پولیس انکاؤنٹر اور قوانین

0

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

ہمارے ملک میں پولیس انکاونٹر میں عام شہریوں کی ہلاکت کے واقعات معمول کا حصہ ہوگئے ہیں۔ پولیس انکاؤنٹر اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر ہمارے ملک کے قوانین نیز عدالتوں کا نظریہ ہم تمام شہریوں کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ سابق چیف جسٹس آف انڈیا آرایم لوڑھا نے 23ستمبر 2014 کو پولیس انکاؤنٹرکے معاملہ میں پی یو سی ایل کا فیصلہ سناتے ہوئے دستوری حقوق کے تحفظ کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کیا تھا۔ ملک کی سب سے اعلیٰ عدالتی بنچ فروری 1999کی تین قانونی درخواستوں پر پندرہ برسوں کے طویل عرصے کے بعد کسی فیصلے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ پی یو سی ایل کی یہ پٹیشن 1995سے1997کے درمیان مہاراشٹر میں99پولیس مڈبھیڑ میں مارے گئے تقریباً135افراد کی اموات سے متعلق تھی۔اس فیصلے کی روشنی میں پولیس کو جب بھی کسی کریمنل کی آمدورفت یا سرگرمیوں کی کوئی خفیہ اطلاع ملے وہ اس کوکسی بھی عملی پیش قدمی سے قبل تحریری یا الیکٹرانک شکل میں(کیس ڈائری یا) جہاں ممکن ہو تحریر کرے، مکمل تفصیلات تحریر کرناضروری نہیں ہے۔ اس خفیہ اطلاع پر پیش رفت کے نتیجے میں اگر انکاؤنٹر واقع ہوتا ہے جس میں پولیس کی جانب سے ہتھیار کا استعمال ہوتا ہے جس کے بعدکسی کی بھی موت واقع ہوتی ہے تو حادثہ کی ایف آئی آر درج کی جائے گی، نیز ایف آئی آر کی کاپی سی آر پی سی کی دفعہ157کے تحت متعلقہ عدالت کو بھیجی جائے گی، جس کے بعد دفعہ158کے تحت کارروائی آگے بڑھائی جائے گی۔ انکاؤنٹر/حادثہ کی جانچ سی آئی ڈی یا کسی دیگر تھانے کی پولیس کے ذریعے کسی سینئر آفیسر کی رہنمائی میں ہوگی۔ حادثہ سے متعلق تمام ہی ثبوتوں کو احتیاط سے یکجا کیا جائے گا، مثلاً مقتول و جائے حادثہ کی رنگین تصویریں، خون، بال اور فنگرپرنٹس وغیرہ کے نشانات،گواہوں کے مکمل نام،پتے اور فون نمبر وغیرہ کے ساتھ دفعہ161میں پولیس کے سامنے دیے گئے عوامی و پولیس گواہوں کے بیانات، مکمل تفصیلات۔ پوسٹ مارٹم ضلع اسپتال میں ہوگا جوکم از کم دو ڈاکٹر کریں گے، جن میں ایک ضلع اسپتال کا ہیڈ/انچارج ڈاکٹر ہونا چاہیے، پوسٹ مارٹم کی ویڈیو گرافی کی جائے گی، موت کی وجہ درج کرنی ہوگی۔ کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ176کے تحت ہر انکاؤنٹر کی جس میں پولیس کے ذریعہ موت واقع ہوئی ہو، مجسٹریٹ جانچ کی جائے گی، جس کی رپورٹ متعلقہ جوڈیشیل مجسٹریٹ کو مذکورہ کوڈ(سی آر پی سی) کی دفعہ190کے تحت ارسال کی جائے گی۔ نیشنل کمیشن برائے حقوق انسانی(این ایچ آرسی)کی مداخلت ضروری نہیں جب تک کہ انکوائری کے آزادانہ و منصفانہ کردار پر تشویشناک شبہات موجود نہ ہوں، تاہم حادثہ کی فوری معلومات نیشنل یا صوبائی کمیشن برائے حقوق انسانی کو ارسال کرنا ضروری ہوں گی۔ زخمی کریمنل/وکٹم کو فوری طبی امداد فراہم کی جائے گی، اس کا بیان مجسٹریٹ یا میڈیکل آفیسر درج کرے گا، جس کے ساتھ متعلقہ وکٹم کا فٹنس سرٹیفکیٹ کہ وہ بیان دینے کی حالت میں تھا، منسلک کیا جائے گا۔حادثہ سے متعلق ایف آئی آر، ڈائری اندراج، پنچ نامے، اسکیچ وغیرہ کو بغیرکسی تاخیرکے متعلقہ عدالت تک پہنچانا یقینی بنایا جائے گا۔ حادثہ کی مکمل جانچ کے بعد سی آر پی سی کی دفعہ173کے تحت مکمل رپورٹ متعلقہ بااختیار عدالت میں پیش کی جائے گی،جس کے بعد موزوں مدت کے درمیان ٹرائل مکمل کیا جائے گا۔ موت واقع ہونے کی صورت میں کریمنل/وکٹم کے قریبی رشتہ دار کو جلد از جلد باخبر کیا جائے گا۔ ایسے تمام ہی انکاؤنٹر جن میں موت واقع ہوئی ہو، کی تمام ڈی جی پی ہر چھ ماہ پراین ایچ آر سی کو رپورٹ ارسال کریں گے، جو جنوری و جولائی کی15تاریخ تک ارسال کی جائیں گی، جس میں ہر موت کی تفصیلات(فراہم شدہ فارمیٹ میں)، نیز پوسٹ مارٹم وغیرہ کے کاغذات ساتھ بھیجی جائیں گی۔ اگر جانچ رپورٹ، مواد و ثبوتوں کی بنیاد پر یہ ثابت ہوگا کہ پولیس کے ذریعے ہتھیار کا استعمال انڈین پینل کوڈ کی دفعات کے تحت کسی بھی جرم کے دائرے میں شمار ہوتا ہے تو متعلقہ پولیس والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی نیزاس دوران ان کو معطل(سسپینڈ) کردیا جائے گا۔ پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے شخص پر منحصرافراد کو معاوضہ فراہم کیا جائے گا، جو کہ سی آر پی سی کی دفعہ357A کے تحت مجوزہ اسکیم کی روشنی میں ہوگا۔ متعلقہ پولیس آفیسروں کو اپنے ہتھیار فورنسک و بیلسٹک جانچ کے لیے تفتیشی ٹیم کو پیش کرنے ہوں گے، جس کا نفاذ دستور ہند کے آرٹیکل20کے تحت ہوگا۔ مذکورہ واقعہ کی اطلاع پولیس آفیسروں کی فیملی کو بھی دی جائے گی تاکہ اگر فیملی کسی وکیل کی خدمات/ کونسلنگ حاصل کرنا چاہے تو ان کو موقع دیا جائے گا۔ واقعہ کے فوراً بعد ہی متعلقہ پولیس افسران کو کسی بھی قسم کی غیر رسمی ترقی یا بہادری کا ایوارڈ/انعام نہیں دیا جائے گا۔ہر قیمت پر اس امر کو پہلے یقینی بنایا جائے گا کہ بہادری کے لیے جو انعام واکرام دیا جارہا ہے یا جس کی سفارش کی جارہی ہے وہ ہر طرح کے شکوک و شبہات سے پرے ہے۔ اگر وکٹم کے گھر والوں کو لگتا ہے کہ مذکورہ کارروائیوں(پروسیجر)پر عمل نہیں کیا گیا یا ان کے ساتھ ایماندارانہ رویہ نہیں برتا گیا، تفتیش مبنی بر حق نہیں ہے تو وہ بااختیار سیشن جج کے سامنے شکایت درج کرسکتے ہیں۔ سیشن جج شکایت کی بنیادوں پر غور کرکے ان پرپیش رفت کرے گا۔
یہ رہنما اصول وضوابط دستور ہند کے آرٹیکل141کے تحت قانون کا درجہ رکھتے ہیں نیز ان کا نفاذ نیز ان اصول وضوابط پر عمل پولیس انکاؤنٹر میں اموات و شدید زخمی ہونے کی صورت میں لازم و ضروری ہوگا۔حکومتوں اور اسلوب حکمرانی کی بنیاد نیز بنیادی اہمیت کے حامل اصولوں میں قانون کی حکمرانی، عوام کی سلامتی و تحفظ،ان کے شہری، سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق نیز انسانی وقار کا قیام ہی اہم ہوتا ہے۔ان مقاصد کی حصولیابی کے لیے حکومت کی دستوری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کی محفوظ زندگی و ذریعۂ معاش نیز انسانی اقدار کے تحفظ کے لیے باضابطہ پیشہ ورانہ، غیر جانبدارانہ و مؤثر پولیس نظام اپنے شہریوں کو فراہم کرے۔
سپریم کورٹ نے2012کے ایک اہم فیصلے اوم پرکاش بنام اسٹیٹ آف جھارکھنڈ میں صاف الفاظ میں تحریر کیا کہ پولیس افسران کی ڈیوٹی کسی بھی ملزم کو قتل کرنا نہیں ہے، چاہے وہ کتنا ہی خطرناک کریمنل کیوں نہ ہو، نہ ہی ہمارا کریمنل جسٹس سسٹم اس کو تسلیم کرتا ہے، اس کو حکومتی دہشت گردی تسلیم کیا جائے گا۔ انکاؤنٹر کے حوالے سے یقینا ملک کے حالات اتنی تشویشناک شکل اختیار کرچکے ہیں کہ انہیں حکومتی دہشت گردی کے زمرے میں شمار کیا جانا چاہیے، کیونکہ جب ہم حکومتی ادارے نیشنل کمیشن برائے حقوق انسانی کے ریکارڈ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ2002سے 2008کے درمیان ملک میں کل440فرضی انکاؤنٹر ہوئے،2009سے2013کے درمیان555فرضی انکاؤنٹر ہوئے، جب کہ صرف منی پور میں1500فرضی انکاؤنٹر کی شکایت پر سپریم کورٹ نے جسٹس سنتوش ہیگڑے کی قیادت میں کمیشن بنایاتھا جس کی رپورٹ کے مطابق تمام ہی انکاؤنٹر فرضی تھے، یہاں تک کہ ان مقتولین میں سے کسی کا بھی تعلق کسی طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے نہیں تھا، نہ ہی کسی کا کوئی ایک بھی کریمنل ریکارڈ یا کریمنل ماضی تھا۔
ہمارے ملک میں مروجہ قوانین کی روشنی میں پولیس صرف اور صرف دو صورتوں میں کسی بھی شخص کی جان لے سکتی ہے، پہلی شکل ہے انڈین پینل کوڈ کی دفعہ100کے تحت اپنی جان کے دفاع کا حق، یا کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ46(3) کے تحت جب کوئی مجرم جس نے ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہو جس میں مروجہ قوانین سزائے موت تجویز کرتے ہوں اور اس کو گرفتار کرنے کے لیے گولی چلانا ہی ایک واحد شکل ہوسکتی ہو۔
پولیس انکاؤنٹر کے بیشتر واقعات میں ملزم یا تو پہلے سے پولیس کی غیر قانونی حراست میں ہوتا ہے یا وہ غیر مسلح ہوتا ہے، اس حقیقت کو ہمارا نظام عدلیہ بارہا تسلیم و ثابت کرچکا ہے، جب کہ پولیس کا طریق کار انکاؤنٹر میں ملزم کو قتل کرنے کے بعد مقتول کے خلاف انڈین پینل کوڈ کی دفعہ307کے تحت قتل کی کوشش کا مقدمہ درج کرنا ہوتا ہے، چونکہ ملزم مرچکا ہوتا ہے، لہٰذا تفتیش کے بغیر پولیس انکاؤنٹر کیس کی فائل بند کردیتی ہے اور معاملہ عدالت تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم کردیا جاتا ہے۔ عزت و شہرت کے شور میں پولیس افسران کو انعامات و ترقی سے حکومت سرفراز کرتی ہے۔ اگر بعد میں انکاؤنٹر فرضی یا دوران پولیس حراست ثابت ہوتا ہے تو متعلقین کو نیشنل کمیشن برائے حقوق انسانی کی جانب سے کچھ معاوضہ عوامی ٹیکس سے ادا کردیا جاتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS