اینگلو عربک اسکول کی شاندار تاریخ اور عصر حاضر

0

محمداطیب صدیقی
فیروز بخت احمد
اگر یہ کہا جائے کہ دنیا کا اہم و اعلیٰ ترین کتابوں کی اشاعت کا مقتدر ادارہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ہے تو بے جا نہ ہوگا، کیونکہ دنیا کے اہم ترین کتابوں کی یہ اشاعت کرتا چلا آیا ہے، جس میں اب ، ’’دا اسکول ایٹ اجمیری گیٹ:دہلی زایجوکیشنل لیگیسی‘‘ کا نام بھی جڑ چکا ہے۔ یہاں پر شائع ہونے والی کتابوں کو بڑی جدوجہد اور جہاد کے بعد شائع ہونے کی اجازت ملتی ہے، یہ محمد اطیب صدیقی اور پروفیسر عذرا رزاق کی مشترکہ کاوش ہے جس کو مختلف مرحلوں سے گزر کر ، اشاعت کی اجازت ملی یہ کتاب نہ صرف ایک اسکول کی زریں تاریخ کہ بیان کر تی ہے ، بلکہ اپنے اطراف کے تمام لوگوں کو اس قدر کھینچتی ہے کہ پڑھنے والے کو بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس کتاب میں نہ صرف اسکول کا حوالہ ہے بلکہ مسلم قوم کے مختلف ادوار کی عکاسی اس کے ذریعہ ہو جاتی ہے ، جس سے ان وجوہات کا حوالہ ملتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ وہ قوم کہ جس نے اپنی 1400 سالہ روایت میں نقلی چاند تک بنا لیا تھا اور اینگلو عربک اسکول جیسے ادارے ، نایاب فن تعمیر وغیرہ کو دریافت کیا تھا، آخر آج اتنا کیوں پچھڑ گئی ۔ صدیقی نے اس کتاب کو مکمل کرنے کے لئے پچھلے دس سال میں لندن اور دہلی کی نہ جانے کتنی لائبریریوں میں وقت کھپایا ہے۔کتاب میں تفصیل سے اس بات کا بھی ذکر ہے کہ آخر ہم لوگ خود اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے تعمیر کردہ اداروں کو کیوں تہس نہس کردیتے ہیں۔ یہ کتاب ان کتابوں میں نہیں ہے کہ جنہیں تحریر کر کے وشائع کرواکے شیلفوں پر سجا دیا جاتا ہے، بلکہ رہتی دنیا تک یہ کتاب اس ادارے، قوم وملک کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگی۔
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہو کہ جس نے بیک وقت بطور ایک مدرسہ ،ایک اسکول اور ایک کالج ملک وملت کی پچھلے 330سال سے تعلیمی ، ثقافتی وکھیل کے میدان میں خدمت کی ہو ۔آج بھی یہ ادارہ اینگلوعربک اسکول کے نام سے وقت کی آندھیوں اور مصائب جھیل کر دارالخلافہ دہلی کے فصیل بند خطہ شاہ جہاں آباد کے اجمیری دروازہ کے نزدیک تقریباً ۹ایکڑ رقبہ میں قوم کی علمی خدمات کررہا ہے۔بقول گیل ، مائنولٹ ، ٹیکسس یونیورسٹی امریکہ، اطیب صدیقی اور عذرا رزاق کے یہ کتاب ہمیں مسلم ثقافت، شاہجہاں آباد اور قلعہ معلیٰ کے اردگرد بسی مخلوق کی روزمرہ زندگی اور جینے کی جدوجہد کا پتہ بھی دیتی ہے۔ اسی ضمن میں معروف ہندوستانی تعلیمی ایکسپرٹ، پروفیسر کرشن کمار کا کہنا ہے کہ کتاب کا بہترین پہلو اس کا انداز بیاں اور ہے ۔ روزمرہ زندگی کی حرکات و سکنات سے لی گئی مختلف قسم کی جستجو کو بھی یہ کتاب منظر عام پر لائی ہے۔ مثال کے طور پر پرانی دہلی کی مختلف سرگرمیاں، جیسے ، کارچوب ، کشیدہ کاری، قلعی گیری ،رنگریزی و بھشتی کا اپنے مشکیزے سے تانبے کے کٹورے میں پانی پلانا، بٹیر بازی ، پتنگ بازی، پہلوانی ، پٹے بازی وغیرہ کا بھی اس کتاب میں بڑا دلچسپ ذکر ہے۔
اینگلو عربک اسکول دراصل ہندوستان و ایشیا کا ہی نہیں بلکہ تمام دنیاکا ایک ایسا واحد تعلیمی ادارہ ہے ، جو سواتین صدی قدیمی ہونے کے باوجود، آج بھی پرانی دہلی کے طلبا و طالبات کو فیض پہنچا رہا ہے ۔ اس اسکول کی تاریخ کو جس انداز سے اس کتاب میں جلوہ افروز کیا گیا ہے، وہ خود اپنے میں ایک خاص الخاص معرکہ ہے۔ عربک اسکول کے ابنائے قدیمی میں کچھ نام ایسے ہیں کہ جو ہمیشہ کے لئے، نہ صرف تعلیمی شعور بیدار کرنے کے لئے ، بلکہ اس ادارہ کو تاریخی صورت دینے کے لئے ہمیشہ آگے رہیں گے۔ مثال کے طور پر سر سید احمد خان (بانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)، لیاقت علی خان (پاکستانی سابق وزیر اعظم)،حضرت مولانا قاسم ناناتوی ؒ (بانی ، دارالعلوم دیوبند)، علامہ الطاف حسین حالی(مشہور شاعر )، مولانا محمد حسین آزاد (اردو ڈکشنری کے موجد)، ڈپٹی نذیر احمد (آئی۔سی۔ ایس۔اور معروف ناول نگار)، اختر الایمان، سکندر بخت(سابق وزیر)، شمیم کرہانی (شاعر) ، مرزا ایم۔ این۔ مسعود(ہاکی اولمپیین)، خواجہ احمد فاروقی، اردو داں، حبیب جالب (معتبرشاعر)، پنکج ووہرا (سابق ’’ہندوستان ٹائمز ‘‘ایڈیٹر)، م۔ افضل (مدیر ’’اخبار نو‘‘و سیاستداں)،شعیب اقبال (ایم۔ا یل۔ اے۔) ہارون یوسف (سابق ایم۔ایل۔ اے۔) وغیرہ۔
یہاں سے فارغ دیگر نمایاں طالب علموں میں جاں نثار اختر (مشہور،شاعر)، پروفیسر گوپی چند نارنگ(اردو داں)، جے۔ این۔ دیکشت، پروفیسراے۔ این۔ کول، شاہد صدیقی(مدیر، ’’نئی دنیا‘‘)، جگدیش ٹائٹلر(کانگریس لیڈر)، اسد فاروقی (پولیس)، شجاع خاور (پولیس)، نوید ممتاز (پولیس) ، مسلم احمد نظامی، جناب محمود قریشی، مرزافرید بیگ، جناب ضیاء السلام (معاون مدیر: روزنامہ’’دا ہندو‘‘) محمد شکیل قریشی وغیرہ نمایاں شخصیات ہیں۔
جہاں تک اسکول کی تاریخ کا تعلق ہے تو بخوبی 1758اور 1857سے لیکر 1947اور موجودہ دور، یعنی 2022تک کی تاریخ اس میں بیان کی گئی ہے۔ اس کی بنیاد 1692ء میں عالمگیر اور نگزیب ؒ کے دربار کی ایک عالم وفاضل شخصیت نظام الملک آصف جاہ کے بیٹے نواب غازی الدین خان نے ڈالی تھی ۔بعد میں یہ ادارہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ اینگلو عربک اسکول، اینگلو عربک کالج اور دلی کالج کے نام سے عصری تعلیم بھی دینے لگا۔
جہاں اینگلو عربک اسکول میں تاریخ کے کچھ تباہ کن تھپیڑوں کو جھیل ، اسی طرح سے جب 2005میں یہاں سے اسکول کی کلاسوں پر قابضین لوگوں کو راقم الحروف کی ہائی کورٹ میں داخل کی گئی فلاح عامہ عرضی پر ، باہر نکالا گیا تو اس وقت قابضین راقم کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے اور اس کا قتل کرنے پر تلے تھے ۔ جب بلڈوزر غیر قانونی تعمیرات کو زمین دوز کر رہا تھا تو راقم اسکول کے اندر ہی موجود تھا اور قابضین ہاتھ میں دھاردار ہتھیار لئے اسے ڈھونڈ رہے تھے وہ تو خدا کا شکر ہے کہ اس دن اس کی جان بچ گئی ۔اس کے بعد راقم نے جو کہ اسکول کی گورننگ باڈی کا بھی ممبر ہے، اس وقت کے اسکول کے منیجر کے ساتھ مل کر ، بڑے ذوق و شوق کے ساتھ، ان لوگوں کے ذریعہ کئے گئے ترقیاتی کاموں کو میڈیا کے ذریعہ بخوبی سراہا، جس میں اسکول کا نیا آڈیٹوریم، کلاس روموں و فرنیچر کی مرمت ، اسکول کے فٹ بال گراؤنڈ کی مرمت و انٹر اسکول فٹ بال ٹرافی ، ہندی اردو و انگریزی مباحثہ ، ثقافتی پروگرام وغیرہ شامل ہیں۔
1828ء میں جب یہاں انگریزی میڈیم سے تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا تو شروعات میں تو مسلمانوں نے اس کی شدید مخالفت کی مگر بعد میں اس میں ذوق وشوق سے حصہ لینے لگے ۔1829ء میں اعتمادالدولہ نواب میر فضل علی خان وزیر اعظم سلطنت اودھ نے انگریز کمپنی بہادر کومسلم بچوں کی تعلیم کے لئے ایک لاکھ ستر ہزار کی رقم عنایت کی جس کی تختی آج بھی اسکول کی سابقہ کیمسٹری تجربہ گاہ پر نصب ہے ۔ترقی کی راہ پر گامزن اس ادارہ میں 1832ء میں ترجمہ کرنے کا ایک شعبہ بنایاگیا جس کا نام تھا ’’ورنیکُلر ٹرانسلیشن سوسائٹی‘‘(Vernacular Translation Society)جس کے تحت سیکڑوں کتابیں انگریزی، فرانسیسی، جرمن، لاطینی، ہندی، وسنسکرت سے اردو ،فارسی اور عربی میں ترجمہ کی گئیں۔غدر کے دوران یہ قیمتی اثاثہ اسکول کی لائبریری میں نذر آتش کردیاگیا۔ 1844ء میں کالج کو داراشکوہ کے شاہی کتب خانہ کی عمارت میں منتقل کردیا ۔
نہات خوبی کے ساتھ اس کتاب میں دہلی کی فٹ بال کی تاریخ کااحاطہ کیا گیا ہے اور اینگلو عربک اور دہلی کالج کے مایہ ناز فٹ بال کھلاڑیوں ، جیسے منظور احمد خان، شجاعت اشرف، سریندر کمار وغیرہ کا ذکر ہونے کے ساتھ ساتھ دہلی کی فٹ بال ٹیموں، جیسے شملہ ینگس، دہلی اسٹوڈنٹ کے علاوہ موہن بگان، ایسٹ بنگال ، محمڈن اسپورٹنگ ، آر۔اے۔سی۔ بیکانیر،بارڈر سیکورٹی فورسز ، پنجاب پولیس، لیڈرز کلب جلندھر، ٹاٹا ایف۔ سی۔ ، ٹائٹینیم کلب، تاج کلب(ایران) وغیرہ جیسے فٹ بال کلبوں کا بھی ذکر ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طریقہ سے اینگلو عربک اسکول و دلی کالج کے طلبا کے لئے اسٹیڈیم میں ایک خاص خطہ بھی محفوظ ہوا کرتا تھا ۔اینگلو عربک اسکول ، کہ جس کی دائمی زندگی کے حصے مدرسہ غازی الدین خاں اوردہلی کالج رہے ہیں، ان میں سے کسی دور رس سوچ اور قوم کی فکر کئے بغیر، ادارہ کے دہلی کالج والے حصے کو ختم کر دیا گیا۔دہلی کالج مرحوم اس لئے ہوا کیونکہ 1969ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین کے انتقال کے بعد ان کے کچھ چاہنے والے مسز اندراگاندھی کے پاس گئے اور کہا کہ ان کے نام میں ایک کالج قائم کیاجائے ۔یہ بات منظور کرلی گئی مگر کچھ حضرات کو جلدی تھی کہ فوراً یہ ادارہ قائم کیا جائے۔لہذا سرکار نے یہ کیا کہ ان حضرات کے ساتھ بیٹھ کر تاریخی دلی کالج کا نام تبدیل کرکے ذاکر حسین کالج رکھ دیا۔اس سے ایک نقصان تو یہ ہوا کہ تاریخی دلی کالج کا خاتمہ ہوا اور دوسرایہ کہ ایک نئے کالج کا منصوبہ خاک میں مل گیا۔اگر یہی چند حضرات دوراندیشی سے کام لیتے تو آج دلی کالج مرحوم نہ ہوکر اپنی پوری آب وتاب سے چل رہاہوتااور ساتھ ہی ایک دوسرا ادارہ بھی ملک وقوم کو مل گیا ہوتا، جو ہمارے بچوں کو عمدہ تعلیم سے فیضیاب کرتا۔
اے۔202،ادیبہ مارکیٹ واپارٹمنٹس نزدرحمانی مسجد،
مین روڈ ، ذاکر نگر ، نئی دہلی 110 025–

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS