وسیم احمد
جہیز ایک ایسی لعنت ہے جس کے خلاف بولتا توہر کس و ناکس ہے لیکن اس گھنائونے کام میں ملوث بھی تقریباً ہر شخص ہی ہے۔اس لعنت کا شکار بن کر کتنی بیٹیوں کی زندگیا ںتباہ و برباد ہوگئیں اور بے شمار بیٹیاں گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہی ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ جہیز کی اس لعنت کا سد باب کیسے ہو؟ اس لعنت کو ختم کرنے کے لئے جہاں لڑکے کی جانب سے پہل کرنے کی ضرورت ہے وہیں لڑکی اور اس کے گارجین کی جانب سے بھی موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔عموماًرشتہ ٹوٹنے کے خوف سے بیٹی والے بیٹے والوں کے مطالبات کو پورا کرتے جاتے ہیں اور اپنی کمائی کا خطیر حصہ جہیز کے نام پر داماد کو دے دیتے ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر شادی کے اس مبارک موقع پر دنیا کی رسم و رواج کو دیکھنے کے بجائے شریعت مطہرہ کی ہدایات کا ایک بار مطالعہ کرلیا جاتا جس میں لڑکے کو مہر ادا کرنے کا پابند بنایا گیا ہے اور لڑکی کو اپنے ساتھ جہیز لے کر جانے کا کوئی تصور نہیں ملتا۔آج سماج میں جو لوگ ببانگ دہل جہیز کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں وہ بھی عملی طور پر اسے مال غنیمت سمجھ کرجائز بنا لیتے ہیں ۔اس میں کیا دیندار اور کیا بے دین ،سب برابر ہیں الا ماشاء اللہ ۔ جب ہم سماج میں پائے جانے والی اس رسم کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کو باقی رکھنے میں نہ صرف لڑکا، بلکہ لڑکی کے گارجینوں کا بھی مساوی کردار ہے۔وہ بیٹی کو اپنی جائیداد میں سے وراثت دینے میں ناک بھنوں چڑھاتے ہیں جبکہ اسی جائیداد کو بیچ کر جہیز دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ کتنا جہیز دیا اور شادی کے مصرف میں کتنا خرچ کیا ، رشتہ داروں کو فخر کے ساتھ بتاتے ہیں۔لڑکی والوں کی یہی جھوٹی شان اس لعنت کو سماج سے ختم کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔اگر لڑکی والے یہ عہد کرلیں کہ وہ جائیداد میں شریعت کا مقرر کردہ حصہ اپنی بیٹیوں کو دیں گے اور جہیز نہیں دیں گے تو لالچی داماد بھی لڑکی والوں کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے۔بہت سے لوگوں سے یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ وہ وراثت کے بدلے جہیز دے چکے ہیں۔یاد رکھیں علماء کرام نے توضیح کردی ہے کہ اگر ماں باپ نے بیٹی کو جہیز دیا ہے تو اس سے وراثت کا حکمِ شرعی ہرگز ہرگز ختم نہیں ہوگا۔اگر ماں باپ یا بھائیوں نے جہیز کے عوض وراثت سے لڑکی کو محروم کر دیا تو یہ ظلم ہوگا اور قیامت کے دن اس کا پورا پورا حساب دینا ہوگا۔لہٰذا بیٹی کو جہیز نہیں، وراثت میں حصہ دیں اورسماج میں جھوٹی شان کی خاطر اپنی آخرت کو برباد نہ کریں۔
یاد رکھیں جہیز ایک غیر مذہبی رسم ہے جو ہمارے ملک کے رگ و ریشہ میں سما گئی ہے ۔ اس کا مذہب سے دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ ہندوستان کی قدیم روایات میں سے جو برائیاں ہندوستانی مسلمانوں میں داخل ہوئی ہیںان میں جہیز بھی ہے۔اس رسم کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دل سے لالچ کو نکالیں اور بیٹی کو جہیز نہیں ،وراثت میں حصہ دیں، ایسا کرکے ہی ہم معاشرے سے جہیزکی لعنت کوختم کرسکتے ہیں اورتبھی یہ لعنت ہمارے سماج سے دور ہوگی ۔
جہیز کی روک تھام کے لئے قانون موجود ہے مگر یاد رکھیں کہ قانون اپنا کام اسی وقت کرتا ہے جب سماج میں اس قانون کے تئیں بیداری ہواور اس قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کا عزم ہومگر افسوس کی بات یہ ہے کہ زبان سے تو سب جہیز کو برا کہتے ہیں مگر عملی طور پر اس کو بہت ہلکے میں لیتے ہیں ۔جب سماج میں یہ سوچ رائج ہو تو بیٹیوں کو اذیت پہنچانے اور قتل کرنے کی راہیں تو کھلیں گی ہی ، اور جہیز کے مطالبات پورے نہ ہونے پر یومیہ 19 بیٹیوں کی اموات( نیشنل کرائم کی رپورٹ کے مطابق )کو روکنا مشکل ترین امر بن جائے گا۔جہیز کی لعنت پر مسلم دانشوران، علماء کرام اور تنظیمیں مسلسل بیداری مہم چلا رہی ہیں مگر قوم بیدار ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔
سماج میں جہیز بیٹیوں کو ہدیہ یا تحفے کے طور پر نہیں بلکہ ناموری اور شہرت کی غرض سے دیا جاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کی خوب نمائش کی جاتی ہے اور گائوں ، سماج کو خاص طور پربرادری کے لوگوں کوبڑے فخر کے ساتھ دکھایا جاتاہے ۔ اس کے علاوہ بارات کی بھی خوب خاطر مدارات کی جاتی ہے اور پرتکلف کھانے کا اہتمام ہوتا ہے جو کہ سراسر اسراف میں داخل ہے۔ اس کا جو نقصان شرعی طورپر ہے وہ تو علماء کرام بیان کرتے ہی رہتے ہیں لیکن ایک بڑا نقصان ان غریب خاندان کو پہنچتا ہے جو اپنی بیٹی کو اتنے جہیز کے ساتھ رخصت نہیں کرسکتے اور حسرت بھری نظروں سے امیروں کے گھر سے بیٹیو ںکو رخصت ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔یاد رکھیں جہیز ایک غیر مذہبی رسم ہے جو ہمارے ملک کے رگ و ریشہ میں سما گئی ہے ۔ اس کا مذہب سے دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ہندوستان کی قدیم روایات میں سے جو برائیاں ہندوستانی مسلمانوں میں داخل ہوئی ہیںان میں جہیز بھی ہے۔اس رسم کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دل سے لالچ کو نکالیں اور بیٹی کو جہیز نہیں ،وراثت میں حصہ دیں، ایسا کرکے ہی ہم معاشرے سے جہیزکی لعنت کوختم کرسکتے ہیں اورتبھی یہ لعنت ہمارے سماج سے دور ہوگی ۔qq