سیلم پور علاقہ کے قبرستان کی حالت انتہائی خستہ، مسلم نمائندے اور مقامی ذمہ داروں کا رویہ افسوسناک

0
image:RRS Urdu

نئی دہلی (محمد یامین،ایس این بی) : سیلم پور علاقہ کے تحت ویلکم میں واقع نصف صدی سے زائد پرانے قبرستان کی حالت نہایت خستہ ہوگئی ہے اور بھرائو کے باوجود بھی تدفین کی گنجائش نہیں ہے لیکن مجبوری کے تحت تدفین کا عمل جاری ہے جس کے نتیجہ میں ایک ایک قبر سے 70-70مردے نہیں بلکہ ,100 100مردے نکل سکتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ جب پچاس ساٹھ برس قبل قبرستان بنا تھا تو اس وقت آبادی بہت ہی کم تھی لیکن اب آبادی میں کئی گنا اضافہ ہونے پر قبرستان ناکافی ہونے سے قبروں کی خستہ حالت اور بدبو وتعفن سے سانس لینا مشکل ہے جس کا پتہ مسلم نمائندوں اور مقامی ذمہ داروں کو ہونے کے باوجود ان کی خاموشی موت کے بعد کی جگہ (قبرستان) کو یکسرنظر انداز کررہی ہے جبکہ ان کی عالیشان رہائش گاہیں بڑے غرور گھمنڈ اور عیش و عشرت کا نظارہ پیش کررہی ہیں مگر وہ اپنی آخری آماجگاہ قبرستان کو بھولتے جارہے ہیں ۔اس تعلق سے سیلم پور کے ڈاکٹر سید احمد خان کا کہنا ہے کہ سیلم پور حلقہ میں عوامی نمائندے مسلمان ہی ہوتے ہیں اور 21برس تک ممبر اسمبلی چودھری متین احمد رہے اور کانگریس میں ان کا وقار بھی ہے مگر ویلکم قبرستان کی خستہ حالت کے مد نظر کانگریس سے کوئی جگہ الاٹ نہیں کراسکے جبکہ دوسرے شاستری پارک کی طرز پر سیلم پور حلقہ کے تحت آنے والے شاستری پار ک میں بھی ڈی ڈی اے کی اراضی قبرستان کے نام پر الاٹ کرائی جاسکتی تھی مگر ناکام رہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ موجودہ منتخب نمائندوں ممبر اسمبلی عبدالرحمن ، چوہان بانگر کونسلر چودھری زبیر احمد، موج پور کونسلر ریشما ندیم اور سیلم پور کونسلر حجن شکیلہ کی بھی قبروستان کی متبادل جگہ کیلئے ان کی بے توجہی لاکھوں لوگوں کیلئے تشویش ناک بات سے کم نہیںہے اور جب ان کی توجہ دلائی جاتی ہے تو بس لمبی چوڑی باتیں ہی کرتے ہیں ۔سیلم پور کے ڈاکٹر اما م الدین کا کہنا ہے کہ جب شاستری پارک میں انجینئرنگ کالج ، ہوٹل ،اسپتال بن سکتا ہے اور حکومت کے تحت کورٹ کچہری، فائر بریگیڈ محکمہ سمیت بیشتر منصوبے ہیں تو پھر قبرستان کے نام پر زمین کی عدم حصولیابی پرمسلم نمائندوں کی بے توجہی و لاپرواہی عوامی مفاد میں نہیں ہے۔حاجی شاہد چنگیزی کا کہنا ہے کہ قبرستان دس فٹ اونچا ہوگیا ہے جس میں بھرائو اور تدفین کی کوئی گنجائش نہیںہے مگر برسوں سے قبرکے اوپر قبر سے مردوں کی کھوپڑیوں و ہڈیوںکے نکلنے سے بے حرمتی ہونا لازمی بات ہے اور اس صورت میں قبرستان کے لئے متبادل جگہ ہی واحد حل ہے۔ جعفر آباد کے مجاہد خان کا کہنا ہے کہ عید گاہ کے برابر میں حکومت کی کافی اراضی تھی جس پر پار ک بنا دیا گیا ہے اگر قبرستان کے نام پر عوامی نمائندے جدو جہد کرتے تو اس زمین کی حصولیابی سے قبرستان کی توسیع ممکن تھی مگر ماضی اور موجودہ منتخب نمائندوں نے کوئی جدو جہد نہیں کی ہے ۔ قبرستان کمیٹی صدر وقار احمد کا کہنا ہے کہ قبرستان کا بھرائو تھوڑا تھوڑا کراتے ہیں تاکہ تدفین کے عمل میں دقت نہ ہو اور سیلم پور کی میتوں کیلئے ایک گیٹ بنایا جائے گا اور صاف صفائی کسی مقامی شخص نے اجازت لے کر کرائی ہے۔حسین اور دلدار نامی افراد نے بتایا کہ کافی بڑی بڑی گھاس ہونے سے قبرستان کا بھیانک منظر دیکھ کر جعفرآباد کے حاجی شفیع الٰہی نے ہمیں پیسے دے کرقبرستان کی گھاس کاٹنے کی ذمہ داری دی تھی جو ہم نے نبھاکر پور ے قبرستان سے گھاس کاٹی اور اس سے قبل چار سمر سیبل بھی لگوائے تھے مگر قبروں کی حالت خراب ہونے پر میتوں کی بے حرمتی ہوناعام بات ہے جس پرقبرستان انتظامیہ کو دھیان دینے کی ضرورت ہے تاکہ سیلم پور سمیت ، جعفر آباد ، موج وپور، برہم پوری ، چوہان بانگر ، عثمان پور، گوتم پوری ، ویلکم، جنتا کالونی ، نیو جعفر آباد وغیرہ کالونیوں کی میتوں کی تدفین کا عمل بہترہوسکے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS