’ایپ‘ شرارت نہیں سازش

0

محمد حنیف خان

اکیسویں صدی کو روشنی اور امید کی کرن کے طور پر دیکھا گیا ہے۔امید یہ تھی کہ اس میں ہر طرح کے اندھیرے بہت تیزی کے ساتھ دور ہوں گے اور روشنی ہماری زندگیوں کو منور کرے گی۔زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کو اگر دیکھا جائے تویہ خواب حقیقت میں تبدیل ہوتا بھی دکھائی دیاہے مگر اس صدی کا صرف ایک یہی زاویہ اور رخ نہیں ہے، اس کا دوسرا زاویہ نہایت کریہہ اور بدنما ہے۔جہاں ایک طرف ترقی، خوشی اور روشنی ہے، وہیں دوسری جانب اندھیرا، استحصال، مکروفریب، منافرت اور مذہبی منافرت ہے۔اس کے ساتھ ہی جنس اور مذہب کی بنیاد پر ہندوستان میں خلیج میں مزید اضافہ ہوا ہے۔اکیسویں صدی کی دنیا کا جو رقبہ مادی اور حقیقی ہے، اس سے کہیں زیادہ جگہ غیر مادی لیکن بدیہی ہے جسے ہم آن لائن کی دنیا کہتے ہیں۔انٹر نیٹ کی دستیابی اور آن لائن گفت و شنید کے ساتھ ہی کاروباراس اکیسویں صدی کا شناخت نامہ ہے۔مگر اس شناخت نامے میں جگہ جگہ دھبے اور بدنما داغ پڑگئے ہیںجس کی سب سے بڑی وجہ وہ فکر ہے جس نے انسان کو انسان بننے سے پہلے مذہبی جنونی اور شدت پسند بنادیا ہے جسے اسلاموفوبیا سے تعبیر کرنا چاہیے۔کسی فوبیا میں انسان کسی خاص فکر کے حصار میں رہتا ہے مگر یہاں تفوق کی ذہنیت نے انسان کو ایک بھیڑیے میں تبدیل کردیا ہے جو کسی میمنے کو ہر طرف سے بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر نوچ ڈالنا چاہتا ہے۔اس کے اس جنون نے جنس کو بھی ذہن سے نکال دیا ہے۔
جنس کے معاملے میں اکیسویں صدی کو بہت تبدیل شدہ تصور کیا جاتا ہے۔شہر تو دور دیہی علاقوں میں بھی اب یہ شعور آگیا ہے کہ خواتین اور مرد دونوں نہ صرف برابرہیں بلکہ خواتین خواہ کسی بھی مذہب کی ہوں وہ قابل تکریم و تقدیس ہیں اور جو شخص یا معاشرہ خواتین کی عزت و تکریم نہیں کرتا، ان کو سماج میں ان کا حق نہیں دیتا اس کو غیر متمدن اور غیر ترقی یافتہ تصور کیا جاتاہے۔جب انسان روشنی سے دور تھا،اس کے دماغ پر جالے لگے ہوئے تھے عورت کی عزت و تکریم نہیں تھی کیونکہ ان کو مال و متاع کی نظر سے دیکھا جاتا تھاتو ان کی خرید و فروخت بھی ہوتی تھی،ان کو غلام اور داسی بھی بنایا جاتا تھا۔ہم سمجھتے ہیں کہ وہ دور چلا گیا اب روشنی نے انسانوں کے ارد گرد کو روشن کردیا ہے،مگر ایسا نہیں ہے آج بھی ان کی خرید و فروخت ہوتی ہے بس طریقہ بدل گیا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کی حرکتیں کرنے والے فکری طور پر پسماندہ اور نفرت سے بھرے زہر کے پیالوں کے خلاف کارروائی کیلئے قانون نہیں ہے۔ آرٹیکل نمبر21 زندگی کا حق اور عوام کی آزادی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000کے سیکشن 66 ای۔کسی کی زندگی کا کوئی بھی ذاتی حصہ عوام کی نظر میں بغیر اس کی اجازت کے نہیں لایا جاسکتا ہے۔اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو اس کو تین برس کی قید یا دو لاکھ روپے تک کی سزا ہوسکتی ہے۔پولیس کو اس معاملے میں اپنا فرض منصبی ادا کرتے ہوئے مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔

اکیسویں صدی کی اس روشنی میں اگر خواتین کی بولی لگنے لگے،ان کی تصاویر اور ذاتی کوائف فروخت کیے جانے لگیں اور روزانہ کی بنیاد پر کسی جگہ صبح ہی صبح اس کی تصویر پیش کرکے بولی لگائی جائے تو اندازہ لگایئے اس سماج اور معاشرے کا کیا حال ہوگا۔افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان میں سخت آئی ٹی قوانین کے باوجود Sulli Dealsجیسے ایپ بن جاتے ہیںاور ان پرلڑکیوں کی بولی لگنے لگتی ہے۔ Sulli/Sullaایک طرح کی گالی ہے جو مسلمانوں کو دی جاتی ہے۔ الفاظ ہماری ذہنیت کے عکاس ہوتے ہیں، جن کے پیچھے سے پوری ایک ایک فکر جھانکتی اور تاکتی نظر آ تی ہے،لفظ Sulliایپ بنانے والوں کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ وہ مسلم خواتین کو کس نظرسے دیکھتے ہیں۔مسلم خواتین کو پریشان کرنے اوران کی توہین کرنے کے لیے نیچے گرنے کی یہ آخری حدہے جس میں نفرت اور زہر بھی بھرا ہوا ہے۔یہ جنس کو گالی دینے کے ساتھ ہی مذہب اور پورے سماج سے نفرت کی بھی علامت ہے۔
اس ایپ پر نفرت کی آگ میں جلنے والے ناخواندہ افراد نہیں ہیں بلکہ وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں جن کی تربیت ایک خاص نہج پر ہوئی ہے ،اسی لیے وہ مسلم عورتوں کو اپنا شکار بناتے ہیں تاکہ ان کا ایجنڈا آگے بڑھے۔یہ لوگ پڑھی لکھی مسلم خواتین کو نشانہ بناتے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ ٹوئٹر، فیس بک اور دیگر ویب سائٹ پر ناخواندہ خواتین نہیں ہیں بلکہ سماج کی باشعور لڑکیاں/خواتین ہیں،جوپڑھی لکھی ہیں،بولنے والی ہیں، ہر مسئلے پر اپنی رائے کا نہ صرف اظہار کرتی ہیں بلکہ اپنے وجود کا احساس کراتی ہیں ،وہ اپنی فیلڈ کی ماہر ہیں،وہ اپنی دنیا خود بناتی ہیں،ان میںآگے بڑھنے اور کچھ کرنے کا جنون ہے ،وہ اس دنیا کے وجود تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں جہاں خواتین کی عزت نہ ہو، اس لیے کھل کر جنس پر مبنی جانبداری کی وہ مخالفت کرتی ہیں۔ جن کی تصاویر اور ذاتی معلومات کو فروخت کے لیے اس ایپ پر پیش کیا گیا۔خود سوچئے کہ اگر صبح آپ کی آنکھ کھلے یا رات میں بستر پر جاتے وقت آپ موبائل کھولیں اور آپ کی بہن یا بیٹی تصویر کے ساتھ فروخت کے لیے موجود ہو توآپ پر کیا گزرے گی اور اگر کوئی عورت ہے اور خود اس کی تصویر نیلامی کے لیے لگی ہو تو اس کی ذہنی حالت کا اندازہ لگایئے۔اس ایپ کے ذریعہ مسلم خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔
در اصل یہ صرف شرارتاً ایسا نہیں کیا گیا ہے ورنہ سماج کے ہر طبقے کی عورتوں اورلڑکیوں کی تصویر ہوتی، یہ ایک سازش اور منصوبہ کے تحت کیا گیا ہے تاکہ وہ مسلم خواتین جو با اختیار ہیں یا اس جانب قدم بڑھا رہی ہیں ان کے قدم کو روکا جا سکے۔ایک طرف وزیراعظم خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے مختلف اسکیمیں بنا رہے ہیں،ان کو گھر کا سربراہ مان کر سرکاری دستاویز میں اس کو جگہ دے رہے ہیں تو دوسری جانب مذہبی نفرت کی آگ میں جلنے والے لوگ ان ہی خواتین کو استحصال کا شکار بنا رہے اور ان میں یہ خوف پیدا کررہے ہیں کہ تم محفوظ کہیں بھی نہیں ہو۔
لڑکیاں ہندو مسلمان میں تقسیم نہیں ہیں، وہ صرف لڑکیاں ہیں جو اپنے تعمیری کردار اور تخلیقی ذہن سے ملک کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔اس کے باوجود ’’دھرم کی رکشا‘‘اور اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے Sulli Dealجیسا ایپ بنا کر نہ صرف ان کی توہین کی گئی ہے بلکہ حقیقت میں مسلم خواتین میں خوف پیدا کرکے ان کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مرد اساس سماج اور پدرسری نظام سے ایک سوال ہے کہ آخر وہ کیوں خواتین کو محدود رکھنا چاہتے ہیں ،وہ کیوں یہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ سماج کی نصف بہتر ان کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق چلیں؟آخر کیوں ان کی نظر میں آج بھی عورت محض جسم ہے۔اس سے آگے وہ کیوں نہیں دیکھ سکے؟یہ ایپ اور اس پر خواتین کی چھیڑچھاڑ کی ہوئی تصاویر کی خرید و فروخت یہ واضح کرتی ہے کہ سماج آج بھی خواتین کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔اس کی نظر میں عورت جسم سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ ایک خاص فکر ، مذہبی شدت پسندی اور اس کے جنون میں عورت ہی کیوں اس کا سب سے آسان ترین شکار ہوتی ہے؟ گزرے زمانے میں جب جنگیں ہوتی تھیں تو ان کی فتح و شکست کا پیمانہ یہ بھی ہوتا تھا کہ مخالف کی کتنی عورتوں کی بے حرمتی کی گئی اور ظفرمند فوج نے اس طبقے کی کتنی عورتوں کی کوکھ میں اپنا وجود پہنچا دیا ہے۔آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں جس طرح سے یہ حملے ہو رہے ہیں وہ متمدن دنیا کے لیے باعث شرم ہے لیکن سب کے سب خاموش ہیں۔Sulli Dealsجیسے ایپ کے خلاف غصہ تو پایا جاتا ہے مگر اس کا نتیجہ بر آمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے کیونکہ ابھی تک کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔وہ پولیس جو پریشر کوکر کے اٹھانے کو دہشت گردانہ حملے کی سازش میں اپنی سراغ رسانی سے بدل دیتی ہے، وہی Gethub کے سی ای او سے Sulli Deals ڈیزائن کرنے والوں کا پتہ اور فون نمبر پوچھ رہی ہے۔قومی خواتین کمیشن بھی ابھی تک خاموش ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ قومی خواتین کمیشن فوری طورپراس کے خلاف میدان میں آجاتا کیونکہ یہاں پورے ایک معاشرے/طبقے کی خواتین کو منصوبہ بند طریقے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کی حرکتیں کرنے والے فکری طور پر پسماندہ اور نفرت سے بھرے زہر کے پیالوں کے خلاف کارروائی کے لیے قانون نہیں ہے۔ آرٹیکل نمبر 21زندگی کا حق اور عوام کی آزادی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000کے سیکشن 66ای۔کسی کی زندگی کا کوئی بھی ذاتی حصہ عوام کی نظر میں بغیر اس کی اجازت کے نہیں لایا جاسکتا ہے۔اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو اس کو تین برس کی قید یا دو لاکھ روپے تک کی سزا ہوسکتی ہے۔پولیس کو اس معاملے میں اپنا فرض منصبی ادا کرتے ہوئے مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔وہ اپنے عمل سے یہ نہ ثابت کرے کہ مسلم لڑکیاں ان کے لیے آسان شکار ہیں ورنہ ان کی جگہ کل غیرمسلم لڑکیاں بھی ہوسکتی ہیں۔اسی طرح سے اکثریتی فرقہ کو بھی مذہبی شدت پسندی کو بالائے طاق رکھ کر انسانی نقطہ نظر سے ان لڑکیوں کی حمایت میں آواز اٹھانا چاہیے۔اگر ہر طبقہ ان اوباشوں کی حوصلہ شکنی کرے اور حکومت پر دباؤ ڈالے کہ اس کے ادارے قانونی کارروائی کریں تو اکیسویں صدی میں ترقی کی جانب لڑکیوں کے بڑھتے قدم کو کوئی نہیں روک سکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS