مدارس میںتعلیمی سال کا آغاز اور کرنے کے کچھ کام

0

محمدانتخاب ندوی

تعلیمی سال کا آغاز ہورہا ہے،مدارس اسلامیہ پورے آن بان شان کے ساتھ تدریسی وتعلیمی سرگرمیاں جاری کرنے میں مشغول ہیں،مسلسل دو برسوں کے بعد طلبہ مدارس اپنے مادر علمی کی طرف خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہوئے شکرالٰہی کا پیکر بن کر رواں دواں ہیں، بعض داخلہ کے تمام مراحل کو عبور کرتے ہوئے مقصد اصلی کی حصولیابی میں مشغول ہیں اور بعض داخلہ کے مراحل سے گزررہے ہیں،بعض نے خوشی بخوشی مدرسہ کا انتخاب کیا ہے اور بعض نے والدین اور اعزہ واقارب کی زور وزبردستی کی وجہ سے، راقم الحروف دل کی گہرائیوں سے دونوں طرح کے طلبہ اور ان کے والدین کو مبارکباد پیش کرتا ہے،جنھوں ان مشکل حالات میں (جبکہ ہرطرف سے اپنوں اور غیروں کی طرف سے طلبہ مدارس کے خلاف دل شکن جملے کسے جارہے ہیں)اپنے فرزندوں کے لیے مدرسہ ہی کا انتخاب کیا۔قبل اس کے کہ تعلیمی سرگرمیوں کا باضابطہ آغاز وابتدا کیا جائے راقم الحروف چند معروضات تعلیمی اھداف واغراض سے متعلق اپنے تجربات کی روشنی میں رقم کرنا مناسب سمجھتا ہے۔اگر ہم امت کے لیے چشمہ حیواں بننا چاہتے ہیں،اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے گاؤں،بستی،ضلع اور ریاست بلکہ ملکی سطح پر لوگوں کے بقعہ نور بنیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو مدرسہ کے تئیں احساس کمتری جیسے مرض سے نکالنا پڑے گا۔مدرسہ کی اہمیت وافادیت اور دنیا کو اس کی ضرورت کا نقش اپنے قلوب بلکہ جسم کے ہرعضو پر ثبت کرنا پڑے گا،مدرسہ کیا ہے؟ہم اس موقع پر حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی آب زر سے لکھی جانے والی تحریر رقم کرتے ہیں جو مدرسہ کا تعارف اچھوتا اور دلکش انداز میں کرتی ہے۔
میں مدرسہ کو ہرادارہ سے بڑھ کر مستحکم،طاقتور،زندگی کی صلاحیت رکھنے والااور حرکت ونمو سے لبریز سمجھتا ہوں،اس کا ایک سرا نبوت محمدیؐ سے ملاہوا ہے،دوسرا اس زندگی سے،وہ نبوت محمدیؐ کے چشمہ حیواں سے پانی لیتا ہے اور زندگی کی ان کشت زاروں میں ڈالتا ہے،وہ اپنا کام چھوڑ دے تو زندگی کے کھیت سوکھ جائیںاور انسانیت مرجھانے لگے،نہ نبوت محمدیؐ کا دریا پایاب ہونے والاہے،نہ انسانیت کی پیاس بجھنے والی ہے،نہ نبوت محمدیؐ کے چشمہ فیض سے بخل اور انکار ہے،نہ انسانیت کا کاسہ گداء کی طرف سے استغنا کا اظہار،ادھر سے ’انما انا قاسم واللہ یعطی‘کی صدائے مکرر ہے،تو ادھر سے ’ھل من مزید ھل من مزید‘ کی فغان مسلسل۔ حضرت مولانا نے طالبان دارالعلوم دیوبند سے مخاطب ہوکر 1954 میں فرمایا تھا۔
مدرسہ سے بڑھ کر دنیا میں کون سا زندہ متحرک اور مصروف ادارہ ہوسکتا ہے،زندگی کے مسائل بے شمار،زندگی کے تغیرات بے شمار،زندگی کی ضرورتیں بے شمار،زندگی کی لغزشیں بے شمار،زندگی کے فریب بے شمار،زندگی کے رہزن بے شمار،زندگی کی تمنائیں بے شمار،زندگی کے حوصلے بے شمار،مدرسہ نے جب زندگی کی رہنما کی اور دستگیری کا ذمہ لیا تو اسے اب فرصت کہاں؟دنیا میں ہرادارہ ،ہرمرکز،ہر فرد کو راحت اور فراغت کا حق ہے،اس کو اپنے کام سے چھٹی مل سکتی ہے،مگر مدرسہ کو نہیں،دنیا میں ہرمسافر کے لیے آرام ہے،لیکن اس مسافر کے لیے راحت حرام ہے۔
آج دنیا تسلیم کرے یا نہ کرے مگر ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے بغیر یہ عالم خزاں رسیدہ ہے،ہمارے اس وجود سے اس میں ہریالی ہے،اگر ہم نے بقول مفکراسلام اپنے اندر اخلاص،جذبہ قربانی اور جوہر ذاتی پیدا کرلی تو قسم خدا کی دنیا ہمیں چراغ لے کر تلاش کرے گی۔مگر افسوس ہر سال ایک بڑی تعداد فارغ ہوتی ہے،اکثریت تو اپنی صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے نسیا منسیا ہوجاتے ہیں اور کچھ بے حس انتظامیہ کے ظلم کا نشانہ بن کر کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔
اگر ہم آج احساس کمتری کے شکار ہیں، اس کی وجہ یاتو خود ہم ہیں یا ہمارے اہل خانہ اور اہل خاندان و گاؤں۔جہاں تک اپنی کمی کا تعلق ہے تو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم مدرسہ میں بیک وقت پانچ زبانیں عربی،انگریزی،اردو،فارسی اور ہندی پڑھتے ہیں،اس کے باجود ہم ان میں سے کسی بھی زبان میں صحیح طور پر مافی الضمیر ادا کرنے پر قادر نہیں ہوپاتے ہیں،یہی نہیں بلکہ بسا اوقات اردو کی درخواستیں بھی تحریر کرنے میں دوسروں کے تعاون کے محتاج ہوتے ہیں،برجستہ تقریر کرنا اور عربی زبان میں برجستہ جمعہ کا خطبہ پیش تو درکنار، آخر کیوں؟شاید اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ ہمارے ذہن ودماغ میں یہ بات بھر دی گئی ہے کہ آخر اتنی محنت کرکے کیا فائدہ جبکہ تنخواہ سات ہزار یا آٹھ ہی ملے گی،جس کی وجہ سے پورے چودہ سال مدرسہ کے احاطہ سے لے کر ندوہ اور دیوبند کی چہار دیواری میں لاابالی کی زندگی گزرتی ہے، جبکہ مذکورہ سوچ ایک اچھے طالبعلم کی نہیں ہونی چاہیے اور اگر ہماری صلاحیت اچھی بن بھی جائے تو بسا اوقات ہمارے والدین کے سخت جملے مثلاً 8000 یا10000 میں کام کیسے چلے گا،بیوی بال بچوں کو کیسے کھلاؤ گے،افتا ، عالمیت اور فضیلت سے کام نہیں چلے گا، فلاں کی اونچی عمارتیں دیکھو،فلاں کی جہیز میں ملی چچماتی گاڑی تو دیکھو،اس طرح کے بے شمار تیکھے جملے اپنے ہی اہل خانہ کی طرف سے اور اہل خاندان کی طرف سے سن سن کر ایک باصلاحیت عالم، فاضل اور مفتی اپنی صلاحیتوں کو کارخانوں اور دکانوں کو آباد کرنے کی نذر کرتا دیتا ہے جبکہ یہ اسلامی سوچ کے منافی ہے جو ہمارے اہل خانہ کے ذہن ودماغ میں پنپتی ہے۔اس وقت ہمارے سامنے مختلف چیلنجیز ہیں،ایسے ایسے شرپسند عناصر جنم لے رہے ہیں جو اسلام کی عمارت کو ڈھادینا چاہتے ہیں،چراغ مصطفوی کو گل کرنے کے لیے ہزاروں بولہبی مکھیوں کی طرح جنم لے رہے ہیں،مسیلمہ کذاب کے متبعین طوفان بدتمیزی بن کر اسلام کے خلاف زہراگل رہے ہیں ایسے موقع پرطالبان علوم نبوت کی اہم ترین ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو لسانی، خطابی، تقریری،تحریری،قلمی ہتھیار سے لیس کرتے ہوئے ان کا ترکی بہ ترکی جواب دیں،اس کے لیے ہمیں اپنے مدرسہ کی چہار دیواری میں رہ کر اپنے ممتاز اور باصلاحیت اساتذہ کی نگرانی میں خود کو تیار کرنا پڑے گا،ان کے حکم کے مطابق اپنی زندگی کا لائحہ عمل طے کرنا پڑے گا،یومیہ مطالعہ کے اوراق طے کرتے ہوئے اپنی نظر آفاقی اور عالمی کرنی پڑے گی۔پڑھائی جانے والی تمام زبانوں میں مہارت پیدا کرتے ہوئے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دینا پڑے گا،آج عیسائی مشنریاں تخریبی مقصد کی خاطر جس جفاشی سے محنت ومشقت کررہی ہیں وہ قابل دید ہیں اور قابل عبرت بھی،اس کے برخلاف ہمارے عزیز طلبہ موبائل کے ایسے دیوانے ہیں کہ اس سے ان کی وارفتگی لمحہ فکریہ کی دعوت دیتی ہے۔
ایک بات جو بہت اہم ہے اور اصحاب ثروت طلبہ سے متعلق ہے ،مجھے ان کے واسطہ سے ان کے والدین سے پوچھنا ہے کہ کیوں آپ اپنی اولاد کے تعلیمی سلسلہ میں دو الگ الگ نظریے قائم کرتے ہیں،ایک لڑکا اگر اسکول کا رخ کرتا ہے تو اس کی مکمل فیس ادا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ کوچنگ پڑھے تو اس کا بوجھ بھی برداشت کیا جاتا ہے لیکن وہیں دوسرا بیٹا جو مدرسہ کا رخ کرتا ہے نہ ان کی فیس پر اورنہ ان کی کوچنگ پر توجہ مبذول کی جاتی ہے، بلکہ کہا جاتا ہے کہ تمھیں فیس کی کیا ضرورت جبکہ تم مدرسہ میں پڑھتے ہوتو سوال یہ کہ کیا زکوٰۃ اور صدقات کی رقمیں کھا کر ایک صاحب حیثیت باپ کی اولاد ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکتی ہے؟نہیں ہرگز نہیں۔لہٰذا طلبہ اپنے صاحب حیثیت والدین سے ادب واحترام کے ساتھ درخواست کریں کہ ہمیں بھی دوسرے بھائی بہن کی طرح مستطیع متعلم کی حیثیت سے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے فیس دی جائے۔واضح رہے یہ آخری جملہ صرف صاحب حیثیت والدین کی اولاد سے متعلق ہے،ورنہ دیگر طلبہ کے لیے زکوۃ کی رقم سے تعلیم حاصل کرنے کی گنجائش ہے۔
بہرکیف!ہمیں اس بار عزم کرنا پڑے گا کہ گزشتہ دوبرسوں میں ہوئے تعلیمی نقصان کی تلافی کریں،تقریر وتحریر اور کتابت وخطابت سے اپنے کو لیس کرکے فتنوں کے سامنے سدسکندری بن جائیںاور زمانہ کی رعنائیوں،دلفریب اور دلکش مناظر سے متاثر ہوئے بغیر اپنی افادیت لوگوں کے سامنے ظاہر کریں۔r

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS