اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی

0

محمد فاروق اعظمی

گزشتہ دو مہینوں سے ملک کے اردو حلقوں میں جشن کا سماں ہے، کہیں سمینار ہورہے ہیں تو کہیں سمپوزیم اور توسیعی خطبات کا اہتمام کیاجارہاہے تو کہیں مشاعرہ کی محفل سجائی گئی ہے۔200سال کی ضعیفہ اردو صحافت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے نام ہورہے اس جشن و ہنگامہ کیلئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے لے کر مختلف ریاستوں کی اردو اکادمیاںخطیر رقم خرچ کررہی ہیں۔لیکن حیرت یہ ہے کہ عملی صحافیوں کے بجائے کوئی دوسرا ہی طبقہ اس جشن کا مرکز و محور ہے۔ دہلی سے کولکاتہ اور بھوپال سے عظیم آبادتک ’ صحافت کی خدمت ‘کے نام پر یہ طبقہ بڑی ڈھٹائی و بے شرمی کے ساتھ اپنا دامن بھر رہاہے اور 200 سالہ ضعیفہ کی سوکھی رگوں کو اپنے لہو سے سیراب کرنے والے صحافی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج جوحال ملک میں عام آدمی کا ہے، وہی حال اردو دنیا میں عملی صحافیوں کا ہوگیا ہے۔ جس طرح ملک پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہے جنہوں نے ملک اور ملک کی آزادی کیلئے کوئی قربانی نہیں دی، اسی طرح اردو صحافت کے خوشہ چین بھی وہی بنے ہوئے ہیں جنہوں نے کبھی صحافت کی عملی رہ گزر پر قدم ہی نہیں رکھا۔ صحافت کے نام پر برپا جشن و ہنگامہ کے درمیان بھی ان صحافیوں کاکوئی پرسان حال نہیں ہے جنہوں نے اس راہ دشوار پر ہر گام اپنانقش ثبت کیا اور آج بھی پیٹ پر پتھر باندھے اس 200 سالہ ضعیفہ کی مشاطگی میں مصروف کار ہیں۔ماضی قریب میں ہی ایسے صحافیوں کی قابل لحاظ تعداد گزری ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اردو صحافت پر نچھاور کردی اور قلم تھامے ہوئے سوئے عدم روانہ ہوگئے۔جشن منانے والے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے آج ان کا نام بھی نہیں لے رہے ہیں۔کسمپرسی اوراحسان ناشناسی کے اس دور میں محمد شکیل استھانوی کی کتاب ’ نقوش حیات‘ میں ایسے ہی چند صحافیوں کا ذکر دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی ہے۔ شکیل استھانوی کی کتاب مینارہ علم و عمل پروفیسر جابرحسین سے منسوب ہے اور اس میں 29ایسی علمی، ادبی اور دینی شخصیات کا ذکرہے جو کسی نہ کسی طرح ان کی زندگی پر اثر اندازہوئے ہیں۔ ان میں حافظ سید محمد عمر فرید سے لے کر شفیع عالم، شاہد رام نگری، ڈاکٹر رضوان احمدخان، سید عبدالرافع، سید محمد اجمل فرید اورشمس الہدیٰ استھانوی بھی ہیں جنہیں آج اردو صحافت کا جشن منانے والوں نے یاد کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ان نابغہ روزگار اردو صحافیوں پر باقاعدہ الگ الگ مضمون قلم بند کرکے شکیل استھانوی نے پوری اردو صحافتی برادری کی جانب سے فرض کفایہ ادا کردیا ہے۔
بہار سے تعلق رکھنے والے یہ حضرات آزادی کے بعد کی اردو صحافت کے بلاشبہ امام ہیں اور ان سے کسب فیض کرنے والے صحافیوں کی ایک پوری نسل ہے جو آج اردو صحافت میں اپنا نام روشن کررہی ہے۔بہار کی اردو صحافت کو نئی سمت دینے والوں میں حافظ سید محمد عمر فرید کا نام نامی سرفہرست ہے۔ روزنامہ ’’ قومی تنظیم‘‘ کے بانی حافظ سید محمد عمرفرید کی پیدائش لہریاسرائے، دربھنگہ میں ہوئی تھی۔1964میں دربھنگہ سے پندرہ روزہ اخبار کی شکل میں شروع ہونے والے آج پٹنہ کے اس روزنامہ کو بہار کی اردو صحافت کااہم مقام حاصل ہے۔مرحوم اردو صحافت کے ایک سچے خادم بلکہ وہ صحافت کے اصولوں اور قدروں کے امین بھی تھے۔’ نقوش حیات‘ میں شکیل استھانوی نے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے بجا طور پر لکھا ہے ’’ حافظ عمر فرید کا خاندانی پس منظر بھی شرافت و دیانت، تہذیب وثقافت، مذہب و ملت اور خدمت خلق کے معاملے میں انتہائی روشن و تابناک رہاہے۔انہوں نے بھی اپنی خاندانی روش کو قائم رکھتے ہوئے ہمیشہ ہی شرافت و دیانت کا مظاہرہ کیا، حق گوئی اور بے باکی کوا پنا نصب العین بنایا۔ ‘‘
بہار کی اردو صحافت اور اردو اخبارات کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے والوں میں ان کے منجھلے صاحب زادے مرحوم سید محمد جمیل فرید کا بھی نام نامی کافی نمایاں ہے۔اخبار کا مدیر اور مالک ہونے کے باوجود وہ اپنی ذات میں سراسر خیرتھے۔ نیک نفسی، اخلاص ملنساری، دردمندی اور غربا پروری ان کی ذات کا روشن پہلو تھے۔
نالندہ ضلع کے استھانواں سے تعلق رکھنے والے شمس الہدیٰ استھانوی کو بھی آزادی کے بعد بہار کے اولین صحافیوں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔بہار کے قدیم روزنامہ ’ صدائے عام‘ سے بحیثیت نامہ نگار اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کرنے والے شمس الہدیٰ استھانوی پسماندہ اور مفلوک الحال طبقہ کی نمائندگی میں پیش پیش رہے اور اردو کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف بھی آواز بلند کی۔ آج کا روزنامہ ’ ہمارا نعرہ ‘ ان ہی کی یادگار ہے جسے ان کے صاحبزادے ڈاکٹر انورالہدیٰ استھانوی اپنے بھائی مبین الہدیٰ کے ساتھ مل کر سنبھال رہے ہیں۔ مرحوم شمس الہدیٰ استھانوی کی صحافت کے ساتھ سیاست سے بھی وابستگی رہی لیکن کہیں بھی اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ’آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کائونسل ‘ اور ’ بہار اردو ایڈیٹرس کانفرنس ‘ کے بانیوں میں سے تھے۔ شکیل استھانوی نے ان کی بابت لکھا ہے: ’’ سیاست و صحافت سے قلبی لگائو کے باوجود شمس الہدیٰ استھانوی صاحب پر مذہبی رنگ غالب تھا……ان کا رشتہ ارادت شیخ طریقت مولانا سعید احمد خان قدس اللہ سرہ سے تھا ……آپ نے ان سے سلوک و تصوف کی تعلیمات بھی حاصل کیں ……اور آپ سلاسل عالیہ کے معمولات کی ادائیگی بھی پابندی کے ساتھ وقت معینہ پرکرتے رہے‘‘۔
(ڈاکٹر) رضوان احمد جن کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنا مجھے ہمیشہ ہی عجیب سامحسوس ہوا ہے اور مرحوم اس کے شاکی بھی تھے۔ اردو دنیا کی ایسی عبقری شخصیت ہیں جنہوں نے حالات کے سامنے سپر ڈالنا سیکھاہی نہیں تھا۔جرأت مندی ‘ حوصلہ، بے باکی اور بے لاگ اظہار رائے ان کا نمایاں وصف ہے۔ مرحوم صحیح معنوں میں ایسے نابغہ تھے جن کے سامنے ’ڈاکٹر ‘ بونا نظرآتے ہیں۔ علم گویا ان کے اندر سے پھوٹتا تھا۔ کوئی سا بھی موضوع ہو، وہ قلم برداشتہ لکھنے میں یدطولیٰ رکھتے تھے اور مجال ہے کہیں کسی جملہ کو قلم زد یا رد کرنے کی نوبت آجائے۔زبان و بیان پر گرفت ایسی تھی کہ جب بولنے اور لکھنے پرآتے تھے وہ لفظ کے معنی تک بدل ڈالتے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ یہ لفظ اسی مفہوم کیلئے بنا ہے، جسے رضوان احمدادا کرناچاہتے ہیں۔دنیا کے ہر موضوع پرقلم برداشتہ لکھنے والوں میں رضوان احمد یوں ممتاز تھے کہ جب اردو دنیا میں کمپیوٹر متعارف ہوا تو وہ لکھنے کی بجائے ’بولنے ‘ لگے۔ مرحوم، کمپیوٹر آپریٹر کے ساتھ بیٹھ جاتے اور کوئی سا بھی موضوع ہو اس پر تسلسل اور روانی کے ساتھ اپنے خیالات کو لفظوں کا جامہ پہناتے جاتے، درمیان میں ٹوکنے یا کسی کے مخاطب کرنے پر بھی نہ تو تسلسل ٹوٹتا اور نہ روانی میں فرق آتا، سلسلہ پھر وہیں سے جڑ جاتاجہاں سے ٹوٹا تھا۔ زبان میں سلاست، روانی اور بلا کی چاشنی تھی۔ان کے اداریوں اور کالم کا مجموعہ ’ مجھے بولنے دو‘ کے نام سے شائع ہوکر مقبول عام ہوچکا ہے۔ صحافی کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری میں بھی انہوں نے اپنا لوہا منوایااور کم و بیش تمام ملک میں یکساں دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ شکیل استھانوی نے اپنی کتاب ’نقوش حیات‘ میں رضوان احمد کے اداریوں کے سلسلے میں عصمت چغتائی کا بیان نقل کیا ہے، عصمت چغتائی لکھتی ہیں : ’’میں تمہاری تحریروں کی فین ہوں۔ میں بتانہیں سکتی کہ تمہارے اداریے مجھے کس قدر پسند ہیں‘‘ عصمت چغتائی جیسی افسانہ اور ناول نگار کا یہ تبصرہ رضوان احمد کی صحافتی مقبولیت کا کھلا ثبوت ہے۔
تہذیب و شرافت، ایمانداری اور دیانتداری کی مثال سید عبدالرافع سے خاکسار کا بھی نیازمندانہ تعلق تھا۔ ’’قومی آواز ‘‘ سے لے کر امارت شرعیہ، بہار و اڑیسہ پھلواری شریف کے ترجمان ’ ’نقیب‘‘تک کی ادارت کرنے والے اس صحافی سے خوش حالی اور بے فکری ہمیشہ کوسوں دور رہی۔اپنی صحافتی زندگی میں مختلف اردوا خبارات کی اقبال مندی کا سبب بننے والے عبدالرافع صاحب کو پے درپے حادثات اورتجربات نے انتہائی رقیق القلب بنادیاتھا۔شکیل استھانوی نے ان کی بابت لکھا ہے: ’’ان سینتالیس سالہ دور صحافت میں جناب عبدالرافع کو اردوا ور اردو صحافتی خدمات کے عوض کیاملا؟ جس شخص نے اردوصحافت کی آب یاری سوزدل اور خون جگر سے کی ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو تنظیموں اور اردو والوں نے انہیں نظر انداز ہی کیا۔… موصوف کو یہ کبھی پسند نہیں رہا کہ وہ سیاسی گلیاروں میں جاکرا پنے ضمیرکا سودا کریں، اپنی ایماندارانہ اور دیانت دارانہ زندگی میں بددیانتی اور حاشیہ برداری کو جگہ دیں، اپنے قلم کی حرمت کو چند کھوٹے سکوں کی خاطر پامال کریں اور اپنی خودداری و انا کو نان شبینہ کیلئے گروی رکھیں۔ بلکہ انہوں نے شہرت و ناموری سے بالاتر سرمایہ حیات کے طور پر فقر و گوشہ نشینی کو ترجیح دی اور استغنا کوپیش نظر رکھا۔۔۔‘‘
مرحوم سید عبدالرافع نے اپنی پوری زندگی صحافت کے نام کردی تھی، کم و بیش نصف صدی تک اردو صحافت کی آبیاری کرنے والا یہ مرد قلندر آخر وقت تک اردو والوں کی بے اعتنائی اور بے حسی کا شکار رہا لیکن حرف شکایت زبان پر نہیں لایا۔
اردو صحافت کی200سال کی تکمیل کا جشن منانے والے ادارے سمینار، سمپوزیم، مشاعرہ اور بریانی کے ساتھ ساتھ اردو صحافیوں کی حالت زار پربھی کچھ توجہ دیںاور عملی اقدامات کریں تو ممکن ہے کہ یہ200سالہ ضعیفہ مزید 200سال تک باقی رہے ورنہ جو حالات ہیں ان میں خدشہ تو یہی ہے کہ اردو صحافیوں کی موجودہ نسل ختم ہونے کے بعد اردو صحافت بھی کہیں دم نہ توڑ دے۔ لہٰذا بقول سودا:
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS