یوگیندر یادو
انڈیا ٹوڈے کا تازہ ترین پبلک اوپینین سروے آیا ہے جس میں نریندر مودی حکومت اور اپوزیشن کے لیے تین پیغام معیشت، معیشت، معیشت ہیں۔ یہ تنبیہ امرت کال سے زیادہ بلند آہنگ ہے ۔ اپوزیشن اور حکمراں دونوں کے لیے یہ ایک موقع بھی ہے اور ایک ذمہ داری بھی ہے۔
لیکن ہر آدمی اس کو اسی طرح سمجھے ایسا نہیں ہے ہم الیکشن کی پیشین گوئی معلوم کرنے کے لیے اوپینین سروے پڑھتے ہیں ، کیونکہ میں ایک الیکشن تجزیہ کار رہا ہوں میرے لیے یہ تکلیف دہ بات ہے۔ دو انتخابات کے دوران سیٹوں کے بارے میں کوئی راے ظاہر کرنا اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہیے۔ اصل تجزیہ یہ ہوتا ہے کہ اس دور میں عوامی رجحان کیا ہے؟
لہٰذا ریکارڈ میں آنے کے لیے انڈیا ٹوڈے کا موجودہ موڈ آف دی نیشنل سروے (ایم او ٹی این ایس) عوام کے مزاج اور رجحان کو نانپنے کا ایک اہم پیمانہ ہوتا ہے۔ اس پروجیکٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر 15 جولائی سے لے کر 31 جولائی کے درمیان الیکشن ہو جاتے ہیں تو بی جے پی 283 سیٹ حاصل کرے گی۔ (خیال رہے کہ 2019 کے الیکشن میں بی جے پی کو 303 سیٹیں ملیں تھیں یہ اس سے تھوڑا کم ہے۔) اور این ڈی اے کو 307 سیٹیں ملیں گی۔( جو 2019 کے این ڈی اے کی کارکردگی یعنی 353 سے بہت کم ہے)
مجھے اس سروے کے طریقہ کار پر اعتراض ہے: مگر اس کے علاوہ بھی اس ترجیح پر غور کرنے کے لیے بہت سے نکات ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ یہ تجزیہ یا سروے انتخابات سے 20 ماہ پہلے ہو رہا ہے لہذا ہم اس کو سنجیدگی سے نہیں لے سکتے۔ دوسری بات یہ کہ یہ سروے اس وقت سامنے آیا تھا جب بہار کا موجوہ سیاسی الٹ پھیر نہیں ہوا تھا۔ حالانکہ تجزیہ نگاروں نے بہت کوشش کی کہ وہ اس سروے میں اس معاملہ پر بھی رائے لے لیں جس کے تحت یہ پوچھا گیا تھا کہ اگر جلدی الیکشن کرا دیے جاتے ہیں تو اس کا کیا ہو گا؟ ایسی صورت میں بی جے پی کے لیے 8 سیٹوں پر نقصان بتایا گیا ہے اور این ڈی اے کے لیے نقصان کا اندازہ 21 سیٹیں بتایا گیا ہے۔ یعنی اگر نتیش کمار دوسرے خیمہ میں آ جاتے ہیں تو کیا صورت حال بنے گی؟
مجھے اس سروے کو لے کر ایک اور پریشانی ہے: ایم او ٹی این ایس سروے کی شروعات جنوری سے ہوئی تھی اور اس ادارے نے لوگوں سے آمنے سامنے انٹرویو ایا بات چیت کرنے کا رجحان چھوڑ دیا تھا۔ گزشتہ 6 دہائیوں سے سرورے کرنے والے لوگ اسی طریقہ کو آزماتے رہے ہیں یہ اب وقت کی کسوٹی پر اترنے والا طریقہ کار تھا اور کئی معتبر ادارے جیسے سینٹر فار اسٹڈی اینڈ ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) اسے اختیار کرتے رہے ہیں۔
جب کہ سی ووٹر کا طریقہ کار ایم او این ٹی ایس سروے سے آگے نکل گیا ہے۔ یہ لوگ ٹیلی فون پر لوگوں سے انٹرویو کرتے ہیں۔ اب یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ٹیلی فون پر معلوم ہونے والے سروے سستے پڑتے ہیں اور پوری دنیا میں اس طرح کے سروے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہندوستان میں بھی موبائل ٹیلیفون رکھنے والوں کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے لیکن ہم اس طریقہ کار پر مبنی سروے کو آفاقی نہیں کہہ سکتے۔ چاہے ٹیلی فون کی ٹکنالوجی کتنی بھی ترقی یافتہ اور اعدادو شمار کے معاملہ میں بہتر ہو مگر ٹیلی فون سروے میں سماج کا سب سے نچلا طبقہ نظرانداز ہو ہی جاتا ہے لہٰذا اس کا نتیجہ جگ ظاہر ہے۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ انڈیا ٹوڈے سروے نے جو کہ ایک زمانے میں رائے شماری کرانے میں صف اول کے دائروں میں شامل تھا اس دفعہ شفافیت کے معاملہ میں اس نے بخل سے کام لیا اور سروے میں استعمال ہونے والا طریقہ کار پوشیدہ رکھا اور اس کو خفیہ زبان کے ذریعہ دبا کر رکھا۔ (سروے میں کہا گیا کہ یہ سروے کیٹی (CATI) یعنی کمپیوٹر اسسٹیڈ ٹیلیفونک انٹرویوز ۔ کیا آپ کو اس بات کا احساس ہوا کہ ایم او ٹی این ایس نے رائے شماری کے لیے لوگوں کے گھر جانا بند کر دیا ہے۔ ) ہم کو یہ نہیں معلوم کہ جن لوگوں سے بات چیت کی گئی ہے وہ مرد ہیں یا عورت، ان کی کون سی ذات ہے، ان کا سماجی رجحان کیا ہے، اس سروے میں صرف ان لوگوں سے بات کی گئی ہے جن لوگوں نے ٹیلی فون سے بات کرنے میں دلچسپی دکھائی۔ نہ ہی اس سروے میں یہ دکھایا گیا ہے کہ جن لوگوں سے بات چیت کی گئی ہے ان کا تعلق کن زمروں سے ہے۔ حالاں کہ ہم کو اس بات کا معلوم ہونا وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ (کیونکہ اقتصادی بحران کو نانپتے وقت ہم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جس سے بات ہو رہی ہے اس کی اقتصادی حیثیت کیا ہے یا وہ مرد ہے یا عورت اور فرقہ وارانہ ماحول کا جائزہ لینے کے لیے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ سوال کا جواب دینے والے کا تعلق کس فرقہ سے ہے۔ )
یہ معاملہ معیشت کا ہے: اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مذکورہ بالا خامیوں کے باوجود یہ سروے ہم کو بہت ساری اطلاعات فراہم کرتا ہے۔ خاص طور سے مجموعی طور پر عوامی رائے کیا ہے اس کا پتہ چلتا ہے۔ اس کی ہیڈ لائن معیشت پر مبنی ہے جو صحیح ہے۔ جو تین اہم سوال پوچھے گئے ہیں وہ یہ ہیں ’’وہ کون سی مشکل ہے جس کا سامنا ہندوستان اس وقت کر رہا ہے جس میں 27 فیصد نے جواب دیا اشیاء کی بڑھتی قیمتیں جب کہ دوسرے نمبر پر آنے والی پریشانی بے روزگاری بتائی گئی ہے۔ 25 فیصد لوگو ں نے بے روزگاری کو بڑا مسئلہ بتایا ہے۔ جب کہ صرف 7 فیصد لوگوں نے بتایا کہ غربت سب سے بڑا مسئلہ ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام کے ذہن میں تین سب سے بڑے مسائل اقتصادی ہیں ، اس کی وجہ بھی ہے اگر آپ معیشت پر سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار کا جائزہ لیں گے تو بڑھتی قیمتیں اول نمبر ہے۔ یہ بات اس وقت بھی کہی جاتی ہے کہ افراط زر کی شرح کم ہوتی ہے۔ اگر چہ اب افراط زر کی شرح بہت اعلیٰ اور غیر معمولی ہے۔ بے روزگاری کے معاملے میں صورت حال بہت افسوسناک ہے۔ اس بات پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ بے روزگاری کی شرح 56 فیصد ہے۔ میرے خیال میں بے روزگاری بہت سنگین معاملہ ہے۔ صرف نو فیصد افراد ہی کہتے ہیں کہ یہ کوئی سنگین معاملہ نہیں ہے۔
اس کے باوجود کچھ لوگ اپنے موجودہ نظریات کو مستقبل کے اندیشوں سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ کئی دہائیوں کے سرووں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہندوستان کے لوگ مستقبل کے بارے میں ہمیشہ پر امید رہتے تھے چاہے حالات کتنے بھی خراب ہوں۔ مجھے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ 34 فیصد لوگوں کی رائے یہ تھی کہ آئندہ 6 مہینوں میں معیشت کی حالت اور خراب ہونے والی ہے جب کہ صرف 31 فیصد کی راے یہ تھی کہ مستقبل میں حالات بہتر ہوں گے۔ یہ صورت حال گزشتہ 6 ماہ کی صورت حال سے بالکل متضاد ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ معیشت کے بارے میں مایوسی اتنی رہی ہو۔ صرف یہ صورت حال کووڈ کے دوسرے دور میں پیش آئی تھی۔
میرا یہ خیال ہے کہ سروے میں اپنی رائے دینے والے لوگ اپنی گھریلو یا ذاتی صورت حال پر منحصر ہو کر رائے دیتے ہیں نہ کہ ملک کی معیشت کو مد نظر رکھتے ہوئے۔ آپ لوگوں کو صورت حال کو بہتر بنا کر یا خراب بنا کر پیش کر کے بیوقوف بنا سکتے مگر ان کی خود کی معیشت کے بارے میں آپ گمراہ نہیں کر سکتے ہیں۔ انڈیا ٹوڈے گزشتہ 6 سال سے براہ راست یہ سوال کر رہا ہے کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ ’’ 2014 سے نریندر مودی بر سر اقتدار آئے ہیں تو آپ کی حالت بدلی ہے؟ ‘‘خیال رہے کہ ان سوالات میں مودی کا نام لیا جاتا ہے کیونکہ وہ لگاتار مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں لہذا سروے کو مثبت رخ دینے کے لیے اس طرح سوال پوچھا جاتا ہے۔ 36 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی حالت خراب ہوئی ہے جب کہ 28 فیصد جواب دینے والوں نے کہا ہے کہ 2014 کے بعد سے ان کی حالت بہتر ہوئی ہے۔ یہی بات مستقبل کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو امید ہے کہ مستقبل میں حالات اور خراب ہوں گے بہت کم لوگوںکو بہتری کی امید ہے۔ یہ اعداو شمار بہت بھیانک ہیں۔ اتنے خراب ہیں کہ وہ موجودہ سرکار کو بے دخل کر سکتے ہیں۔
معیشت سے سیاست کی طرف : اپنی اقتصادی صورت حال کے لیے سرکار کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ نہیں اس بات سے قطع نظر یہاں پر بھی مودی سرکار کے لیے صورت حال اچھی نہیں ہے۔ سرکار کے لیے مثبت ریٹنگ 48 فیصد ہے یہ گزشتہ 6 سال میں سب سے نچلی سطح پر ہے۔ منفی تجزیہ کرنے والوں کی شرح 29 فیصد ہو گئی ہے جو اب تک کی سب سے زیادہ ہے۔ جب این ڈی اے سرکار کی بدترین ناکامیوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو معیشت سے متعلق 3 ایشوز کی بات ہوتی ہے۔ قیمتوںمیں اضافہ، بے روزگاری اور اقتصادی ترقی۔ حالاں کہ یہ بات پکے طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ اقتصادی پالیسی پر منفی رجحان نے مثبت رجحانوں پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ مگر مجموعی طور پر سرکار کے بارے میں رحجان ابھی بھی کافی مثبت ہے۔ خاص طور پر سرکار کو عوام سے مسئلہ کشمیر، رام مندر، کرپشن اور حیرت انگیز طور پر کووڈ کے معاملے میں مگر کیوں کہ افراط زر میں اضافہ اور بے روزگاری میں بہتری کے امکانات نہیں ہیں لہذا سرکار کو کافی فکر کرنی پڑے گی۔
کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مودی سرکار کے زوال کی شروعات ہو چکی ہے ؟ مگر میرے خیال میں یہ جلد بازی میں کہی جانے والی بات ہو گی اور یہ کوئی اچھا نتیجہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم کی ذاتی مقبولیت ابھی بھی کافی بلندی پر ہے جب کہ جو ان کے کام سے خوش نہیں ہیں اور ان کی کارکردگیوں کو خراب اور کچھ بے حد خراب بتاتے ہیں ، ان کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے۔کیوں کہ اپوزیشن کے کوئی بھی لیڈر ان کی مقبولیت کی سطح پر قریب بھی نہیں آتا مگر جمہوری اقدار کے معاملے میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں نہیں ہے ان کی تعداد متضاد رائے رکھنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ ایسا کوئی عوامی تاثر یا ناراضگی نہیں ہے کہ جس سے یہ لگے کہ جمہوری اداروں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے یا اظہار خیال کی آزادی پر روک لگی ہے۔ ہندوستانیوں کو ابھی خوش گمانیوں اور اشکال کے بارے میں جمہوری اقدار پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اس کالم میں گزشتہ ہفتہ اس بات پر غور ہوا تھا کہ کیا حکمراں پارٹی کے لیے 2024 کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ مگر اس معاملے میں اس قسم کی شیخ چلیوں والی باتیں اور میڈیا کی اچھل کود محض وہ دماغی کھیل ہے جو بی جے پی کھیلتی ہے اور نہ ہی ہمیں یہ سوچ لینا چاہیے کہ بی جے پی ہارنے جا رہی ہے۔ بہار میں جو اتھل پتھل مچی ہے اس میں انتخابی بنیاد کو بدل دیا ہے۔ اس سروے میں جس اقتصادی بحران کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی مقابلہ جاری ہے اب یہ ذمہ داری اپوزیشن کی ہے کہ وہ کس طرح اپنی ذمہ داری نبھاتی ہے۔
یوگیندر یادو جے کسان آندولن اور سوراج انڈیا کے بنیاد گزاروں میں سے ہیں، آرٹیکل میں جو خیالات ظاہر کیے گئے ہیں وہ ان کے ذاتی ہیں۔
ملک کی معیشت ہی سب سے اہم مسئلہ ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS