موجودہ ہنگامہ خیز دوربباطن انقلاب آفریں ہے

0

عبدالسلام عاصم

قومی خدمت پر اقتدار کو ترجیح دینے والی حکومتیں عوام کے جذبات کو جس رخ پرانگیخت کرتی ہیں، اس کے اثرات زائل ہونے اور حقیقی مسائل کی طرف عوامی توجہ لوٹنے تک ان حکومتوں کو کسی آزمائش کا سامنا نہیں ہوتا۔ ماضی میں زمینداری ختم کرنے، بینکوں کو قومیانے، مہنگائی بھتے اور بے روزگاری بھتے کا کارڈ کھیلنے والی نام نہاد سیکولر حکومتوں نے کسی ٹھوس اور ترقی رُخی اقتصادی منصوبے کے بغیر مقبول اعلانات کی آڑ میں جب معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا تو مہنگائی نے بھی کسی بھتے کے کنٹرول میں آنے سے انکار کرنا شروع کردیا اور بے روزگاری نے جرائم کی راہیں اختیار کر لیں۔ انہی میں سے ایک راہ نکسلی سرگرمیوں کی بھی تھی۔
1977 میںحکومت مخالفوں نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار تو ہتھیا لیا لیکن عوام کی بڑھتی توقعات اور قومی وسائل کو موثر ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی محدود سے محدود تر ہوتی انتظامی صلاحیت نے انہیںبھی زیادہ دنوں تک اقتدار میں ٹکنے نہیں دیا۔ اس کے بعد آواگون کا سلسلہ شروع ہوا جس نے ایک سے زیادہ قومی خسارے کے ساتھ نئی الفی کی دہلیز تو پار کرلی لیکن نہ تو عوام کے اندر کوئی ایسی بیداری پیدا ہوئی جس کا حکومت سنجیدہ نو ٹس لیتی اور نہ روز گرتی روز سنبھلتی حکومتوں نے رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کی سیاست کی روز بروز مضبوط ہوتی گرفت کا اندازہ لگایا۔ 1992 سے2002 تک کے انتہائی تشویشناک واقعات سے نمٹنے کے انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے طریقوں نے ملک کی داخلی سیاست کو بدل کر رکھ دیا۔ اس کے بعد جذباتی سیاست کے ماہرین نے فرقہ وارانہ جذبات کا رخ انتہائی خطرناک طریقے سے تاریخ کے اُن ابواب کی طرف موڑاجو سنگین قسم کے مبینہ واقعات اور وارداتوں پر مشتمل ہیں۔ یہ سلسلہ پچھلی دہائی کے وسط سے کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ اس میں بھی بہ انداز دیگر وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو ہوتا آیا ہے۔معیشت کا بیڑہ اِس بار بھی غرقابی کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ بے روزگاری نے پھر جرائم کی راہ اختیار کر لی ہے ،لیکن اس بار تشدد کی شکل یساری نہیں یمینی ہے۔
اس پس منظر میںاس وقت ملک کی دوبڑی ملتیں جس از خود اختیار کردہ آزمائش سے گزر رہی ہیں وہ دونوں کیلئے یکساں طور پر خطرناک ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے اپنے الزامات منوانے پر تلی ہیں اور دونوں طرف کمیونٹی لیڈرشپ بیان بازی تک ذہانت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ایسا کیوںہے! اسے سمجھنے اور پھر سمجھانے کیلئے جس ضبط و تاب کی ضرورت ہے اُس کا بدقسمتی سے موجودہ معاشرے میں زبردست فقدان ہے۔ لوگوں کو یہ باور کرانا سخت مشکل ہے کہ الزامات اور عقیدے میں ایک مماثلت یہ ہے کہ دونوں اکثر گڑھے جاتے ہیں اور گڑھی ہوئی کہانیاں محبت کی ہوں یا نفرت کی دونوں سُننے والوں کے جذبات کو انگیخت کرتی ہیں بلکہ مطابقت والے رُخ پر آگے بڑھنے کی زبردست تحریک بھی دیتی ہیں۔ وطن عزیز میں ایک دور محبت کی کہانیوںکا بھی گزرا ہے جس میں صوفیوں اور سنتوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ زمانہ غیر مشروط محبت کا تھا لیکن نظریات سے نا آشنا نہیں تھا اور غیر مشروط محبت سے اختلاف کرنے والے اُس زمانے میں بھی موجود تھے۔ البتہ اُس وقت تک نظریاتی سخت گیری کاکوئی عمل دخل ایسا نہیں تھاجس میں پسند اور ناپسندکو حق و باطل کا درجہ دے کر انسانی رشتوں کے تقدس کو سر عام پامال کیا جاتا ہو۔ ’ثبات ایک تغیرکو ہے زمانے میں‘ کے مصداق رفتہ رفتہ اس ماحول کو بھی تبدیلی کی ہوا راس آنے لگی۔ اجتماعیت پر انفرادی پہچان کو ترجیح دینے والے مرحلہ وار قلعہ بند ہوتے گئے اور بالآخر ایک دن اُس تبدیلی کو راہ مل ہی گئی جس کا ہم آج بدترین نظارہ کر رہے ہیں۔
انسانی تہذیب اور علاقائی ثقافت کورنگ اور نسل، ذات اور مذہب سے جوڑ کر دیکھنے کا جذبہ رکھنے والوں کی فکری کم مائیگی کو دور کرنے میں ماضی میں نہ تو پرنٹنگ پریس کا انقلاب کامیاب ہو سکا نہ آج کا ڈیجیٹل انقلاب رجعت پسندوں سے نجات کی دوٹوک راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہے۔ ماضی گرفتہ اور ماضی گزیدہ حلقوں میںسب اپنے اپنے فرقے میں بیداری کے نام پر ’’نفرت‘‘ کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ بر صغیر میں کل جہاںدین کو ’شرک‘ سے بچانے کی تحریک تک زندگی کی دھڑکنیں محدود کر دی گئی تھیں وہیں آج دھرم کو ’نجاست‘ سے بچانے کی زور دار تحریکیں چلائی جا رہی ہیں۔ کہتے ہیں جس طرح ’محبت‘ دوحلقوں کی اجنبیت کو باہمی اشتراک سے ختم کر دیتی ہے ٹھیک اُسی طرح ’نفرت‘ فرقہ وارانہ محاذ پر اختلاف کرنے والوں کے درمیان کبھی کبھی پلک جھپکتے بات اتنی بگاڑدیتی ہے کہ سامنے بس تصادم کا راستہ رہ جاتا ہے۔ تاریخ میں بیشتر جنگوںکا پس منظر نفرت، نظریاتی تسلط، دوسرے کے فلسفہ حیات کو ماننے تک سے انکار سے ہی عبارت ہے۔ ایسی جنگوں میں پوری طرح حاوی ہو جانے والا حلقہ اپنی جیت کو ’’حق کی فتح‘‘ قرار دیتا ہے اور پھر مورخوں سے اُس مبینہ حق کی فتح کی داستان لکھواکر اسے تاریخ کا نام دے دیتا ہے۔
باوجودیکہ حالات کے ایسے موڑ پر بھی ایسے اہلِ فکر ونظر خاصی تعداد میں موجود ہوتے ہیںجو جامد اتفاق پر متحرک اختلاف کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ بہر حال علم کے ایسے تاجروں سے دوٹوک تصادم کا خطرہ مول لینے سے گریز کرتے ہیں جو جہل بھنانے تک ہی علم سے استفادہ کرتے ہیں۔ اُنہیں انجام کا پتہ ہوتا ہے اوروہ اچانک میدان میں کودکر ظالم کا ہاتھ پکڑنے اور مظلوم کیلئے ڈھال بن جانے کی حکایتوں پر ایکدم سے عمل کا انجام جانتے ہیں۔ اس لیے وہ افسوس ناک رُخ پر بدلے منظرنامے کے نقائص کو آئندہ مراحل میں بے نقاب کرنے کیلئے اختلافی نوٹ تیار کرنے میں لگ جاتے ہیں جس کا نوٹس لینے والی نسلیں بین مذاہب اور بین فرقہ غیر انسانی اختلافات سے خود کو الگ کرتے ہوئے بیزاری سے بیداری کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہیں۔
ایسی نسلیں جب کائناتی سوچ کے بیرونی تقاضوں اور رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کی پرائیویسی کو ایک دوسرے سے الگ کرنے اور اس کی تفہیم کی کشش عام کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو وہ انسانی وسائل کے مثبت اور بہتر استعمال میں مرحلہ وار آگے نکلنے لگتی ہیں۔ ہماری نئی نسل کو بس اس ادراک سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ دنیا اب نہ یک قطبی ہے نہ دو قطبی۔ ہم سب کیلئے اس دنیا میں آف لائن سرحدوں کی روایتی اہمیت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ دوسری طرف آن لائن گلوبلائز اور ڈیجیٹلائز دنیا کا دائرہ تیزی سے وسیع ہو رہا ہے۔ اب حربی زیادتیاں جوابی حربی کارروائی سے نہیں روکی جاتیں۔ تازہ مثال یوکرین میں جاری یکطرفہ جنگ کی ہے۔ مغرب نے اس جنگ میں ایک بھی آتشیں کارروائی کیے بغیر روس کی معیشت کو ڈیڑھ دو مہینے میں بدحال کر دیا ہے۔ اس جنگ کے آغاز میں چین کا جو موقف تھا اُس میں اعتدال دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئی ٹی انقلاب کے نتیجے میں دنیا اب ایک عظیم آئینہ خانے میں بدل کر رہ گئی ہے۔
انقلاب کی کسی دستک کو فرضی اور من گھڑت کہانیوں کا سہارا لے کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے بھی برصغیر کی تاریخ اتنی قدیم نہیں کہ اس کی درستگی کے نام پر کچھ گڑھے ہوئے واقعات کی جگہ نئی باتیں گڑھ کر پورے ایک عہد کی سوچ بدل دی جائے۔ موجودہ پریشان حال عہدباطنی طور پر انقلاب آفریں ہے۔ کسمساتی ہوئی نئی نسل کو اب زیادہ دنوں تک ایسی فکر اپنانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو سوچ کے بجائے عقائد اور آستھا کی ترجمانی کرتی ہو۔ ویجیٹیرین سے ویگن بننے والی نئی نسل کو نہ اب حلال و حرام میں الجھا کر کوئی اپنا اُلّو سیدھا کر سکتا ہے نہ ہی کوئی ویج/ نان ویج ڈرامہ اب اور سلور یا گولڈن جوبلی سال منا سکتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ اکثریت اور اقلیت دونوں میں کمیونٹی سیاست کرنے والے ان تبدیلیوں کا نوٹس لیں۔ اگر وہ واقعی انسانی وسائل کے بہتر اور ترقی رخی استعمال کیلئے بین فرقہ ہم آہنگی کو ضروری سمجھتے ہیں تو پہلی فرصت میں اُنہیں رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کے محدود مفادات کی سیاست کے خول سے باہر آ جانا چاہیے۔ موجودہ خرابیاں زیادہ سے زیادہ دو تین دہائیوں کے اندر دم توڑنے جا رہی ہیں۔ انسانی رشتوں کے سفر کے اگلے کسی بھی موڑ پر موجودہ نسل سے نئی نسل کو منتقل ہونے والی قیادت اُس پورے منظر نامے کو جاگتی آنکھوں کا حصہ بنا دے گی جو بیزاری سے بیداری کی طرف بڑھتی نئی نسل کے ذہن کا بھر پور حصہ بن چکا ہے۔بے شک امید پہ دنیا قائم ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS