فلسطین- اسرائیل تنازع کے سیاہ ابواب

0

1987t میں فلسطین کے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے استبداد کے خلاف پھوٹی پر تشدد بغاوت پر تشدد کئی سال تک چلتا رہا جس میں بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
1993t میں اس انتقاضہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسرائیل کو فلسطین اور پی ایل او کے ساتھ سمجھوتہ کرنا پڑا جس کو ہم اور سلولے سمجھوتے کے نام سے جانتے ہیں۔
2000t میں پھر اسرائیل کے سخت گیر وزیر اعظم ایریل شیرون کی طرف سے بیت المقدس کی بے حرمتی کے بعد فلسطینیوں نے زبردست ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس سبب سے پر تشدد وارداتیں 2005 تک چلتی رہیں۔
2006t میں انتخابات کے بعد غزہ میں حماس کامیاب ہوئی اور مغربی کنارے میں الفتح پارٹی اکثریت میں آئی اس طرح دو الگ الگ فلسطینی علاقوں میں دو الگ الگ اور باہم متضاد انتظامی اکائیاں بر سر اقتدار آئیں۔
2008t میں اسرائیل نے حماس کے زیر کنٹرول غزہ کو مسلسل تشدد اور بربریت کا نشانہ بنانے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کئی مرتبہ بمباری کی، اس مرتبہ کے حملے میں 1,110 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جب کہ 13 ؍ اسرائیلی بھی مارے گئے تھے۔
2012t اس سال کے حملے میں اسرائیل نے حماس کے قومی سربراہ احمد جباری کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے میں ایک ہفتہ تک کی کارروائی میں 150 فلسطینی مارے گئے تھے۔ جب کہ 6 اسرائیلیوں کی بھی موت ہو گئی تھی۔
2014t کے تنازع میں حماس کے جنگجوئوں نے تین نو عمر اسرائیلیوں کو مار دیا تھا جس کے جواب میں اسرائیل نے عزہ پر فوجی کارروائی کی تھی۔
2017t میں امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ نے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ امریکہ نے یروشلم کو راجدھانی کے طور پر تسلیم کرنے کے فیصلہ پر عمل کرنے کا اعلان کیا۔
2018t میں اسرائیل کی حرکتوں کے خلاف کارروائی کی اور احتجاج کیے، فلسطین غزہ کی ناکہ بندی کے خلاف احتجاج کرتے رہے۔ اس وقت اسرائیل نے کارروائی میں 170 مظاہرین کو مارا تھا۔
2021t رمضان کے دوران فلسطینیوں پر تشدد برپا کیا اور بیت المقدس کے نواح اندرون مسجد گھس کر مظالم کیے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS