اتحاد میں معاون بنی گنگا جمنی تہذیب

0

ہندوستان کو آزادی تقسیم کے بعد ملی تھی، اس وقت لوگوں کو متحد رکھنا کسی امتحان سے کم نہ تھا۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور ان کے ساتھی یہ جانتے تھے کہ ہندوستان کو مستحکم بنانے کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ یہاں امن قائم ہو تاکہ اقتصادی سرگرمیاں بحال ہو سکیں، معمولات زندگی پٹری پر آسکے۔ اس کے لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ دلوں سے نفرت مٹائی جائے، ہندوستانیوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ ملک بٹا ہے، وہ نہیں بٹیں ہیں اور یہ بات ٹھیک بھی تھی، کیونکہ جن کو جو ملک چننا تھا، انہوں نے وہ ملک چن لیا تھا۔ ایک تعداد میں ہندو پاکستان میں رہ گئے تھے جبکہ مسلمانوں کی معمولی تعداد ہی پاکستان گئی تھی، باقی لوگوں نے ہندوستان کو ہی اپنا وطن مانا تھا۔ اس وقت فن و ادب اورفلم والوں نے دلوں سے کدورتیں نکالنے میں نہایت اہم رول ادا کیا۔ محبوب خان، راج کپور اور گرودت جیسے ہدایت کاروں نے یہ احساس دلایا کہ ہندوستان کے لوگوں کو سماجی مسئلوں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس وقت کی اکثر فلموں میں مسلمان ہیرو کی دوستی ہندوسے اور ہندو ہیرو کی دوستی مسلمان سے دکھائی جاتی تھی جیسے ’میرے محبوب‘ میںانور حسین انورؔ(راجندر کمار) کا دوست بندادین رستوگی (جانی واکر) ہے تو ’چودھویں کا چاند‘ میں اسلم (گرو دت) کا دوست مرزا شیداؔ (جانی واکر) ہے۔ اسی طرح ’زنجیر‘ میں انسپکٹر وجے کھنہ (امیتابھ بچن) کی مدد شیر خان (پران) کرتا ہے تو ’دھول کا پھول ‘میں مہیش کپور (راجندر کمار) اور مینا کھوسلا (مالا سنہا) کے بچے کی پرورش عبدالرشید (منموہن کرشنا) کرتا ہے۔ آخر اس طرح کے کرداروں کو رکھنے کا مقصد کیا تھا؟ اس طرح کے کرداروں کو رکھنے کا مقصد اس سماج کو دکھانا تھا جو ہندوستان کا سماج ہے جس کی روح گنگا جمنی تہذیب تھی۔ اس تہذیب کو پروان چڑھانے میں ادیبوں اور شاعروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ گنگا جمنی تہذیب نے ہندوستان کے لوگوں کو متحد رکھنے میں نہایت اہم رول ادا کیا مگر کیا آج کے ادیبوں، شاعروں اور فلم والوں کے لیے بھی گنگا جمنی تہذیب اہمیت کی حامل ہے؟ اس سوال کا جواب ایک جملے میں دینا مشکل ہے، کیونکہ کئی بار فلم والوں کی طرف سے جو بیانات آتے ہیں، وہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تبدیلیوں کا اثر ان پر بھی پڑ رہا ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS