جمہوریت میں زبان خلق کی شائستگی کا تصور: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

انڈیا یعنی بھارت جیسے ملک میں جہاں ہر وقت فلسفۂ وسودھیو کٹمبکم اور ہر شعبہ ٔحیات میں لکشمن ریکھا پار نہ کرنے کی بات کی جاتی ہو اور جہاں کے رہنماؤں کو دیگر ممالک بشمول مسلم دنیا کے ممالک کے عظیم ترین خطابات سے نوازا جاتا ہو، وہاں پر ہندوستانی سیاستدانوں اوراصحاب منصب کی تو بات ہی کیا، بدزبانی یا بدکلامی اور غیرشائستہ زبان کا استعمال تو کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ ہم نے کئی بار اپنے مضامین میں یہ بات کہی ہے کہ اگر کوئی منصب دار اس طرح کی روش اختیار کرتا ہے تواس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ ’او شایستگی این مقام ندارد‘ یعنی وہ اس منصب کا اہل نہیں ہے ۔
جمہوریت میں زبان خلق وہ زبان ہوتی ہے جس کا مختلف ایوانوں کے لیے منتخب نمائندے عوام کے مسائل کی جانب ارباب حکومت کی توجہ مرکوز کرانے اور اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ عوام کون ہیں؟ یہ ہیں ہندوستان کے وہ تقریبا 140کروڑ لوگ جن کے بارے میں سپریم کورٹ نے ٹی ایم اے پائی فاؤنڈیشن بنام ریاست کرناٹک ودیگر والے معاملے(جے ٹی2002(9) ایس سی آئی) میںمندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے:
’’ہمارے ملک کو اکثر ’بھارت ماتا‘،’ مدر انڈیا‘ یعنی مادر ہند کی شکل میں ایک فرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بھارت کے عوام کو اس کی اولاد سمجھا جاتا ہے، جس کے لیے اس کے دل میں ہمیشہ جذبۂ فلاح نہاں رہتا ہے۔ کسی مشفق ماں کی طرح، اس کو بھی خاندان کی بہبود مقدم ہوتی ہے۔ کسی بھی صحت مند خاندان کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کا ہر فرد مضبوط اور تندرست ہو۔‘‘اس معاملے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ آئین میںاقلیتوں سے متعلق دفعات شامل کرنے کی غرض، ان میں تحفظ کااحساس پیدا کر نا تھاجبکہ بنفسہٖ انہیں سماج کا کمزور اور غیر مراعتی طبقہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ آئین بھارت کے عوام کے الگ رنگ و روپ کو تسلیم کرتا ہے لیکن وہ ا ن کی جداگانہ حیثیت کے باوجود ان میں سے ہر ایک کو مساوی اہمیت دیتا ہے کیونکہ اسی طرح ایک متحدہ سیکولر قوم وجود میں آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:
ناساز جمہوریت

ان آئینی التزامات کے باوجود مختلف سیاستدانوں، سماجی کارکنوں و ثقافتی تنظیموں سے وابستہ کچھ افراد نے ارادی طور پر اور کچھ نے سیاسی مصلحت یا کسی مجبوری کے تحت یا غلط ماحول میں پرورش کے سبب کچھ اس طرح کی روش اختیار کر رکھی ہے اور انہوں نے کبھی کسی مذہب کی تنقید، کبھی مذہبی اداروںکی تقصیر، کبھی کسی مذہب یا طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تذلیل تو کبھی قابل مذمت افراد اور ان کے قابل ملامت افعال بے جا کی تعریف وتوصیف کو اپنا وطیرہ بنالیا ہے حالانکہ ان کی تعدادنہ کے برابر ہے۔ اب اس زمرہ نے لکشمن ریکھا پار کرکے اپنی رسائی پارلیمنٹ تک حاصل کرلی ہے جو نہایت افسوسناک ہے۔ ہندوستان کے عوام تو مختلف مقامات پر مختلف لوگوں کی جانب سے اس قسم کی غیرشائستہ زبان سننے کے عادی ہوچکے ہیں لیکن لوک سبھا میں ایک منتخب رکن کا دوسرے رکن کے خلاف نہ صرف غیرشائستہ بلکہ شدید غیر شائستہ زبان کے استعمال نے تو لکشمن ریکھا کی حدود پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر ۔ ہم اس غیرمنطقی قول سے مکمل طور پر اتفاق تو نہیں کرتے ،برق تو سب پر گرتی ہے لیکن اتنا ضرور کہنا چاہیں گے کہ جب برق مسلمانوں پر گرتی ہے تو اس کی نوعیت زیادہ شدید ہوتی ہے اور جب وہ اپنا دکھڑا روتا ہے تو اس کی آواز ذرا دیر سے سنی جاتی ہے ۔ اس کی حیثیت اس مرغ شب آویز کی سی ہے جو رات بھر ایک ٹانگ پر کھڑا رہتا ہے اور صبح تک حق حق کی صدا بلند کرتا ہے اور وہ اس قدر فریاد کرتا ہے کہ خون کا قطرہ اس کے حلق سے نکلنے لگتا ہے مگر طلوع آفتاب ہوتے ہی اسے وزیراعظم نریندر مودی کے لال قلعے کی فصیل سے 15اگست کو کہی ہوئی یہ بات یاد آجاتی ہے کہ آئندہ 10سال تک اس طرح کی حرکتوں پر قدغن لگا رہے گا یا ایسی سرگرمیوں کا تعطل رہے گا۔ پھر وہ اطمینان کی سانس لیتا ہے اور یہ توقع کرتا ہے کہ اس کی آواز سر بام تک ضرور پہنچے گی اور پہنچتی بھی ہے۔ پارلیمنٹ میں ہونے والے ناخوشگوار واقعہ کی سبھی نے مذمت کی ہے اور افسوس کا بھی اظہار کیا ہے۔ چونکہ یہ واقعہ اندرون پارلیمنٹ کا ہے، اس پر مزید تبصرہ پیشہ ورانہ ضابطۂ اخلاق کی رو سے قرین مصلحت نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:
ہندوستان کی پہچان سیکولرازم اور جمہوریت

اس طرح کے بیانات خواہ کسی کی بھی جانب سے دیے جائیں، آئین کی دفعہ19کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔ اس دفعہ میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی مکمل آزادی عطا کی گئی ہے مگر کوئی بھی آزادی بے لگام نہیں ہوتی اور قانون سپریم کورٹ کے دیے گئے مختلف فیصلوں کی روسے بے لگام آزادی کو تسلیم نہیں کرتا۔ ویسے بھی دفعہ19میں جہاں ایک جانب مکمل آزادی کی بات کہی گئی ہے تو دوسری جانب یہ فقرۂ مزید بھی شامل کردیا گیا ہے کہ حکومت اس طرح کی آزادی پر دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ امن عامہ، شائستگی یا اخلاق عامہ کی اغراض کے لیے معقول پابندیاں لگا سکتی ہے۔اس کے علاوہ مجموعہ تعزیرات بھارت کے باب 15 میں مختلف دفعات کو شامل کر کے اس بات کو یقینی بنانے کا اقدام کیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح نہ کرے۔ دراصل ہر فرقے بلکہ ہر فرد کا، خواہ اس کا تعلق اقلیتی فرقے سے ہو یا اکثریتی فرقے سے، یہ فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مذہب کا مکمل احترام کریں۔ دفعہ 295 الف میں اس بات کو واضح کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر یا بہ نیت فاسد کسی کے مذہب یا عقیدے کی توہین کرکے اس کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتا ہے، خواہ ایسا کچھ بول کر کرے یا لکھ کر یا اشارے کنایے کے ذریعہ یا اشارتاً اظہار کے ذریعہ یا ایسا کرنے کا اقدام کرے تو وہ مستوجب سزا ہوگا۔امتیاز سے پاک وصاف معاشرے میں ہی لوگوں کے مابین صحیح میل جول اور حقیقی محبت پروان چڑھ سکتی ہے۔ یہی جذبہ اتحاد چھوٹے سے چھوٹے ملک کو ایک عظیم مملکت کا مرتبہ دلا سکتا ہے۔ اگر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر نہیں رہیں گے اور انسانی حقوق کا احترام نہیں کریں گے تو اس دنیا کوGlobal Village کہنا بے معنی ہوگا۔
اگرچہ ہندوستانی مسلمان ہندوستان کی سیاست میں ایک مضبوط پریشر گروپ ہیں مگر پھر بھی انہیں زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیاہے کہ کچھ افراد ایک مخصوص طبقے میں اپنی جگہ بنانے یا برقرار رکھنے کے لیے ایسا کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ متاثرین اپنے جذبات مجروح ہونے کا اظہار نہ کریں اور وہ بھی جب ایسا واقعہ پارلیمنٹ میں پیش آئے۔ساتھ ہی پارلیمانی حکام کا یہ فرض ہے اور انصاف کا تقاضا بھی کہ محمود و ایاز کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS