جی ڈی پی کی سب سے بڑی گراوٹ

0

سراج الدین فلاحی

کووِڈ سنامی کی دوسری لہر میں انڈیا کے قومی شماریاتی دفترNational Statistical Office یعنی این ایس او نے مالی سال 21-2020 کی اقتصادی شرح نموکا ڈیٹا جاری کر دیاہے جس میں 7.3 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے، چنانچہ ملک کی جی ڈی پی جو مالی سال 20-2019 میں 145 لاکھ کروڑ روپے تھی،اب گھٹ کر 135 لاکھ کروڑ پر آگئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ ہندوستان کی آزادی کے بعد سب سے بڑی معاشی گراوٹ ہے۔ در حقیقت کووِڈ کا یہ بحران اتنا شدید ہے کہ لوگ جان بچانے کے لیے ویکسین، آکسیجن، وینٹی لیٹر وغیرہ کی بات تو کر رہے ہیں، معیشت بچانے کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ زندگی کی بقا کے لیے دونوں لازم و ملزوم ہیں، چنانچہ دیگر ترقی یافتہ معیشتوں کی بہ نسبت ہندوستان کی معاشی کارکردگی کہیں زیادہ خراب رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اس وبا میں ہندوستان میں گزشتہ 2 ماہ کے اندر ہی 4.5 لاکھ کروڑ کے نقصان کا ذکر ہے جبکہ اسی مدت کے لیے برطانوی یونیورسل بینک Barclays نے 5.4 لاکھ کروڑ کے نقصان کا اندازہ لگایاہے۔ Nomura جو ایک کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ہے، اس کےBusiness Resumption Index کے مطابق، معیشت کا پہیہ جو فروری میں کووِڈ کی پہلی لہر کے بعد کھل کر 98 فیصد کی رفتار سے چلنے لگا تھا، اب 60 فیصد پر آ گیاہے۔
موجودہ دور میں جی ڈی پی میں اضافے کو ترقی کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ جی ڈی پی ایک مالی سال کے دوران پیدا کی گئی اشیا اور خدمات کی کل ویلیو کو کہتے ہیں۔ جی ڈی پی کیا ہے؟ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ فرض کرتے ہیں، اگر آپ کے گھر میں سالانہ ایک لاکھ روپے کی آمدنی ہوتی ہے تو یہ آپ کے گھر کی جی ڈی پی ہوئی۔ اسی طرح پورے ملک میں کتنے پیسے کمائے گئے، یہ ملک کی جی ڈی پی ہوئی۔ اس کی پیمائش پروڈکشن کی بنیاد و آمدنی یا خرچ کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ جی ڈی پی شرح نمو کا مطلب یہ ہے کہ اگلے ایک سال کے دوران اس ایک لاکھ میں کتنا اضافہ ہوا۔ مثال کے طور پر 5 فیصد اضافہ ہوا تو ایسی صورت میںجی ڈی پی ایک لاکھ سے بڑھ کر ایک لاکھ 5 ہزار ہو جائے گی۔ جی ڈی پی کم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک لاکھ میں گراوٹ آ گئی۔ مثلاً: اس سال جی ڈی پی میں 7.3 فیصد کی کمی ہوئی تو مذکورہ بالا مثال سے یہ ایک لاکھ سے گھٹ کر 92.7 ہزار ہو جائے گی۔ کل جی ڈی پی کے ٹرم میں دیکھا جائے تو ہمارا ملک امریکہ، چین، جاپان، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کو چھوڑ کر دنیا کی ساتویں سب سے بڑی معیشت ہے، البتہ اگر فی کس جی ڈی پی کے تناظر میں دیکھیں گے تو یہ بنگلہ دیش جیسے ملک سے بھی پسماندہ ہے۔ حالانکہ اس مالی سال سے قبل بنگلہ دیش ہم سے پیچھے تھا۔ (جی ڈی پی کو ملک کی کل آبادی سے تقسیم کرنے پر فی کس جی ڈی پی حاصل ہوتا ہے)۔ جی ڈی پی میں گراوٹ کی ایک بڑی وجہ Labour force participation rate کا گھٹنا بھی ہے۔ 2012 سے 2018 تک ہمارے ملک میں چالیس کروڑ لوگ کام کرتے تھے۔ گزشتہ تین برسوں میں اس میں بھاری کمی آئی ہے۔ ابھی ہر سو افراد پر 23 افراد بے روزگار ہیں۔ سی ایم آئی ای کی رپورٹ کے مطابق، صرف اس لہر میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد ایسے افراد کی تھی جو رسمی شعبے میں کام کرتے تھے۔ سی ایم آئی ای کی رپورٹ مزید کہتی ہے کہ اگر ابھی بھی سب کچھ ٹھیک ہو جائے تو جاب ریکوری اور معاشی حالت بہتر ہونے میں ایک طویل وقت لگے گا۔ جس طرح آبادی لگاتار بڑھ رہی ہے، آبادی میں اضافہ سے ورک فورس بھی بڑھنا چاہیے لیکن بے روزگاری نے پچھلے 45 برسوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔

معیشت کی صحیح تصویر اب سامنے آ رہی ہے۔ ذرا سوچئے کہ جس ملک کا بحران سنگین ہونے والا ہو، جی ڈی پی منفی 7.3 فیصد ہو، 23 کروڑ عوام خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں، کروڑوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہوں، غریب مایوس ہو چکے ہوں، پورا ملک سرکار کی غلط اور غیر متوقع پالیسیوں کی قیمت ادا کر رہا ہو، ان حالات میں سرکار سب کچھ چھوڑ کر اس بات پر خوش ہے کہ شیئر بازار میں دیوالی چل رہی ہے۔

کسی بھی ملک کی معاشی فلاح و بہبود اس ملک کے صرف امیروں یا دولت مند لوگوں پر منحصر نہیں ہوتی، اس کا انحصار امیروں کے ساتھ ساتھ متوسط طبقے اور بطور خاص غریب طبقات پر بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ یہاں امیراور امیر ہوتا جا رہا ہے اور غریب اور غریب۔ حالیہ رپورٹ کہہ رہی ہے کہ ملک کے جی ڈی پی کی شرح نموآزادی کے بعد سے اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ایسے پر آشوب دور میں بھی ہمارے ملک کے کارپوریٹ گھرانوں کی چاندی ہی چاندی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دولت اور مادی اشیا کی حصولیابی صرف صنعت کاروں اور امیروں کے لیے آسان ہے جنہوں نے ملک کے سارے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے جبکہ ملک کے غریب عوام جو محنت کش ہوتے ہیں، ان کے لیے دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی۔ ذرا تصور کیجیے کہ ملک کے غریب طبقات کا حال اس وقت کتنا برا ہے اور سرکار ان کو ہر دو ماہ کے بعد پانچ کلو گیہوں دے کر اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے جس کی کل ویلیو صرف 32 روپے فی ماہ ہے۔ تمام بڑے ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ سرکار کو بولڈ اسٹیپ لینا چاہیے اور نوٹ چھاپ کر ان طبقات کے اکاؤنٹ میں ڈائرکٹ کیش ٹرانسفر کرنا چاہیے تاکہ ان کو فاقہ کشی سے بچایا جا سکے، نیز معیشت میں ڈیمانڈ بڑھے جس سے بند پڑی صنعتیں کھل جائیں لیکن سرکار ہے کہ اس کو مالی خسارے کا مسئلہ ستا رہا ہے۔
سرکار اپنی تمام ناکامیوں کا ٹھیکرا کووِڈ پرڈال کر آپدا میں اَوسر تلاش کر رہی ہے اور سرمایہ کشی کے ذریعہ پیسہ اکٹھا کرکے خرچ کر رہی ہے یعنی پبلک اداروں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں بیچ رہی ہے۔ اس وقت زراعتی شعبے کو چھوڑ کر آٹو موبائل سمیت تمام شعبوں پر سرکار کی غیر متوقع اور غیر یقینی پالیسیوں کی مار پڑی ہے، چنانچہ جی ڈی پی میں گراوٹ آئی ہے، البتہ زراعتی شعبے کی کارکردگی دیگر شعبوں کے بالمقابل بہتر ہے لیکن یہ شعبہ بھی سرکار کی غلط پالیسیوں کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ وہ زراعتی شعبہ جو ملک کی جی ڈی پی کو تقویت دے رہا ہے، اس کو کارپوریٹ گھرانوں کی بہ نسبت صرف 8.7 فیصد لون دے کر ڈھنڈورہ پیٹا جا رہا ہے اور بڑے بڑے لون جو کارپوریٹ گھرانوں کو دیے گئے،ان پر خاموشی برتی جا رہی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سرکار اسی شعبے میں سدھار بھی لانا چاہتی ہے یعنی جو غریب کسان اس وقت گری ہوئی جی ڈی پی کو بچا رہا ہے، وہ حیران و پریشان سڑکوں پر کھڑا کہہ رہا ہے کہ ہمیں سرکار کے ذریعے لائے گئے سدھار کی ضرورت نہیں ہے اور سرکار کہہ رہی ہے، ہم تمہاری اصلاح کریں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ سرکار ملک کے تمام وسائل و ذرائع چند نجی ہاتھوں میں دے دینا چاہتی ہے لیکن معیشت کی صحیح تصویر اب سامنے آ رہی ہے۔ ذرا سوچئے کہ جس ملک کا بحران سنگین ہونے والا ہو،جی ڈی پی منفی 7.3 فیصد ہو، 23 کروڑ عوام خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں، کروڑوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہوں، غریب مایوس ہو چکے ہوں، پورا ملک سرکار کی غلط اور غیر متوقع پالیسیوں کی قیمت ادا کر رہا ہو، ان حالات میں سرکار سب کچھ چھوڑ کر اس بات پر خوش ہے کہ شیئر بازار میں دیوالی چل رہی ہے۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS