مدارس کے خلاف مہم

0

یوں تو پورے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ دوسرے درجہ کا سلوک عام بات ہوگئی ہے لیکن آسام اور اترپردیش میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے اسے کھلی مسلم دشمنی کے علاوہ دوسرا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں ہی ریاستوں میں آج کل مسلمانوں کے تعلیمی ادارے حکومت کے نشانہ پر ہیں۔ آسام کی ہیمنت بسوا سرما کی حکومت طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے مدارس کو منہدم کررہی ہے تو اترپردیش کی یوگی حکومت مدارس کو منہدم کرنے کے ساتھ ساتھ ’غیرتسلیم شدہ مدارس‘ کا سروے کرارہی ہے تاکہ آگے کا ’کام ‘ کیا جاسکے ۔
آسام میں اب تک تین مدارس کو بی جے پی حکومت نے منہدم کردیا ہے ۔ان مدارس کے سلسلے میں وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کا دعویٰ ہے کہ ان کا تعلق دہشت گردگروہوں سے تھا اس لئے ان پر بلڈوزر چلایا گیا۔ مبینہ طور پر دہشت گردوں سے تعلق کے الزام میں آسام کی حکومت نے اب تک 40افراد کو کیاہے ۔یہ تمام گرفتار شدگان مسلمان ہیں ۔ اس کو بنیاد بناتے ہوئے وزیراعلیٰ ہیمنت بسواسرما یہ دلیل دے رہے ہیں کہ ان افراد کی وابستگی مدارس سے تھی اس لئے مدارس کو منہدم کیاجارہاہے، لیکن انتظامیہ جب ان مدارس کو منہدم کرنے پہنچتی ہے تو وہ کوئی اور کہانی سناتی ہے۔ انتظامی حکام ان مدارس کے انہدام سے متعلق میڈیا کو بتاتے ہیں کہ یہ مدارس ضابطے کے خلاف بنائے گئے تھے ان کی تعمیر کے وقت حکومتی قواعد پر عمل نہیں کیاگیا تھا۔ مدارس کے سلسلے میں حکومت کے یہ دو متضاد موقف خود ہی یہ بتارہے ہیں کہ حقیقت میں معاملہ نہ تو دہشت گردوں کا ہے اور نہ غیر قانونی تعمیرات اور حکومتی قواعد کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ معاملہ کھلی مسلم دشمنی ہے ۔ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرمااپنی حکومت کے پہلے ہی دن سے مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہیں۔ گزشتہ سال مسلمانوں کو اجاڑنے کی باقاعدہ انہوں نے مہم چلائی تھی۔ تجاوزات کے نام پر آسام کی پولیس فورس نے نہتے مسلمانوں پر فائرنگ کی تھی تو پولیس کے فوٹو گرافروں نے مسلمانوں کی لاشوں پر جشن منایا تھا۔ آسام میں جب سے بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے، مسلمانوں کے ساتھ امتیاز، تعصب اور منافرت میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے ۔ وہاں کے مسلمان خوف و دہشت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہیمنت بسوا سرما کا کہنا ہے کہ آسام کی زمین پر گنجائش سے زیادہ بوجھ ہے اس لئے اسے کم کیا جانا ضروری ہے۔ اس کمی کیلئے وہ مسلمانوں کے خلاف کھلی بربریت کا ارتکاب کررہے ہیں۔ مدارس کاانہدام بھی ان کی اسی مذموم کوشش کا ایک حصہ ہے ۔ اس سے پہلے ریاست کے تمام سرکاری مدارس کو بند کردیاگیا اورانہیں حکومت نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ آسام میں آج ایک بھی سرکاری مدرسہ نہیں ہے۔ جتنے مدارس چل رہے ہیں وہ مسلمانوں کے آپسی چندے سے چلائے جارہے ہیں اورا ن میں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم معاشرہ کے دبے کچلے اور پس ماندہ خاندان کے بچے ہیں۔اب ان نجی مدرسوں کو حکومتی قواعد کے خلاف قرار دیتے ہوئے ان کو منہدم کرنے کی آڑ میں مسلمانوں کونشانہ بنایاجارہاہے۔
مدارس کے خلاف کچھ یہی صورتحال اترپردیش میں بھی ہے۔ اترپردیش کی یوگی حکومت نے گزشتہ دنوں میں امروہہ کے ایک مدرسہ کو یہ کہتے ہوئے مسمار کردیا تھا کہ یہ سرکاری زمین پرغیر قانونی طریقے سے تعمیر کیاگیا تھا اور یہ خبر آئی ہے کہ ریاست کے غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرائے گی اور غیر قانونی پائے جانے والے مدارس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ہرچند کہ اس سروے کے سلسلے میں حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ یہ سروے ان مدارس میںانفراسٹرکچر اور طلبا کو ملنے والی سہولت سے متعلق ہے اورسروے کے بعد نئے مدارس کو تسلیم کرنے کا عمل شروع کیاجائے گا۔ اس و قت اترپردیش میں چھوٹے بڑے کل 16,461 مدارس اور مکاتب ہیں ان میں سے فقط 560 کو سرکاری گرانٹ ملتی ہے۔ گزشتہ 6 برسوں سے کسی بھی نئے مدرسہ کو گرانٹ کی فہرست میں شامل نہیں کیاگیا ہے ۔
مسلمانوں کے سلسلے میں یوگی حکومت کی نیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ این آر سی کے خلاف ہوئی تحریک کے دوران مسلمانوں کے خلاف یوگی حکومت کی کارروائی ریکارڈ پر ہے۔ چند ماہ قبل بی جے پی کی لیڈر شاتم رسول نوپور شرما کے خلاف ہونے والے احتجاج کے بعد الٰہ آباد میں جاوید محمد کے مکان کا انہدام بھی دنیا کے سامنے ہے اور ان سب سے بڑھ کر یوگی حکومت کی جانب سے وقتاًفوقتاً کئے جانے والے مسلم مخالف اعلانات ہیں۔جس سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ ریاستی حکومت مدارس کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کررہی ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف آسام اور اترپردیش کی حکومتوں کا یہ رویہ ملک میں فرقہ وارایت اور مذہبی منافرت میں اضافہ کا سبب بنے گا ۔ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کا تقاضا ہے کہ ریاستی حکومتیں مسلمانو ں کو بھی مساوی حیثیت دیںاورا ن کے حق پر بلڈوزر نہ چلائیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS