ریٹیل مارکیٹ پر قبضہ کی جنگ

چادر سے باہر پیر پھیلانا تو کاروبار میں ضروری ہے، لیکن یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس چکر میں کہیں چادر نہ پھٹ جائے

0

آلوک جوشی

سپریم کورٹ نے ایمیزن کے حق میں فیصلہ سنایا۔ اڈانی، امبانی کو سپریم کورٹ سے زبردست جھٹکا۔ سپریم کورٹ نے ایمیزن کی پٹیشن پر جو فیصلہ سنایا، اس کے عنوان کچھ ایسے ہی بن سکتے ہیں۔ بہرحال، فیوچر گروپ کے پروموٹر کشور بیانی نے اپنا پورا ریٹیل اور کچھ ہول سیل کاروبار ریلائنس ریٹیل کو فروخت کرنے کا جو سودا کیا تھا، سپریم کورٹ نے اس پر پابندی عائد کردی ہے۔
یہ معاملہ جتنا نظر آرہا ہے، اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ عدالت میں جنگ جیف بیجوس کی ایمیزن اور فیوچر گروپ کے پروموٹر کشور بیانی کے مابین ہی چل رہی تھی اور آج بھی چل رہی ہے۔ لیکن دراصل یہ مقابلہ دنیا کے سب سے امیر آدمی جیف بیجوس اور ہندوستان کے سب سے امیر آدمی مکیش امبانی یا ان کی کمپنیوں کے درمیان ہے۔ اور داؤ پر ہے ہندوستان کا ریٹیل یا خردہ بازار۔
فاریسٹر ریسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق برس2020میں ہندوستان کا ریٹیل کاروبار تقریباً 883ارب ڈالر یعنی تقریباً 65لاکھ کروڑ روپے کا تھا۔ اس میں سے بھی صرف گروسری کا حصہ تقریباً608ارب ڈالر یا45لاکھ کروڑ روپے تھا۔ اسی ایجنسی کا اندازہ تھا کہ 2024تک یہ کاروبار بڑھ کر ایک لاکھ 30ہزار کروڑ ڈالر یا 9لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہوگا۔ یہی وہ بازار ہے جس پر قبضہ جمانے کی جنگ ایمیزن یا ریلائنس ریٹیل کے درمیان چل رہی ہے۔ وہ وقت گیا، جب کشور بیانی ریٹیل کنگ کہلاتے تھے۔ آج تو وہ دو پاٹوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ جیتے کوئی بھی، فیوچر گروپ کی تو جان ہی جانی ہے۔ کشوربیانی کے کاروبار کی کہانی بہت سے لوگوں کے لیے سبق کا کام بھی کرسکتی ہے کہ کیسے ایک ذرا سی غلطی آپ کو بہت بڑی مصیبت میں پھنسا سکتی ہے۔ انہوں نے ایک سودا کیا تھا، تب شاید یہ سوچا تھا کے مستقبل میں یہ ماسٹراسٹروک ثابت ہوگا، لیکن اب وہی گلے کی پھانس بن چکا ہے۔
قصہ تھوڑا لمبا ہے، لیکن ضروری ہے۔ کشور بیانی ریٹیل کنگ کہلاتے تھے۔ زیادہ تر لوگ انہیں پینٹلون اسٹورس اور بگ بازار کے نام سے ہی پہچانتے ہیں۔ جب سے ریٹیل میں غیرملکی سرمایہ کاری کی چرچہ شروع ہوئی، تبھی سے یہ سوال پوچھا جارہا تھا کہ دنیا کے بڑے بارسوخ ریٹیلر جب ہندوستان آئیں گے، تب ان میں سے کون کشوربیانی کو اپنا شراکت دار بنانے میں کامیاب ہوگا۔ ریٹیل کاروبار پر ہندوستان کی بڑی کمپنیوں کی نگاہیں بھی ٹکی تھیں۔ ریلائنس ریٹیل آہستہ آہستہ چلا، لیکن اب وہ ملک کا سب سے بڑا ریٹیلر بن چکا تھا۔

اس دوران مسابقتی کمیشن آف انڈیا (Competition Commission of India)، یعنی سی سی آئی نے ایمیزن کو نوٹس دیا ہے کہ برس 2019 میں فیوچر گروپ کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت اس نے کچھ ضروری چیزوں کو پردے میں رکھا تھا۔ جواز یہ ہے کہ تب دونوں کمپنیوں نے کہا تھا کہ اس معاہدہ کا فیوچر گروپ کے ریٹیل کاروبار سے کوئی رشتہ نہیں ہے، لیکن اب ایمیزن اسی معاہدہ کے سہارے ریٹیل کاروبار کا سودا رکوانا چاہتی ہے۔ سی سی آئی کے پاس یہ اختیار ہے کہ اگر وہ چاہے تو پرانی تاریخ میں بھی وہ فیوچر اور ایمیزن کے سودے کو رد کرسکتا ہے۔

اس درمیان فیوچرگروپ کچھ ایسے جگاڑ میں لگا رہا کہ کسی طرح کمپنی میں اتنا پیسہ لانے کا انتظام ہوجائے کہ وہ بازار میں کمزور نہ پڑے۔ ریٹیل سیکٹر میں غیرملکی سرمایہ کاری کے اصول و ضوابط اس کے راستہ میں رکاوٹ پیدا کررہے تھے۔ ایمیزن جیسی کمپنی بھی ہندوستان میں پیر پھیلانا چاہتی تھی،لیکن آن لائن کاروبار میں لگی کمپنی کے لیے اس میں گھسنا مزید مشکل تھا۔ پھر2019میں فیوچر گروپ سے ایک بیان آیا کہ ان کی ایک کمپنی فیوچر کوپنس لمیٹڈ نے ایمیزن کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور ایمیزن نے اس کمپنی میں 49فیصد حصہ داری خریداری ہے۔ دونوں کمپنیوں نے یہی کہا تھا کہ یہ تو لائلٹی پوائنٹ اور گفٹ واؤچر جیسا کام کرنے والی کمپنی ہے اور اس میں سرمایہ کاری کا گروپ کے ریٹیل کاروبار سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔
یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ چھوٹا سا سودا ہی آگے چل کر بہت بڑا بوال کھڑا کرنے والا ہے۔ شاید کشوربیانی کو یا فیوچرگروپ کے لوگوں کو اندازہ رہا ہو، مگر تب بھی وہ شاید یہ نہیں سوچ رہے تھے کہ ایک دن انہیں اپنا کاروبار ریلائنس کو فروخت کرنا پڑے گا۔ لاک ڈاؤن شروع ہونے کے پہلے ہی کمپنی زبردست پریشانی میں تھی، لیکن لاک ڈاؤن بہت مہنگا پڑا۔ گزشتہ سال اگست میں فیوچر گروپ نے اپنا ریٹیل کاروبار ریلائنس کو فروخت کرنے کا سمجھوتہ کیا۔
یہ معاہدہ ہوتے ہی ایمیزن کے ساتھ اس کے پرانے معاہدہ کا بھوت بیدار ہواٹھا۔ ایمیزن نے اب سامنے آکر بتایا کہ جس فیوچر کوپنس میں اس نے 49فیصد حصہ خریدا تھا، وہ فیوچر ریٹیل میں تقریباً 10فیصد حصہ داری کی مالک ہے، اس ناطے ایمیزن بھی اس کمپنی میں تقریباً 5فیصد کی حصہ دار ہے۔ ایمیزن نے یہ بھی کہا کہ 2019 کے معاہدہ میں ایک ریسٹریکٹڈ پرسنس یعنی ایسے لوگوں اور کمپنیوں کی فہرست تھی، جن کے ساتھ فیوچر گروپ کو سودا نہیں کرنا تھا۔ ریلائنس ریٹیل اس فہرست میں شامل تھی۔
یہ جھگڑا سنگاپور کی بین الاقوامی پنچایت میں پہنچا اور اس نے سودے پر ایک طرح سے اسٹے دے دیا۔ ایمیزن جب یہ فیصلہ نافذ کروانے کے مطالبہ کے ساتھ دہلی ہائی کورٹ گئی تو وہاں سے پہلا حکم اس کے ہی حق میں آیا۔ لیکن اس کے بعد ہائی کورٹ کی ہی بڑی بنچ نے اس فیصلہ کو پلٹ کر سودے پر پابندی لگانے کا حکم خارج کردیا۔ تب معاملہ سپریم کورٹ گیا، جہاں سے گزشتہ جمعرات کو فیصلہ آیا ہے۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کی یہ بات سمجھنی ضروری ہے کورٹ نے صرف یہ کہا ہے کہ سنگاپور کی پنچایت اگر کوئی فیصلہ سناتی ہے تو وہ ہندوستان میں بھی نافذ ہوگا، اسی لیے فیوچر اور ریلائنس کا سودا فی الحال آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اس دوران مسابقتی کمیشن آف انڈیا (Competition Commission of India)، یعنی سی سی آئی نے ایمیزن کو نوٹس دیا ہے کہ برس 2019 میں فیوچر گروپ کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت اس نے کچھ ضروری چیزوں کو پردے میں رکھا تھا۔ جواز یہ ہے کہ تب دونوں کمپنیوں نے کہا تھا کہ اس معاہدہ کا فیوچر گروپ کے ریٹیل کاروبار سے کوئی رشتہ نہیں ہے، لیکن اب ایمیزن اسی معاہدہ کے سہارے ریٹیل کاروبار کا سودا رکوانا چاہتی ہے۔ سی سی آئی کے پاس یہ اختیار ہے کہ اگر وہ چاہے تو پرانی تاریخ میں بھی وہ فیوچر اور ایمیزن کے سودے کو رد کرسکتا ہے۔
یہ پورا معاملہ ملک کے دوسرے کاروباریوں کے لیے سبق ہے۔ چادر سے باہر پیر پھیلانا تو کاروبار میں ضروری ہے، لیکن یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس چکر میں کہیں چادر نہ پھٹ جائے۔ قرض لینے میں بھی الرٹ رہیں اور بڑی کمپنیوں سے رشتے جوڑنے میں تو اور بھی محتاط رہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS