خواہشات اور خوابوں کا بوجھ

0
خواہشات اور خوابوں کا بوجھ

محمد حنیف خان

تعلیم کے بغیر ترقی کا تصور ناممکن ہے، فرد،قوم اور ملک ہر سطح پر طویل مدتی ترقی تعلیم سے ہی وابستہ ہے،لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ نئی نسل کی زندگیوں کو ہی داؤ پر لگا دیا جا ئے۔یہی نسل ملک کا مستقبل ہے،ترقی کی ہر خواہش اور اس کا ہر نتیجہ اسی نسل سے وابستہ ہے،اسلاف سے کہیں زیادہ یہ نسل زیرک اور سنجیدہ ہے،اسے معلوم ہے کہ خوابوں کا بوجھ اس کے ناتواں کندھوں پر ہے،جنہیں شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے اس نسل نے اپنا بچپن کھو دیا ہے۔نئی نسل کی اپنی خواہشیں اور چاہتیں تو ہیں ہی، اس کے ساتھ ہی والدین اور معاشرے کے خواب بھی اسے گراں بار کیے ہوئے ہیں،جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اس بوجھ کے نیچے دب کر اپنی زندگیوں کو ختم کیے دے رہے ہیں۔
کوٹہ راجستھان کا ایک چھوٹا سا شہر ہے جسے کوچنگ سینٹر کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے،جہاں انجینئرنگ اور میڈکل کے انٹرنس امتحان جے ای ای اور این ای ٹی ٹی کی تیاری کے لیے سالانہ تقریباً دو لاکھ طالب علم آتے ہیں،ان میں امیر و غریب اور پڑھنے میں تیز وکمزورہر سطح کے بچے ہوتے ہیں،جن کا ہدف صرف متعلقہ امتحان میں کامیابی ہوتی ہے لیکن چونکہ ہر سیٹوں کا تعین ہونے کی وجہ سے ہر ایک کا داخلہ تو نہیں ہوسکتا، اس لیے جب انہیں ناکامی ملتی ہے تو وہ خودکشی جیسا قدم اٹھا لیتے ہیں۔ گزشتہ آٹھ ماہ میں 22 طالب علم یہ انتہائی قدم اٹھاچکے ہیں،یہ ایک برس میں اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (این سی آربی) پورے ملک کے اعداد و شمار جمع کرتا ہے،اس کے مطابق 2021میں طالب علموں کی خودکشی میں پانچ برسوں(2016-20121) کے مقابلے 27فیصد کا اضافہ ہواتھا۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2021میں13089طلبا نے خود کشی کی جن میں سے 7396لڑکے تھے جبکہ5693لڑکیاں تھیں۔ 2016میں 9478طالب علموں نے خود کشی کی تھی یہ تعداد 2019میں بڑھ کر 10335ہوگئی۔اور 20121میں 13089ہوگئی۔اس رپورٹ کے مطابق معاشی راجدھانی والی ریاست مہاراشٹر میں سب سے زیادہ 1834طلبا نے خود کشی کی،جن کی عمر 30برس سے کم تھی،رپورٹ کے مطابق ان سبھی طالب علموں نے امتحانات میں ناکامی کی وجہ سے یہ انتہائی قدم اٹھایا تھا۔ مدھیہ پردیش میں 1308، تمل ناڈو میں 1246 اور کرناٹک میں 855 طلبا نے خودکشی کی تھی۔این سی آر بی نے 2020 میں یہ رپورٹ کیا تھا کہ ہر 42منٹ میں ایک طالب علم خودکشی کرتا ہے، اس طرح 34طلبا یومیہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ نئی نسل زندگی کے بجائے موت کو کیوں ترجیح دے رہی ہے؟اس کے کئی اسباب و وجوہ ہیں، جن میں کوچنگ کلچر سر فہرست ہے۔اعداد و شمار اور دستاویزی حیثیت سے ہندوستان نے خواہ معاشی سطح پر پانچواں مقام حاصل کرلیا ہو لیکن زمینی سطح پر آج بھی وہ غریبوں کا ملک ہے،دو وقت کی روٹی کے لیے آج بھی انتھک محنت کرنی پڑتی ہے اور پھر اسی میں سے بچا کر جب والدین اپنے بچوں کوچنگ کے لیے بھیجتے ہیں تو طلباء کے ذہن پر ہدف سے کہیں زیادہ والدین کی محنت اور ان کے خواب سوار ہوتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں ان میں ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے والدین کو منھ دکھا سکیں۔کوچنگ سینٹر بھی ایسے ہوتے ہیں جو والدین کو چوس لیتے ہیں، وہ اپنی کمائی کا وافر حصہ ان سینٹروں کے مالکان کے حوالے کرچکے ہوتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کوچنگ سینٹر کی وجہ سے مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیابی کا فیصد بڑھا ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ سینٹر غریب عوام کے لیے تازیانہ بن گئے ہیں۔در اصل یہ ہمارے نظام تعلیم کی خامی ہے جس کی وجہ سے اسکول و کالج صرف داخلہ کی جگہ اور کوچنگ سینٹر تعلیم کی جگہ بن گئے ہیں۔یہ سینٹر ایک جانب جہاں نئی نسل کے لیے وردان ثابت ہورہے ہیں تو دوسری جانب یہی ان کی زندگیوں کے خاتمے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔
کوچنگ سینٹراب معاشرے میں اسٹیٹس سمبل بن چکے ہیں،اگر کسی کا بچہ کسی سستی کوچنگ یا سستے اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے تو اس کو معاشرے کا کمتر شخص تصور کیا جاتا ہے۔کسی بھی جگہ آپ جائیں بچوں سے متعلق جو سوالات ہوتے ہیں،ان میںمہنگے اسکول اور مہنگی کوچنگ سرفہرست ہے۔ان اسکولوں اور کوچنگ سینٹروں سے ہر شخص پریشان ہے لیکن اس کو کوئی ظاہرنہیں کرنا چاہتا ہے۔ایسے میں سب سے زیادہ نقصان متوسط طبقے کے ساتھ ان سبھی طلبا کا ہوتا ہے جو ان اسکولوں اور کوچنگ سینٹروں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں۔متوسط طبقے کے پاس اتنی رقم ہی نہیں ہوتی ہے کہ وہ ان اسکولوں اور کوچنگ سینٹروں کی فیس ادا کرسکے۔جس کی وجہ سے ان کے بچے پہلے سے ہی احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں،کیونکہ ان کی تعلیم سرکاری اسکولوں میں ہوتی ہے جن کا معیار ناقص ہوتا ہے،اسی وجہ سے ان کی انگریزی پر گرفت بھی نہیں ہوتی ہے،اب اگر کوئی شخص کسی طرح سے انتظام بھی کردے تو اس کے بچے ان کوچنگ سینٹروں میں چل نہیں پاتے ہیں۔چونکہ متوسط اور خوشحال دونوں طبقات زر کثیر صرف کرتے ہیں، اس لیے ان کو صرف کامیابی چاہیے،وہ اپنے بچوں کا ذہن اور ان کی پسند کا بھی خیال نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنا پسندیدہ موضوع ان پر تھوپ دیتے ہیں اوراپنی خواہشات کے خول میں ان کے وجود کو بند کرنے کی کوشش کرتے ہیںکیونکہ انہیں اپنے بچوں کو معاشرے میں اسٹیٹس سمبل کی سیڑھی بناناہے، اس لیے ان بچوں کے ذہنوں پر والدین کی خواہشات اور ان کے خوابوں کے بوجھ حاوی ہوجاتے ہیں اور پھر ناکامی کی صورت میں یہ معصوم بچے خود کو موت کے حوالے کردیتے ہیں۔
تعلیم کیا ہے اور اس کی اہمیت کیوں ہے اور تعلیم کو کون کس طرح استعمال کر رہا ہے؟تعلیم کے حوالے سے یہ اہم سوالات ہیں۔تعلیم انسان کو ترقیات کی راہ دکھاتی ہے۔علم بشریات کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس نے انسان کو جنگلوں اور غاروں سے نکال کر ایک نئی اور متمدن دنیا میں پہنچایا ہے۔یہ تمدن و ثقافت اسی تعلیم کی رہین منت ہے۔تعلیم کسی انسان کو معاشرے کا ایک ایسا انسان بناتی ہے جسے اپنی ہر طرح کی ذمہ داریوں کا احساس ہو اوراپنے ہر کردار کو وہ ایمانداری کے ساتھ ادا کرتا ہو۔لیکن اسے معاشرے کی الگ الگ اکائیاں بالکل الگ انداز میں استعمال کرتی ہیں۔معاشرہ تعلیم کو اس طور پر استعمال کرتا ہے کہ تعلیم نئی نسل کو ایک اچھا شہری بنائے، والدین تعلیم کو اپنی اور نئی نسل کی مادی ترقی کا ذریعہ تصور کرتے ہیں،جب کہ حکومتیں اسی تعلیم کو اپنے اصول و نظریات کی بقا کے لیے استعمال کرتی ہیں،اسی لیے حکومت میں تبدیلی کے ساتھ ہی نصاب تعلیم میں تبدیلی پر غور و خوض بھی شروع ہوجاتا ہے۔لیکن سماج کے مصلحین اور اس کی بھلائی چاہنے والی شخصیات اسی تعلیم کو بیداری اور آزادی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔یعنی معاشرے کی ہر یونٹ اور ہر اکائی تعلیم کو اپنے طور پر استعمال کرتی ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اہداف کے مطابق نتائج بر آمد ہوں۔ان سب کا بوجھ کسے برداشت کرنا ہوتاہے؟سوائے طالب علموں کے اور کوئی نہیں ہے جو ان سب کا بوجھ برداشت کر رہا ہو۔اس پریشانی کی وجہ سے ہی تعلیم غیرمتوقع طوپر معاشرے کی تباہی کا سبب بنتی جارہی ہے کیونکہ جس طرح سے طلبا کے ذہنوں پر بوجھ ہے، اس میں ذرا سی بھی ناکامی کے امکان کی صورت میں طلبا انتہائی قدم کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔چونکہ ہمارے یہاں تعلیم کو انسان بنانے کا ذریعہ تصور کرنے کے بجائے اسے حصول ملازمت کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے اور اگر کسی کو ملازمت نہیں مل سکی تو اسے ناکام تسلیم کرلیا جاتا ہے، اس لیے معاملات مزید سنگین ہوجاتے ہیں۔تعلیم کو دیکھنے کے تناظر نے ہی نئی نسل کی زندگیوں کو بوجھل بنا دیا ہے،جس کا بوجھ وہ نہیں برداشت کرپاتے ہیں، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم سے متعلق اولاً نظریہ تبدیل کیا جائے اور ثانیاً حکومت کو کوچنگ سینٹر کے بجائے ایسے نظام تعلیم کو فروغ دینا چاہیے جس میں اسکول،کالجز اور یونیورسٹیاں درس وتدریس اور حصول تعلیم کے لیے کافی ہوں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS