گرتے پہاڑوں سے بگڑتا نیچر کاتوازن

0

پنکج چترویدی

ہندوستان میں برسات ایک نعمت ہے، مانسون ہمارے معاشی اور سماجی نظام کی بنیاد ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے شدت اختیار کرتے ہی پہاڑوں پر بارش ایک قہر کی صورت میں تباہی مچا رہی ہے۔ 2015 سے جولائی 2022 کے درمیان ملک میں پہاڑوں پر لینڈ سلائیڈکے 2239 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں سے سب سے زیادہ مغربی بنگال کے دارجلنگ علاقے میں 376 ہیں۔ تمل ناڈو میں 196، کرناٹک میں 194 اور جموں و کشمیر میں 184 ایسے بڑے واقعات ہوئے جن میں پہاڑ لڑھک گیا، ملک کے کوئی 13 فیصد رقبے کو، جو کہ 4.3 لاکھ مربع کلومیٹر ہے، اب لینڈ سلائیڈکے اندیشوں والا مانا گیا ہے۔ گزشتہ سات سال کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ریاست میں لینڈ سلائیڈکے واقعات میں 10 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق بڑھتی لینڈسلائیڈ کے لیے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پہاڑی علاقوں میں بارش کی بدلتی ہوئی نوعیت اور مبینہ ترقی یا انسانی سرگرمیوں کے سبب پہاڑوں کے سائز اور ان کی ڈھلان میں ہورہی تبدیلی اس کی اہم وجہ ہے۔
نیچر میں جس پہاڑ کی تعمیر میں ہزاروں سال لگتے ہیں، ہمارا معاشرہ اسے ان تعمیرات کے سامان کو اکٹھا کرنے کے نام پر توڑ دیتا ہے جو کہ بمشکل سو سال چلتی ہیں۔ پہاڑ صرف پتھروں کے ڈھیر نہیں ہوتے، وہ علاقے کے جنگل، پانی اور ہوا کی سمت اور دَشا اور دِشا کا تعین کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ جہاں حکومت پہاڑ کے تئیں لاپروا ہے تو پہاڑ کی ناراضگی بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہے۔ اگر زمین پر زندگی کے لیے درخت ضروری ہیں تو درختوں کے لیے پہاڑ کا وجود بہت ضروری ہے۔ درختوں سے پانی، پانی سے اناج اور اناج سے زندگی ملتی ہے۔ گلوبل وارمنگ اور آب ہوا میں تبدیلی کا عالمی مسئلہ بھی جنگلات اجاڑنے سے ہی پیدا ہوا ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ عام ہندوستانیوں کے لیے ’’پہاڑ‘‘ سیاحتی مقامات ہیں یا پھر اس کے قصبے کا پہاڑ ایک خوفناک نظراندازشدہ ڈھانچہ۔ ترقی کے نام پر پہاڑی ریاستوں میں بے حساب سیاحت نے نیچر کا حساب گڑبڑایا تو گاؤں-قصبوں میں ترقی کے نام پر آئی گاڑیوں کے لیے چوڑی سڑکوں کی تعمیر کے لیے زمین بنانے یا کنکریٹ حاصل کرنے کے لیے پہاڑوں کو ہی نشانہ بنایا گیا۔
ہندوستان میں لینڈسلائیڈ کے لحاظ سے سب سے زیادہ حساس علاقوں میں انڈمان اور نکوبار جزائر، مغربی گھاٹ، دارجلنگ، سکم اور اتراکھنڈ آتے ہیں۔ شمال مشرقی ریاستیں، مشرقی گھاٹ، کونکن پہاڑی سلسلے، نیل گیری کے پہاڑوں کو انتہائی حساس علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ ہمالیہ سے دوسری جانب کے علاقے ہماچل پردیش کے لاہول اسپیتی،گجرات سے دہلی تک کے اراؤلی پہاڑ، دکن کا پٹھار، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈاور اوڈیشہ میں لینڈ سلائیڈ کے اندیشے تو ہیں لیکن انہیں کم حساس زمرے میں رکھا گیا ہے۔ اگر ریاست کے لحاظ سے دیکھیں تو اروناچل پردیش میں 71,228 مربع کلومیٹر کے علاقے میں لینڈ سلائیڈ کا قوی اندیشہ ہے۔ ہماچل پردیش میں 42108 مربع کلومیٹر، لداخ میں 40065 مربع کلومیٹر، اتراکھنڈ میں 39009، کرناٹک میں 31323 اور آسام میں 24114 مربع کلومیٹر علاقے لینڈسلائیڈ کا شدید شکار ہیں۔
لینڈ سلائیڈ یعنی اونچائی سے کیچڑ، ملبہ اور چٹانوں کا تیزی سے نیچے آنا۔ اس سے نظام زندگی ٹھہرسی جاتی ہے۔ سڑکیں اور ریلوے لائنیں متاثر ہوتی ہیں۔ اتراکھنڈ میں تو برسات کے موسم میں چین کی سرحد کی طرف تک جانے والے راستوں بدری ناتھ نیشنل ہائی وے پر تقریباً ہر ہفتہ پہاڑ گرتے ہیں۔ اچانک ملبہ-پتھر گرنے سے ایک بڑی رقم کے علاوہ بہت ساری سرکاری املاک کا نقصان ہوتا ہے اور اس کی تعمیر نو میں بھاری رقم خرچ ہوتی ہے۔
ڈھلانوں سے نیچے کھسکنے والا ملبہ ندی-نالوں میں پوری طرح یا جزوی طور رکاوٹ پیدا کردیتا ہے اور ایسے حالات میں بڑے حادثات ہوتے ہیں، اسی سال منی پور کے نونی میں ریلوے ٹریک بچھانے کے کام میں بڑا جانی نقصان ہو یا گزشتہ سال اتراکھنڈ میں رینی کا حادثہ، کسی پانی کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ آنے سے بنی عارضی جھیل اور پھر اس کے پھٹنے سے ہوئے واٹر بم نے جان و مال کے بہت نقصان کیے ہیں۔ پانی کے بہاؤ میں رخنہ پیدا ہونے سے اس کے پانی پر انحصار کرنے والی آبادی کے سامنے صاف پانی کا حصول بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ پہاڑ کے ٹوٹنے سے بڑی مقدار میں ملبہ گرتا ہے جو کہ ندیوں کو بھر دیتا ہے، ایسے میں اگر برسات بھی ہو رہی ہو تو سیلاب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
لینڈسلائیڈ کی سب سے بڑی وجہ تو زمین سے ہریالی کی چھتری کا کم ہونا ہے۔ حکومت نے اروناچل پردیش کو لینڈ سلائیڈ کے لیے سب سے زیادہ حساس سمجھا ہے، وہاں 2021 میں 257500 مربع کلومیٹر میں جنگلات کی کٹائی ریکارڈ کی گئی، شمال مشرقی ریاست تو پہاڑ گرنے سے سب سے زیادہ متاثر ہے اور یہاں جنگلات کی کٹائی سب سے زیادہ ہے۔ ہمالیائی علاقہ درختوں کی اندھا دھند کٹائی کی وجہ سے لینڈ سلائیڈ کی زد میں آگیا ہے۔
درختوں کی غیر موجودگی میں مٹی اور چٹانوں کو باندھ کر رکھنے والی قدرتی خصوصیات کم ہو جاتی ہیں۔ بغیر درختوں کی زمین پر بارش کی بوندیں گولی کی تیزی سے چوٹ کرتی ہیں جس سے مٹی کی اوپری پرت کمزور ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جیولوجیکل سروے آف انڈیا نے بھی تصدیق کی ہے کہ اندھادھند جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے مغربی مہاراشٹر اور کونکن کے علاقے میں لینڈسلائیڈ میں اضافہ ہوا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں پہاڑوں کے گرنے کی ایک وجہ جھوم کاشت بھی ہے جس کے لیے جنگلات کو جلانے سے زمین کی اوپری تہہ کو شدید نقصان پہنچتا ہے، جب تیز بارش ہوتی ہے تو زمین کا کٹاؤ ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ علاقے لینڈ سلائیڈ کے لیے زیادہ حساس سمجھے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ ہمالیہ کا پہاڑ نہ صرف ہر سال بڑھ رہا ہے بلکہ اس میں ارضیاتی اٹھاپٹخ چلتی رہتی ہے۔ یہاں درخت زمین کو باندھ کر رکھنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں جو کہ کٹاؤ اور پہاڑوں کے گرنے سے روکنے کا واحد طریقہ ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمالیہ کے زلزلے والے علاقے میں ہندوستانی پلیٹ کا یوریشین پلیٹ کے ساتھ ٹکراؤ ہوتا ہے اور اسی سے پلیٹ باؤنڈری پر تناؤ توانائی جمع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے کرسٹل سکڑ جاتے ہیں اور چٹانوں کی شکل خراب ہوجاتی ہے۔ یہ توانائی زلزلوں کی صورت میں کمزور علاقوں اور فالٹس کے ذریعے سامنے آتی ہے۔ جب پہاڑ پر توڑ پھوڑ یا دھماکے ہوتے ہیں، جب اس کی قدرتی شکل سے چھیڑچھاڑ ہوتی ہے تو دہلی تک زلزلے کے خطرے تو بڑھتے ہی ہیں، جمنا میں پانی کم ہونے کا بحران بھی پیدا ہوتا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید اور بے ترتیب بارشیں پہاڑوں کے گرنے کی بڑی وجوہات ہیں۔ اتراکھنڈ میں لینڈ سلائیڈ کے تین چوتھائی واقعات بارش کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ کماؤں ہمالیائی خطے کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ زلزلوں کی وجہ سے لینڈ سلائیڈ کی زد میں ہے۔ دنیا کے سب سے کم عمر اور زندہ پہاڑ کہلانے والے ہمالیہ سے ماحولیاتی چھیڑ چھاڑ کئی بار اپنی بھیانک شکل دکھا چکی ہے۔ پہاڑیوں کی ناراضگی کی سب سے بڑی وجہ کان کنی ہے۔ کان کنی یا کھدائی جیسی انسانی من مانی سبزے اور مٹی کی اوپری تہہ (ٹاپ سوائل) کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس سے زمین میں پانی کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے، نتیجتاً سیلاب کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے زلزلوں اور شدید بارشوں کے دوران زمین کے ٹکڑے گرنے لگتے ہیں۔
پہاڑ کو سب سے بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی شہرکاری اور پھر وہاں عوامی سہولیات میں اضافے کے لیے کیے جارہے تعمیراتی کاموں سے ہے۔ دھرم شالہ ہو یا نینی تال، ہر جگہ کنکریٹ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور وہاں پہاڑ سے پتھر-ملبہ گرنے میں سال بہ سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اگر پہاڑ سے گرنے والی آفت سے نجات پانا ہے تو پہاڑوں پر ہریالی کو بڑھانا ہوگا۔ دریا- ندی کے کناروں پر کیچمنٹ ایریا کو جتنا زیادہ کھلا رکھیں گے، وہاں پانی جمع نہیں ہوگا اور اس سے مٹی کمزور نہیں ہوگی۔ پہاڑوں پر مویشیوں کے زیادہ چرنے کو بھی کم کرنا ہو گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS