بڑی عدالت ذرا ہمت دکھائے

0

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک

سپریم کورٹ نے یو – یو للت کے چیف جسٹس بنتے ہی کیسے یکے بعد دیگرے فیصلے شروع کردئے ہیں، یہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنے ڈھائی ماہ کے چھوٹی سی مدت کار وہ ہماری تمام عدالتوںکو شاید نئے ڈھانچے میں ڈھال جائیں گے۔ اس وقت ملک کی عدالتوں میں 4کروڑ سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں۔ کئی مقدمے تو تقریباً 30-40سال سے چل رہے ہیں۔مقدمات میں پھنسے لوگوں کو زبردست دھوکہ دیا جاتا ہے، اس کی کہانی الگ ہے ہی۔ چیف جسٹس للت کی عدالت نے گجرات کے فسادات کی 11عرضیاں، بابری مسجد سے متعلق مقدمات اور بنگلورو کے عیدگاہ میدان کے معاملے میں جو فوری فیصلے دیے ہیں، ان سے آپ اتفاق کریں یہ ضروری نہیں ہے لیکن انہیں دہائیوں تک لٹکائے رکھنا تو بالکل بے معنی ہی ہے۔ جان اسٹورٹ مل نے اپنی مشہور کتاب ’لبرٹی‘ میں کیا مارکہ کی بات کہی ہے۔ انہو ںنے کہا ہے ’دیر سے دیا گیا فیصلہ تو ناانصافی ہی ہے۔‘ جسٹس للت سے ہم امید کرتے ہیں کہ یہ اپنی چھوٹی سی مدت میںکچھ ایسا کر جائیں، جو پچھلے 75سال میں کوئی نہیں کرسکا اور ان کے کئے ہوئے کو لوگ صدیوں تک یاد رکھیں۔ ایک تو قانون کی پڑھائی پورے ملک میں مادری زبان میںہو۔ عدالت کی ساری بحثیں اور فیصلے اپنی زبان میں ہوں تاکہ انصاف کے نام پر چل رہا جادو ٹونا ختم ہو۔ مدعیان اور مدعا علیہان کو بھی پتہ چلے کہ ان کے وکلا نے کیا بحث کی ہے اور ججوں نے اپنے فیصلوں میں کہا کیا ہے۔ للت کی عدالت میں ابھی تین اہم مقدمات بھی آنے والے ہیں۔ ان تینوں معاملوں میں ان کے فیصلے عہد ساز ہوسکتے ہیں۔ پہلا معاملہ ہے غریبوں اور مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے خلاف۔ میں مانتا ہوں کہ غریبی، ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن دینا بالکل غلط ہے، غیر اخلاقی اور ملک کو تباہ کرنے والا ہے۔ ریزرویشن صرف تعلیم میں دیا جاسکتا ہے، وہ بھی صرف غریبی کی بنیاد پر۔ نوکریاں خالص معیار کی بنیاد پر دی جانی چاہیے۔ جہاں تک دوسرے معاملے- مسلم تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ کا سوال ہے، تین طلاق کی طرح اس پر بھی قانونی طور پرپابندی ہونی چاہیے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو پیچھے دیکھو نہیں، آگے دیکھو بننا ہے۔ تیسرا معاملہ ہے ریاستوں میں اقلیتوں کی پہچان کا۔ اگر ہندوستانی آئین کے مطابق تمام ہندوستانی شہری برابر ہیں تو کسی ریاست میں ان کی تعداد کی بنیاد پر اکثریت اور اقلیت کا تمغہ ان کے چہرے پر چسپاں کردینا صحیح نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایسا کردینے سے تھوک ووٹ کی سیاست کا دھندہ بڑے مزے سے چل سکتا ہے لیکن نہ تو یہ ہندوستان کے اتحادکے لئے ٹھیک ہے اور نہ ہی آزاد جمہوریت کے لئے فائدہ مند ہے۔ اگر اگلے دو ڈھائی مہینوں کی مدت میں سپریم کورٹ کچھ ہمت دکھائے اور ان مسائل پر اپنے غیر جانبدار اور بے خوف فیصلے دے سکے تو ملک کے عوام کو لگے گا کہ سپریم کورٹ نے ہندوستان کی جمہوریت کے تحفظ کے لیے ایک شاندار اقدام کیا ہے۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS