظریں نہ ہٹیں اور نہ ہی قدم متزلزل ہوں۔لیکن اپوزیشن اتحاد ابھی اپنے دعوئوں میں اتنا مضبوط نہیں لگتا۔ ان میں اس کا کھوکھلا پن جھلکتا ہے۔وہ یہ کہ اس کے ساتھ سبھی اپوزیشن جماعتیں ساتھ متحد کھڑی ہیں۔اگر ایسا تھا تو آسام کی اے آئی یو ڈی ایف اورآل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کو نہ چھوڑا جاتا۔ انہیںساتھ لے کر چلنے سے دوری کیوں اختیار کی گئی ؟ کیا یہ رویہ اپوزیشن اتحاد کو مضبوطی فراہم کرے گا، کیا یہ اس کی کمزوری کی طرف اشارہ نہیں کرتا ہے؟ اپوزیشن اتحاد کے لیے یہ بے حد شرم کی بات ہے کہ اے آئی یو ڈی ایف کو ’انڈیا‘ کا حصہ بننے کا خود ہی اعلان کرنا پڑا۔یہی وہ سب عوامل ہیں جو بی جے پی کو اتحاد ’انڈیا‘ میں انتشار پھیلانے کا راستہ فراہم کر سکتے ہیں جس سے اپوزیشن جماعتیں شاید غافل ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایسے میں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا ‘ کے سامنے خود کو بچانے کا کیا راستہ ہوگا۔بی جے پی ہر اس موقع کی فراق میں نظریں گاڑے بیٹھی ہے کہ ’انڈیا‘ کو بکھیردیا جائے۔کیاسمبت پاترا اور بی جے پی کے لیڈریہ نہیں کہہ چکے ہیں کہ ’’ اتحاد محض دکھا وا ہے، دَل ملے ہیں دِل نہیں ملے ‘‘، شاید یہ بات اپوزیشن کو نہیں سمجھ میں آئی۔
بہر کیف، راہل گاندھی کا یہ دعویٰ کہ اگر اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ مضبوط رہے گا تو بی جے پی دوبارہ اقتدار میں نہیں آسکتی، یا لیڈروں کے وہ بیان جس میں وہ مودی کو اتارنے کیلئے اپنا سب کچھ دائو پر لگانے کی قسمیں کھا رہے ہیں،یقینا ان کے جذبہ، خلوص اور عزم مصمم کی جانب اشارہ کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس سے راستے کی وہ کھائی بھی بھر جائے گی جو ان کی غلطیوں کی وجہ سے معرض وجود میں آچکی ہے۔کہنے کا مطلب ہے کہ اگراپوزیشن لیڈروں کو اپنا ہدف پالینے کا بھرپور یقین ہے تو ان کو نقصان دینے والی تمام کھائیوں کو وقت رہتے بھر لینا ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS