شعبہ سنسکریت میں مسلم ٹیچر کی تقرری پر احتجاجی مظاہرے جاری،انتظامیہ اپنے موقف پر قائم،فیروز خان نے بنارس چھوڑا

    0

    بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ سنسکریت ودیا دھرم میں ایک مسلم ٹیچر فیروز خان کی تقرری کو لیکر احتجاجی مظاہروں نے سنگین رخ اختیار کر لیا ہے۔جس کی وجہ سے تعلیمی نظام بری طریقے سے متاثر ہوا ہے۔ طلباءگزشتہ 13دنوں سے احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔
    جہاں سنسکریت ادب کے30 طلباءکا ایک گروپ 13دنوں سے بی ایچ یو کے وائس چانسلر راکیش بھٹناگر کے دفتر کے باہر احتجاج کررہا ہے،جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پروفیسر خان کی تقرری منسوخ کی جائے اور نئی تقرری کی جائے۔طلباءاس حد تک مشتعل ہوچکے ہیں کہ انہوں نے وائس چانسلر پروفیسر راکیش بھٹناگر کی گاڑی پر خالی بوتل پھیکی ہیں۔
    مظاہروں نے اسسٹنٹ پروفیسر فیروز خان کو بنارس چھوڑنے پر مجبور کردیا اور وہ اپنے آبائی وطن جے پور واپس چلے گئے ہیں۔فیروز خان کے جانے کے بعد مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں، جب کہ یونیورسٹی انتظامیہ اپنے موقف پر قائم ہے۔
    اس معاملے میں یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فیروز خان کو اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ اس عہدے کے لئے مناسب ہیں اور ان کی تقرری کے دوران تمام طریقہ کار پر عمل کیا گیا ہے۔یونیورسٹی نے گذشتہ ہفتے دو بیانات جاری کیے،جس میں کہا گیا ہے کہ بی ایچ یو سب کو مساوی تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ فیروز خان اپنی تقرری کے بعد سے ہی یونیورسٹی احاطے میں نہیں آئے ہیں اور فون کا بھی جواب نہیں دے رہے ہیں۔
     اس پورے معاملے پر بنارس ہندو یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردوپروفیر آفتاب احمد آفاقی نے کہاکہ ابھی فیروز خان نے استعفیٰ نہیں دیا ہے، لیکن افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔یہ پورا معاملہ ہندو اور مسلمان کیا جارہا ہے۔ جب کہ انتظامیہ نے اس کی تقرری اس کی لیاقت کی بنیاد پر کی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کسی زبان کو مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں ہے ۔ کیوں کہ کسی بھی زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔زبانیں وسیلہ اظہار کا نام ہے۔مظاہرے اب تک جاری ہیں۔ یہ یونیورسٹی کی بدنامی ہے۔یونیورسٹی لڑکے کے ساتھ کھڑی ہے۔
    اس معاملے پر سیاست بھی شروع ہوچکی ہے اور مظاہرین کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے شہہ بھی مل رہی ہے۔ اس ضمن میں وشو ہندو پریشد نے بھی بی ایچ یو میں فیروز خان کی تقرری کو غلط قرار دیا ہے۔
    فلم اداکار پریش راول بھی فیروز خان کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ انہوں ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی بھی زبان کو مذہب سے لینا دینا نہیں ہے۔ اگر فیروز خان نے ایم اے اور پی ایچ ڈی سنسکریت میں کیا ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔پریش راول نے مزید لکھا ہے کہ فیروز خان کی مخالفت کرنا بے وقوفی ہے۔اس حساب سے محمد رفیع کو بھی بھجن نہیں گانا چاہئے تھا اور نوشاد صاحب کو اسے کمپوز نہیں کرنا چاہئے تھا۔پریش راول کا یہ ٹویٹ خوب وائرل ہورہا ہے۔
     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS