حجاب پر ہنگامہ، سیاست کا فسانہ

0

کچھ دن قبل سڑک پر نعرے لگاتی ایک اکیلی لڑکی اور اسے گھیرے لڑکوں کے ایک ہجوم کا ایک ویڈیو ملک میں خوب وائرل ہوا۔ ویڈیو میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی تو اس سے منسلک معلومات کا پٹارا کھلتے بھی دیر نہیں لگی۔ طالبانی کلیور والے اس ویڈیو کا ہندوستان سے کنکشن نکلنے پر تھوڑی حیرانی بھی ہوئی۔ پتہ چلا کہ ویڈیو کرناٹک کے مانڈیا کے پی ای ایس کالج کا ہے، جہاں ایک مسلم طالبہ کو ’جے شری رام‘ کے نعرے لگارہے مظاہرین نے گھیر لیا تھا اور بدلے میں اس طالبہ نے بھی ’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگائے۔
بھیڑ کے خلاف اکیلی کھڑی ہونے والی اس طالبہ نے بعد میں معلومات فراہم کی کہ وہ کالج میں اپنا اسائنمنٹ جمع کرنے گئی تھی لیکن برقع پہنے ہونے کی وجہ سے لڑکے اسے اندر نہیں جانے دے رہے تھے۔ ان میں کچھ لڑکے کالج کے تھے، کچھ باہر کے بھی تھے۔ جب انہوں نے نعرے لگائے تو طالبہ نے بھی نعرے لگائے۔ طالبہ کا کہنا ہے کہ بعد میں اس کے ٹیچر اور پرنسپل نے بھی اسے سپورٹ کیا اور وہاں سے بچا کر لے گئے۔
یہ لڑکی اب پورے ملک میں ’حجاب گرل‘ کے نام سے مشہور ہوگئی ہے یا مشہور کردی گئی ہے؟ اور یہاں سوال میں اس لیے اٹھا رہا ہوں کیوں کہ کالج کیمپس میں ہوئے اس تنازع میں مجھے ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ اس کے لیے پورے ملک کو سیاسی اکھاڑہ بنادیا جائے۔ حقیقت میں ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں اس تنازع کو سامنے آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ یہ ایک عام اپیل سے طے ہوسکتا تھا کہ مسلم لڑکیاں پرائیویٹ/ پبلک پلیس پر اپنی مرضی اور سہولت سے حجاب پہن سکتی ہیں۔ لیکن چوں کہ یہ یونیفارم کے ڈسپلن کی خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اسکولوں/کالجوں میں نہ پہنا جائے۔
اگر لڑکیاں ایسا کرنے میں خود کو اَن کنفرٹیبل محسوس کررہی تھیں تو انہیں حجاب پہن کر آنے کی منظوری دے بھی دی جاتی تو کون سا پہاڑ ٹوٹ جاتا؟ ایسا بھی نہیں ہے کہ ملک میں دوسرے مقامات پر یا دوسرے مذاہب کے لیے ایسی رعایت نہ دی جارہی ہو۔ یہ دلیل بے تکی ہے کہ آگے چل کر یہ قانون اور نظم و نسق کا ایک ایشو ہوسکتا تھا۔ کرناٹک کے پڑوسی کیرالہ میں ہی مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت ہے۔ کئی مسلم لڑکیاں پھر بھی اسے نہیں پہنتی ہیں۔ وہاں اس کی وجہ سے آج تک نظم و نسق کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا، بلکہ مسلم خواتین کی شرح خواندگی سب سے زیادہ اور ہائر سکینڈری اسکولوں میں مسلم لڑکیوں کا اندراج بھی سب سے زیادہ کیرالہ میں ہی ہے۔ جس اڈوپی ضلع میں یہ ہنگامہ ہوا ہے، وہیں کے ایک دیگر کالج بھنڈارکر آرٹس اینڈ سائنس ڈگری کالج میں مسلم لڑکیوں کو حجاب پہننے کی اجازت ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ اس کا رنگ ڈوپٹے کے جیسا ہونا چاہیے اور لڑکیاں خوشی خوشی اس ڈریس کوڈ پر عمل کررہی ہیں۔
بیشک ڈریس کوڈ اداروں سے متعلق ہوتے ہیں اور اس سے وابستہ ڈسپلن شکنی کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے، کیوں کہ ڈسپلن ہی ان اداروں کی بنیاد ہے۔ لیکن یہ دلیل بھی گلے نہیں اترتی کہ اگر کسی کو یونیفارم پسند نہیں ہے تو اسے ادارہ کو چھوڑ دینا چاہیے، جب کہ آسانی سے اس میں راہ نکالی جاسکتی ہے۔
اس کے برعکس ہویہ رہا ہے کہ معاملہ سلجھانے کے بجائے اسے خواتین کی آزادی، تعلیم کے حق، مذہب پر خطرہ جیسے بہت بڑے اور بہت وسیع دلائل میں الجھایا جارہا ہے۔ تنازع کے پس منظر کے تعلق سے بھی متضاد باتیں سامنے آرہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ حجاب تنازع سے وابستہ رٹ پٹیشن لگانے والی 6مسلم طالبات کچھ وقت پہلے تک اے بی وی پی کی حمایت کرتی تھیں۔ گزشتہ اکتوبر میں کسی دیگر ادارہ کی طالبہ سے مبینہ عصمت دری کے احتجاج میں نکلی ریلی میں ان طالبات نے اے بی وی پی کا جھنڈاتھاما تھا۔ لیکن جب اس ریلی میں ان کی بغیر حجاب پہنے تصویریں وائرل ہوئیں تو بکھیڑا کھڑا ہوگیا۔ پریواروں نے اعتراض جتایا تو معلوم ہوا کہ کالج انتظامیہ نے کلاسز میں حجاب پہن کر بیٹھنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ اب کرناٹک حکومت کو اڈوپی انتظامیہ کی جانب سے بھیجی گئیں خفیہ معلومات کاحوالہ دے کر کہا جارہا ہے کہ اسلامک تنظیم پیپلز فرنٹ آف انڈیا(پی ایف آئی) کی اسٹوڈنٹ یونٹ کیمپس فرنٹ آف انڈیا یعنی سی ایف آئی نے لڑکیوں کے رشتہ داروں کو مسئلہ سلجھانے کی یقین دہانی کراکر بھڑکایا ہے۔ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اس کی بھنک نہیں لگنے کی پہلی جواب دہی تو اڈوپی انتظامیہ کی ہی بنتی ہے۔ اڈوپی انتظامیہ پر یہ سوال بھی اٹھنا چاہیے کہ ریاستی حکومت کو بھیجی گئیں اس کی خفیہ معلومات عام کیسے ہورہی ہیں؟ بغیر اڈوپی انتظامیہ یا کرناٹک حکومت کی سازباز کے یہ ممکن کیسے ہوسکتا ہے۔
اس پورے معاملہ میں ٹال مٹول کے ایسے ثبوت مل جائیں گے جو اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ اس تنازع کو جان بوجھ کر ہوا دی جارہی ہے۔ کچھ ماہ قبل حجاب ایشو کہاں تھا؟ یہ اچانک کیوں اتنا بڑا ہوگیاہے؟ متعلقہ فریقین کو فیصلہ پر پہنچنے کی اتنی جلدبازی کیوں ہے؟ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کو اس کی فوری وجہ بتانا منطقی لگ سکتا ہے، لیکن یہ پتہ لگانا بھی اہم ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش کون کررہا ہے؟کون ہے جو یونیفارم کی آڑ لے کر اس تنازع پر سیاسی اور فرقہ وارانہ رنگ چڑھا رہا ہے؟ کیمپس کے معاملہ کو مندر-مسجدکی تکرار میں آخر کون بدلنا چاہتا ہے؟ شدت پسندی کے جن مسئلوں پر ملک پہلے ہی اپنی بہت ساری توانائی صرف کرچکا ہے، انہیں پھر سے ہماری صلاحیتوں کا امتحان لینے کا موقع کیوں دیا جارہا ہے؟
شدت پسندانہ سوچ نے اپنے آپ کو تقویت دینے والوں کا کیا حال کیا ہے اس کے لیے دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا پڑوسی پاکستان اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ شدت پسندی کی منافقت نے آج پاکستان کو در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے مجبور کردیا ہے۔ طالبان کی حکومت والا افغانستان بھی اسی راہ پر ہے۔ اس کے برعکس نیویارک، لندن، دبئی کی چمک-دمک میں صرف ان شہروںکی معاشی ترقی کا ہی نہیں، ترقی پسند خیالات کی روشنائی کا بھی بھرپور تعاون ہے۔ کئی وجوہات سے میرا ان شہروں اور بالخصوص دبئی میں مسلسل آنا جانا رہتا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ وہاں معاشرہ کا تانابانا اتنا مضبوط ہے کہ ان سوالوں پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ کئی مرتبہ تو یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ وہاں کی انتظامیہ کو شاید اس بات کی معلومات بھی نہ ہو کہ پوری دنیا کے کتنے مذاہب-فرقوں کے لوگ وہاں آباد ہیں۔
ترقی کی راہ پر بڑھ رہا ہمارا ملک بھی اس سے سبق لے کر ترقی کی اپنی رفتار تیز کرسکتا ہے۔ ملک کا سپریم کورٹ اگر کہہ رہا ہے کہ وقت آنے پر وہ اس معاملہ کی سماعت کرے گا اور اس مقامی تنازع کو بلاوجہ قومی سطح کا ایشو نہ بنائیں، تو اس میں بڑے انتباہ کے ساتھ ایک بہت بڑا پیغام بھی ہے۔ ایسے سبھی لوگ جو مذہبی نعرے لگاکر تنازع کی آگ کو بھڑکا رہے ہیں، وہ یہ جان لیں کہ یہ ملک نہ تو شریعت سے چلے گا، نہ ہی سناتن دھرم سے بلکہ یہ چلے گا اس آئین سے جسے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے تیار کیا ہے۔ اس میں تھوڑی بھی ناکامی ہوئی تو خطرہ بہت بڑا ہے۔ یہ صرف شدت پسندی اور مذہب کی سیاست میں ڈوبے لوگوں کی بھسماسوری خواہشات کو ہی وسعت دے گا۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS