بدل رہا ہے دیش، ناری شکتی کا سندیش

0

دہلی سے ایک بڑی تبدیلی کی خبر ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ یہ خبر سیاسی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا سیاست سے دور دور تک کوئی لینا دینا بھی نہیں ہے۔ ملک کی بھلائی کی خاطر ہر شہری کو دعا کرنی چاہیے کہ آگے چل کر بھی اس کا سیاست سے کوئی کنکشن نہ جڑنے پائے۔ دراصل دہلی میں اب 6اضلاع کی سیکورٹی کی ذمہ داری خاتون ڈپٹی کمشنر آف پولیس یعنی خاتون ڈی سی پی کو دے دی گئی ہے۔ 15پولیس اضلاع والی جس دہلی کو خواتین کے لیے ’غیرمحفوظ‘ بتایا جاتا ہے، وہاں کے 40فیصد حصہ کی کمان سپر لیڈی کاپس کو ملنا یقینا خواتین کو بااختیار بنانے کی ایک بڑی مثال ہے۔ ملک کی راجدھانی میں گزشتہ ایک ماہ میں 9خاتون ایس ایچ او کی تعیناتی بھی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ’تیجسونی‘ اسکیم کے تحت دہلی کے شمال مغربی ضلع میں 46خاتون پولیس اہلکار بھی بیٹ افسر کے طور پر کام کررہی ہیں۔
یہ تمام اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک کی خواتین نے کس طرح اس مفروضہ کو توڑ دیا ہے کہ پولسنگ صرف مردوں کے دبدبہ والا پیشہ ہے۔ اب تک خواتین کے لیے تو پولیس میں نوکری پانا ہی مشکل ہوتا تھا۔ جو خواتین اپنے جذبہ اور جنون کے دم پر اس ’لکشمن ریکھا‘ کو پار کرجاتی تھیں، انہیں خواتین اور بچوں کو حساس بنانے اور خواتین پر ہونے والے جرائم سے نمٹنے کی ذمہ داری دے دی جاتی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے جب خواتین کو ڈکیتی، لوٹ، پاکٹ ماری، جھپٹ ماری اور منظم جرائم کی روک تھام سمیت سڑکوں پر گشت لگانے جیسے اہم کام سونپے جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے کام ہیں جن پر ابھی تک مردوں کی ہی اجارہ داری تھی اور خواتین پر اس کے لیے ’ضرورت کے مطابق مضبوط نہیں‘ ہونے کا لیبل چپکا دیا جاتا تھا۔ لیکن دہلی پولیس کمشنر راکیش استھانا نے راجدھانی کے 6پولیس اضلاع میں خاتون ڈی سی پی کی تعیناتی کرکے ہر شعبہ میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شراکت داری کو یقینی بنانے کے وزیراعظم کے وژن کو زمین پر حقیقی طور پر اُتارنے کی بڑی پہل کی ہے۔
اس تبدیلی کے بعد اب دہلی پولیس میں خواتین کی تعداد 16فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یقینا یہ ایک تہائی کے طے ہدف سے ابھی بھی کم ہے، لیکن ملک کی باقی ریاستوں کی ہی طرح حالیہ برسوں میں اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2014 میں پورے ملک میں خاتون پولیس اہلکاروں کی تعداد 1.5لاکھ کے قریب تھی، جو اب تقریباً دوگنے اضافہ کے ساتھ 2.15لاکھ کو پار کرگئی ہے۔ گزشتہ سات سال میں سینٹر آرمڈ پولیس فورسز میں بھی خواتین کی شراکت داری میں اسی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔
بات صرف تعداد کی نہیں ہے۔ کسی ایک شعبہ کی حصولیابی کی بھی نہیں ہے۔ اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ آج ملک کی بیٹیاں اور خواتین پوری طاقت اور جوش کے ساتھ مشکل سے مشکل فرائض کو بھی کامیابی کے ساتھ انجام دے رہی ہیں۔ حال ہی میں ’من کی بات‘ پروگرام میں وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اس تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری یہ پولیس اہلکار ملک کی لاکھوں بیٹیوں کے رول ماڈل کا کام کررہی ہیں۔ خواتین سیکورٹی گارڈس کی موجودگی فطری طور پر لوگوں میں خاص کر خواتین میں خوداعتمادی کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔
وزیراعظم کے الفاظ میں کہیں، تو ہندوستان اب ’خواتین کی ترقی‘سے ’خواتین کی قیادت میں ترقی‘ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہ ایسی تبدیلی ہے جس نے خواتین کو بااختیار بنانے کی تعریف میں صنفی مساوات اور صنفی انصاف کے دائرہ کو نئی وسعت دی ہے۔ اب اس میں خواتین کے لیے نوکریوں، کاروبار کو فروغ دینے، سیکورٹی اور ترقی میں مساوی مواقع کا حق بھی شامل ہوگیا ہے۔
اس لحاظ سے مودی حکومت نے حقیقت میں خواتین کو خودکفیل بنانے والے ایسے نظریہ کا مظاہرہ کیا ہے جو جرأت مندانہ عمل ہونے کے ساتھ میچیور نظر آتا ہے اور جدیدیت کی ضرورتوں کو بھی پورا کرتا ہے۔ اس تصوراتی خیال کو تعبیر ملتی ہے حکومت کے نافذ کیے گئے اصول و ضوابط اور اس کے چلائے گئے پروگراموں میں جہاں خواتین کو تحفظ کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ ان کی طاقت میں اضافہ کی کوشش نظر آتی ہے۔
وزیراعظم اجّولا یوجنا، بیت الخلا، ہاؤسنگ اسکیمیں صرف غریبوں کے لیے روزمرہ کے چیلنجز سے راحت کی ہی نہیں، بلکہ ان کنبوں کی خواتین کو بھی باعزت گزربسر کے مواقع مہیا کررہی ہیں۔ اسی طرح وزیراعظم مدرا یوجنا، سوندھی یوجنا کے زیادہ تر فائدہ اٹھانے والے معاشرہ کے حاشیہ کے طبقوں سے متعلق خواتین ہی ہیں جنہیں ان اسکیموں کی مدد سے معاش اور سیلف امپلائڈ کے ایسے ذرائع تک رسائی حاصل ہوئی ہے جو صرف ان کے ہی نہیں، پورے کنبہ کے مفادات کی کفالت کررہے ہیں۔
اسی طرز پر ملک میں گزشتہ چھ سات سال میں سیلف ہیلپ گروپس کی تعداد بھی تین گنا سے زیادہ بڑھی ہے یعنی ان کے ذریعہ تین گنا سے زیادہ خواتین کی معاشی آزادی کی نئی راہ بھی کھلی ہے۔
اندازہ ہے کہ آج پورے ملک میں 70لاکھ سے زیادہ سیلف ہیلپ گروپ کے ذریعہ سے 8کروڑ سے زیادہ خواتین زمینی تبدیلی کی ایک بڑی مہم کو سر کرنے میں تعاون کررہی ہیں۔اتنا ہی نہیں، دیہی خواتین کو اسکل ڈیولپمنٹ، روزگار، ڈیجیٹل خواندگی، صحت اور غذائیت کے مواقع کے ساتھ مضبوط بنانے کے لیے مہیلا شکتی کیندربھی شروع کیے گئے ہیں۔ گزشتہ چار سال سے ملک کے 115سے بھی زیادہ پسماندہ اضلاع میں یہ سینٹر طلبا رضاکاروں کے ذریعہ کمیونٹیز کو جوڑنے کا کام کررہے ہیں۔خواتین کو مضبوط بنانے کی ایک بڑی شکل جن-دھن یوجنا میں بھی نظر آتی ہے۔ ملک کی خواتین روایتی طور پر اور متبادل کی کمی کے سبب بھی، رسوئی کے ڈبوں میں اپنے پیسے رکھا کرتی تھیں، لیکن جن-دھن یوجنا نے اس بچت کے لیے رسوئی سے بینک تک کا مضبوط اور محفوظ پل بنانے کا کام کیا۔ آج ملک میں 42کروڑ سے زیادہ جن-دھن بینک کھاتے ہیں اور ان میں سے 55فیصد خواتین کے نام پر ہیں۔خواتین اور لڑکیوں کو مضبوط بنانے کے لیے مودی حکومت کی ان رہنما شروعات کی کوئی بھی فہرست ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ کی بات کیے بغیر پوری نہیں ہوسکتی۔ سال2015میں 100اضلاع میں پائلٹ اسکیم کے طور پر شروعات کے بعد اب اس کی توسیع 640اضلاع تک ہوچکی ہے اور اس کا اثر پورے ملک میں نظر آرہا ہے۔ ہریانہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے جہاں کے پانی پت اور یمنا نگر جیسے اضلاع میں صرف 6سال میں جنسی تناسب 1000مردوں پر 871سے بڑھ کر 945تک پہنچ گیا ہے۔ بات پھر محض تعداد کی نہیں، اہم ہے بچیوں کے تئیں ذہنیت میں آئی تبدیلی۔اس تبدیلی کی بنیاد میں صرف خواتین دوست پروگرام ہی نہیں ہے، بلکہ مودی حکومت کے نافذ کیے گئے اصلاحاتی قانون بھی ہیں۔
1971کے میڈیکل ٹرمینیشن پریگنینسی ایکٹ میں ترمیم ہو یا خواتین کو ان کے جسم پر تولیدی حقوق کا مسئلہ یا پھر جنین کے حمل کی مدت کو 20سے بڑھا کر 24ہفتہ کرنا، یا خواتین کی شادی کی عمر میں اضافہ پر چرچہ شروع کروانا، تین طلاق کے غیرانسانی رواج کا قانوناً خاتمہ کرنا، سرحدی اور ساحلی علاقوں میں جرائم کی روک تھام کے لیے این سی سی میں زیادہ خواتین کی بھرتی کرنا یہ سب اس فخریہ عمل کے اہم مراحل ہیں جنہوں نے خواتین کی برابری اور وقار کی جنگ کو نئی طاقت دی ہے۔اس لیے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ملک میں آئی اس تبدیلی اور اس کے سرخیل بنے وزیراعظم نریندر مودی کی آج پوری دنیا میں چرچہ ہوتی ہے۔ حال ہی میں گلاسگو میں اقوام متحدہ کی کوپ-26کانفرنس کا ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے جس میں اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ ہمارے وزیراعظم کو ان کی مقبولیت کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں اسرائیل آنے اور اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دیتے نظر آئے ہیں۔ یہ بہت فطری ہے کیوں کہ جب تبدیلی کا پیمانہ بڑا ہو تو اس کے اثر کا دائرہ بھی اتنا ہی وسیع ہوتا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS