کلام الٰہی کی عملی نافرمانی کرنیوالوں کا انجام ؟

0
"La-ilaha-illallah-muhammadur-rasulullah" for the design of Islamic holidays. This colligraphy means "There is no God worthy of worship except Allah and Muhammad is his Messenger

ابونصر فاروق

قرآن کی ۱۱۴ سورتوں میں سورۂ رحمان وہ سورۃ ہے جس کو قرآن کا دل کہا گیا ہے۔جب کوئی خوش گلو قاری اس کی حسین قرأت کرتا ہے تو اس کو سمجھنے والے ہوں یا نہیں سمجھنے والے اُن پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اور سننے والے کا دل متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ہے۔ جب کوئی آدمی ان آیتوں کا معنی اور مطلب سمجھتا ہے تب تو اُس کی کیفیت کچھ اور ہی ہو جاتی ہے۔ لیکن جب کسی انسان پر ان آیتوںکا کوئی اثر نہ ہو اور اُس کی زندگی میں ان آیتوں پر ایمان لانے کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دے تو یہی کہا جائے گا کہ یہ انسان نہیں حیوان ہے جس کے پاس نہ جذبات سے دھڑکنے والا دل ہے اور نہ اس کی کھوپڑی میں وہ دماغ ہے جس میں موجود عقل انسان کو کسی بات کے انجام کو سو چنے اور سمجھ کر اس کے متعلق اپنے رویے کو طے کرنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ شاید ہی کوئی بد نصیب مسلمان ہوگا جس نے سورۂ رحمان کی قرأت نہیں سنی ہوگی۔ لیکن کسی مسلمان کی زندگی میں اس کی کوئی تاثیر دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ آئیے آج میں آپ کو بتاؤں کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں مست و مگن ہو کر کھو جانے والوں اور آخرت کے حساب و کتاب اور جزا وسزا کو بھول جانے والوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح وارننگ دے رہا ہے کہ اُن کا کیا انجام ہونے والا ہے۔
اے زمین کے بوجھو، جلد ہی ہم تم سے پوچھ تاچھ کرنے کے لئے فارغ ہوئے جاتے ہیں۔ (۳۱)تم اپنے رب کے کن کن احسانوں کو جھٹلاؤ گے۔(۳۲) یہ بات اس سورۃ کی آیات نمبر۳۴ ،۳۶، ۳۸ ،۴۰،۴۲میں بار بار دہرائی جا رہی ہے۔
اپنے نافرمان بندوں کو اللہ تعالیٰ زمین کا بوجھ کہہ رہاہے۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ اُس پر جو نا مناسب بوجھ لدا ہوا ہے جلدی سے جلدی وہ اترے اور اُس کو آزادی ملے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے ایسے نافرمان بندے زمین پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور زمین چاہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد سے جلد اُسے ایسے لوگوں سے چھٹکارا دلائے۔ یعنی کوئی زلزلہ آئے، سیلاب آئے،مہلک بیماری آئے جو ایسے لوگوں کی جان لے کر زمین کو اُن کے بوجھ سے آزاد کرا دے۔ کیسی نفرت کرنے والی گھناؤنی بات ایسے لوگوں کے متعلق کہی جارہی ہے۔کیا کوئی آدمی اپنی ایسی برائی سن کر برداشت کر سکتا ہے ؟ لیکن اللہ کے نافرمان بندے جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں کہ اُن پر ایسی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔
اے گروہ جن و انس اگر تم زمین اور آسمانوں کی سرحد سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ کر دیکھو، نہیں بھاگ سکتے، اس کے لئے بڑا زور چاہئے۔(۳۳) کہاجارہا ہے کہ جس دن قیامت برپا ہوگی اور نافرمان بندہ جب اللہ کے سامنے اپنی زندگی کا حساب دینے کے لئے کھڑا ہوگا تو اپنے برے انجام سے بچنے کے لئے بھاگنا چاہے گا لیکن اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ کائنات جو زمین اور آسمان کے احاطے میں پھیلی ہوئی ہے اس سے نکل کر بھاگ جانا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے یا تو پروردگار کا پروانہ چاہئے یااتنی زیادہ طاقت چاہئے جو اللہ کو بھی مجرم کو گرفتار کرنے میں ناکام بنا دے۔ اور ایسا ہونا محال ہے۔
(بھاگنے کی کوشش کروگے تو) تم پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا جس کا تم مقابلہ نہ کر سکو گے۔(۳۵)کہا جارہا ہے کہ اول تو یہاں سے بچ کر بھاگ نکلنا ہی محال اورناممکن ہے،پھر یہ کہ اگر ایسا ہو بھی گیا توبھاگنے والے پر ویسے ہی شعلہ اور دھواں چھوڑا جائے گاجیسا آخری نبی کی بعثت کے وقت اُن شیطانوں پرچھوڑا جاتا تھا جو آسمان کے برجوں میں بیٹھ کر کچھ خبر جاننے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
پھر (کیا بنے گی اُس وقت) جب آسمان پھٹے گا اور لال چمڑے کی طرح سرخ ہو جائے گا ؟(۳۷)کہا جارہاہے کہ نیلا آسمان جو طرح طرح کے رنگ بدلتا ہے اور خوش منظر دکھائی دیتا ہے اُس روز ایسا لال ہو جائے گا جس کو دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ ڈر سے سہم جاتا ہے۔ یعنی آخرت کا ماحول اتنا ڈراؤنا اور خطرناک ہوگا کہ مجرموں کے دل دہل جا رہے ہوں گے۔ اُس روز کسی انسان اور کسی جن سے اُس کا گناہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی،(۳۹)مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لیے جائیں گے اور اُنہیں پیشانی کے بال اور پاؤں پکڑپکڑ کر گھسیٹا جائے گا۔(۴۱)اُس وقت کہا جائے گا یہ وہی جہنم ہے جس کو مجرمین جھوٹ قرارد یا کرتے تھے۔(۴۳)کہا جارہا ہے کہ اللہ کے نافرمان بندوں کا گناہ اتنا صاف صاف دکھائی دے رہا ہوگا کہ مجرموں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ تم کیا گناہ کر کے آئے ہو۔بلکہ اُن کے چہرے خود شہادت دے رہے ہوں گے کہ یہ پکے مجرم اور گنہ گار ہیں۔ پھر اُن کو نہایت ذلیل کرتے ہوئے بالوں سے پکر کر گھسیٹتے ہوئے یاپیروں کو پکڑ کر کھینچتے ہوئے جانوروں کی طرح جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ اوربتایا جائے گا کہ یہ وہی جہنم ہے جس کو تم دنیا میں اپنی زبان سے، اپنے عمل سے اور اپنے رویے سے جھٹلایا کرتے تھے اور سمجھانے اور بتانے کے بعد بھی ماننے کو تیار نہیں تھے۔ اسی جہنم اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان وہ گردش کرتے رہیں گے۔ (۴۴)اب ان مجرموں کا انجام یہ ہوگا کہ وہ جہنم کی آگ میں تپ کر پیاس کی شدت سے بد حال ہوں گے اور بھاگ کر پانی کی طرف جائیں گے لیکن پانی اُن کی پیاس نہیں بجھائے گا بلکہ اُن کے منہ، حلق اور پیٹ کو جلا کر رکھ دے گا۔پانی پی کر وہ بھاگیں گے اور پھر بھڑکتی ہوئی آگ کے پاس آئیں گے، پھر وہاں سے بھاگ کر پانی کی طرف جائیں گے۔ یہی سلسلہ مسلسل اُن کے ساتھ چلتا رہے گا۔ سورۃ النازعات کی آیات۲۴ سے۳۶ تک میںکہا جارہا ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں شیطان کی پیروی کرنے کی وجہ سے آخرت کا کہیں زبانی اور کہیں عمل سے انکار کیا تھا اُن کاحشر کے میدان میں کیا حال ہوگا۔اور(اُس روز) کچھ چہرے اداس ہوں گے۔(۲۴) اور سمجھ رہے ہوں گے کہ اُن کے ساتھ کمر توڑ برتاؤ ہونے والا ہے۔
(۲۵)ہرگز نہیں، جب جان حلق تک پہنچ جائے گی،(۲۶)اور کہا جائے گا، ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ۔(۲۷)اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے۔(۲۸)اور جب پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی ۔(۲۹)وہ دن ہوگا تیرے رب کی طرف روانگی کا۔(۳۰)مگر اُس نے سچ نہ جانا اور نہ نماز پڑھی۔ (۳۱) بلکہ جھٹلایا اور پلٹ گیا۔(۳۲) پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چل دیا۔(۳۳) یہ روش تیرے ہی لیے سزاوار ہے اور تجھ ہی کو زیب دیتی ہے۔(۳۴) ہاں یہ روش تیرے ہی لیے سزاوار ہے اور تجھ ہی کو زیب دیتی ہے۔(۳۵)کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا ؟ (النازعات:۲۴تا۳۶)
وہاںکے حالات دیکھ کراُن کو اپنا انجام سمجھ میں آ جائے گا اور اس وجہ سے اُن کے چہروں پر اداسی چھا جائے گی۔ وہ یہ بھی جان لیں گے کہ آج اُن کے ساتھ یہاں کیا برتاؤ ہونے والا ہے۔دنیا میں جب ایسے لوگوں کی موت کا وقت آتا ہے تو اُن کا کیا حال ہوتا ہے اُس کی منظر نگاری یہاں کی گئی ہے۔یعنی یاتو انسان بیمار پڑا یا کسی حادثے کا شکارہوگیا اور علاج کے باوجود وہ اچھا نہیں ہو سکا، تب بھی اللہ پر تو ایمان تھا نہیں کسی جھاڑ پھونک والے کا سہارا لیا گیا، لیکن بیمار کی سمجھ میں آ گیا کہ اب اُس کا کچھ بھی بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ اب دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ پھر روح پرواز کر گئی اور مردے کی پنڈلی سے پنڈلی جوڑ کا باندھ دی گئی۔ دنیا میں اس کی حالت یہ تھی کہ جب اس کو آخرت پر ایمان لانے اور وہاں کے لئے کچھ تیاری کرنے کو کہا جاتا تھا تویہ اُس پر یقین نہیں کرتا تھا اور نماز کی عبادت کے لئے تیار نہ تھا۔ اپنی ناقص سمجھ داری کے غرور میں اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چلا جاتا تھا اور نصیحت کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دیتا تھا۔ آخر میں کہا جارہا ہے کہ جو لوگ جہنم میں جانے والے ہوتے ہیں دنیا میں اُن کا ایسا ہی رویہ ہوتا ہے اور ایسے لوگ ایسے ہی رویے والے ہوا کرتے ہیں۔
سورۃ الزخرف کی آیات۷۴ سے۷۸ تک میں آگے کی بات بتائی جا رہی ہے۔
رہے مجرمین ، تووہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ (۷۴)کبھی اُن کے عذاب میں کمی نہ ہوگی، اور وہ اس میں مایوس پڑے ہوں گے۔(۷۵)ہم نے اُن پر ظلم نہیں کیابلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔(۷۶)وہ پکاریں گے اے مالک! تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے تو اچھا ہے۔وہ جواب دیں گے تم یوں ہی پڑے رہو۔(۷۷)ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے مگر تم میں سے اکثر کو حق ہی ناگوار تھا۔(۷۸)یعنی جہنم کے عذاب سے گھبرا کر یہ مجرم لوگ جہنم کے فرشتوں سے فریاد کریں گے کہ اپنے مالک سے کہو کہ وہ ہم کو موت دے دے تاکہ ہم اس عذاب سے نجات پا جائیں۔ تب اُن کو جواب دیا جائے گا کہ اب موت کہاں، موت کو خود موت آگئی۔ ا ب تم اپنے کالے کرتوتوں کی سزا یوں ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جھیلتے رہو۔ ایک طرف ان گنہگار اور مجرم مسلمانوں کا یہ حال ہوگا اور دوسری طرف اُن کے دنیا والے جگری دوست اور رشتہ داروں کا ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا ذرا اُس منظر کو بھی سورۃ الزخرف کی آیات ۱۰تا ۱۸ میں ملاحظہ فرمائیے۔اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا۔(۱۰)حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے۔ مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولا دکو۔(۱۱)اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو۔(۱۲) اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھا۔(۱۴) ہرگز نہیں وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہوگی۔(۱۵)جو گوشت پوست کو چاٹ جائے گی۔(۱۶)پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی ہر اُس شخص کو جس نے حق سے منہ موڑا اور پیٹھ پھیری۔(۱۷) اورمال جمع کیا اور سینت سینت کر رکھا۔(۱۸)سارے فساد کی جڑ دنیا میں مال و دولت کی محبت اور لالچ ہے جو اللہ ، رسول، آخرت، دین ، شریعت،قبر کے عذاب اور جہنم کی آگے سے بے پروا اور غافل بنائے ہوئے ہے۔یہاں تک تو یہ بتایا گیا کہ قریب ترین دوست اور رشتے دار ایک دوسرے کو پوچھیں گے نہیں۔ لیکن معاملہ یہیں پر نہیں رکے گا۔ آگے کی بات سورہ عبس کی آیات۳۳سے ۳۷ تک میں پڑھئے:آخر کار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آوازبلند ہوگی۔(۳۳)اُس روز آدمی اپنے بھائی سے(۳۴) اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے(۳۵)اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹے سے بھاگے گا۔(۳۶)اُن میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آ پڑ ے گا کہ اُسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا۔(۳۷)یہی وہ گھر والے اوررشتے دار ہیں جن کی دنیا بنانے اور سنوارنے کے لئے ہر آدمی اپنی آخرت کو برباد کرتا رہتا ہے۔

بدنصیب نے دنیا میں جن کے لئے اپنی دنیا اورآخرت تباہ و برباد کر لی وہی اُس مصیبت کے دن اُس کے دشمن بن جائیں گے۔یعنی بدنصیب نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔جو جنتوںمیں ہوں گے(۴۰)وہ مجرموں سے پوچھیں گے۔(۴۱) تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟(۴۲) وہ کہیں گے،ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے۔(۴۳) اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔(۴۴)اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے۔(۴۵) اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے۔(۴۶) یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آ گیا۔(۴۷)اس وقت سفارش کرنے والوں کی کوئی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔(المدثر:۴۰تا۴۸)سورۂ مدثر کی ان آیات میں بتایا جا رہا ہے کہ جب قیامت کا حساب و کتاب ختم ہو جائے گا ، جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو جنت والوںکو یہ سہولت میسر ہوگی کہ وہ جھانک کر جہنم والوں کو دیکھیں گے اورپھر اُن سے پوچھیں گے،تم جہنم میں کیسے چلے گئے ؟ تب وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیں گے کہ ہم نماز کی پابندی نہیں کرتے تھے اور دولت مند ہونے کی وجہ سے مفلس لوگوں کو نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے اور اُن کی غربت کاعلاج کرنا نہیں چاہتے تھے۔دوستوں میں بیٹھ کر بیکار کی باتوں میں گپ شپ کرتے ہوئے اپنا وقت برباد کرتے تھے اور آخرت پر ہمارا ایمان نہیں تھا۔لیکن آج سمجھ میں آ گیا کہ آخرت کی بات سچی تھی اور ہمیں اپنے گناہوں کی سزا آج مل گئی۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں، جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔(آیت۹) جو رزق ہم نے تم کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور اُس وقت وہ کہے کہ اے میرے رب کیوںنہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا۔(۱۰)حالانکہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آ جاتا ہے تو اللہ اُس کو ہرگز مزید مہلت نہیں دیتا،اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے باخبر ہے۔(المنافقون:۹تا۱۱)اس آیت میں دنیا داروں کواوپر کی باتوں کی روشنی میں پھر نصیحت کی جارہی ہے کہ سنبھل جاؤ اور اللہ کا دیا ہوا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو،ابھی وقت باقی ہے ۔ کل جب موت کا وقت آجائے گا تو تمہیں پچھتاوا ہوگا لیکن اُس وقت مال خرچ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS