محمد حنیف خان
امارت و غربت زندگی کے دو رنگ ہیں،پہلا اگر خوش رنگ ہے تو دوسرا بدرنگ،لیکن یہ دونوں ایک ساتھ مل کر کسی ملک کو نہ صرف آگے بڑھاتے ہیں بلکہ اس میں توازن بھی قائم رکھتے ہیں۔ہماری زندگی کی بنیاد ان ہی دونوں پر ہے۔دونوں کی زندگی میں خوشیاں ایک دوسرے کی وجہ سے آتی ہیں۔قدرت کا نظام بھی یہی ہے کہ وہ دونوں کو جوڑ کر ہماری زندگی کی بنیاد رکھتا ہے اور اس پر زندگی کی عمارت کھڑی کرتا ہے۔مگر سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ان دونوں میں عدم توازن از حد بڑھ جائے جس کی وجہ سے زندگی تہہ وبالا ہونے لگے۔اس وقت ملک کا یہی حال ہے۔ایک طرف پانچ ٹریلین کی معیشت کا عزم ظاہر کر کے اس پر تندہی سے کام کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف بے روزگاری اپنے پاؤں پسار رہی ہے۔معیشت /آمدنی میں اضافے کا ڈھول بہت زور و شور سے پیٹا جا رہا ہے مگر غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے،جس سے ملک عدم توازن کا شکار ہورہا ہے۔پڑھے لکھے لوگوں کے ہاتھوں کو کام نہیں مل رہا ہے،وہ ایم اے اور پی ایچ ڈی کر کے چائے خانے کھول رہے ہیں کہ کسی طرح زندگی کی گاڑی آگے بڑھائی جاسکے تو دوسری طرف کچھ ایسے افراد بھی ہیں جن کی دولت میں یومیہ کروڑوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔
ان حالات کے درمیان ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس عدم تواز ن کا ذمہ دار کون ہے؟بادی النظر میں تو ایسا لگتا ہے کہ حالات ذمہ دار ہیں جن کی وجہ سے امارت و غربت کے مابین خلیج بڑھ رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے لیے وہ سرکاری پالیسیاں ذمہ دار ہیں جن کی خاکہ سازی میں دوراندیشی کا فقدان نظر آتا ہے۔مثلاً حکومت کا ایسے اداروں کا پرائیویٹائزیشن کرنا جو منافع میں چل رہی تھیں یا پھر ایسی کمپنیوں کو خود چلانے کے بجائے فروخت کردینا جن کی وجہ سے لاکھوں افراد کو ملازمتیں ملی ہوئی تھیں۔در اصل اس طرح کے عمل سے بے روزگاری بڑھتی ہے اور دولت کا ارتکاز ہوتا ہے۔کیونکہ جو بھی پرائیویٹ کمپنی ایسے سرکاری اداروں یا کمپنیوںکی خریداری کرتی ہے وہ سب سے پہلے اس کمپنی کے ملازمین کی چھٹی کرکے اپنی طرح سے اس کا انتظام کرتی ہے جس سے جن ہاتھوں کو کام ملا ہوا تھا وہ بے روزگار ہوجاتے ہیں۔یہ خاکہ سازی کا بہت محدود دائرہ ہے۔اس کے علاوہ دوسری بہت سی ایسی اسکیمیں ہیں جن کی بنیاد دور اندیشی پر ہونے کے بجائے دولت کے ارتکاز پر ہے مثلاً کسانوں کا مسئلہ ہی لے لیجیے۔ یہ ملک زراعت پر مبنی ہے،آج بھی 60فیصد سے زائد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور اس کا تعلق زراعت سے ہے جن کی محنت اور پیداوار سے ملک کا پیٹ بھرتا ہے۔ مگر حکومت ان کی پیداوار کی اچھی قیمت دینے اور ان کو سرکاری خریداری مراکز کے ساتھ ہی منڈیوں میں ایم ایس پی کی گارنٹی دینے کے بجائے ان کے لیے کانٹریکٹ کی کھیتی کا منصوبہ نافذ کرنا چاہتی ہے۔ایسے میں ایک طرف جہاں اس محنت کش طبقے کے ہاتھ کٹ جائیں گے، وہیں دوسری جانب دولت کا ارتکاز ہوگا کیونکہ سرمایہ کار ان کو اپنی طرح سے اور اپنی ضرورت کے مطابق کھیتی کیلئے مجبور کریں گے۔اس طرح کے اور بھی بہت سے حکومت کے منصوبے ہیں جو امارت اور غربت کے مابین خلیج کم کرنے کے بجائے اس میںاضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
حکومت،اس کے ادارے اور اس سے وابستہ افراد بہت شد و مد سے اس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ عوام کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے مہنگائی کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے۔سرکاریں ہمیشہ دعوے کرتی ہیں کہ انہوں نے روزگار کے مواقع پیدا کیے اور کثیر تعداد میں ہاتھوں کو ان کی وجہ سے کام ملا ہے۔مگر وقتاً فوقتاً جاری ہونے والی رپورٹیں حکومت کے اس دعوے کو غلط ثابت کردیتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ’ہنگر انڈیکس‘ جاری ہوا جس میں ہندوستان کئی پائیدان نیچے آگیا۔رپورٹ کے مطابق ملک میں بھوکے سونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔اگر آمدنی میں اضافہ ہوا ہوتا تو لوگ بھوکے سونے پر کیوں مجبور ہوتے؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب حکومت نہیں دینا چاہتی ہے۔
اب جرمنی کے بون میں واقع ادارہ ’’آئی زیڈ اے انسٹی ٹیوٹ آف لیبر اکنامکس‘‘ کی رپورٹ جاری ہوئی ہے،جس کے مطابق ہندوستان میں گزشتہ آٹھ برسوں میں غریبوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2020تک 7کروڑ 60لاکھ لوگ اس فہرست میں داخل ہوگئے ہیں۔گزشتہ چاربرسوں میں بے روزگاری میں جس طرح سے اضافہ ہوا ہے وہ تو سب کے سامنے ہے۔پہلے نوٹ بندی نے لوگوں کے ہاتھ کاٹے، پھر کووڈ نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔رپورٹ چونکانے والی اس لیے بھی ہے کہ حکومت کے مطابق کورونا کی وجہ سے حالات خراب ہوئے مگرجو اعداد و شمار لیے گئے ہیں وہ کورونا کے ابتدائی ایام تک کے ہی ہیں۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ کووڈ کے آغاز سے قبل ہی غربت میں اس قدر اضافہ ہوچکا تھا۔ رپورٹ تیار کرنے والوں میں سے ایک پروفیسر سنتوش مہروترا بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ہم فی کس آمد و صرف کے حکومت کے معیار کی بنیاد پر ہی اپنی رپورٹ تیار کرتے ہیں۔ان کے مطابق 2012میں جتنے غریب تھے، اس میں ساڑھے سات کروڑ غریبوں کا اضافہ ہوچکا ہے۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ 2012کے بعد سالانہ ایک کروڑ افراد اس فہرست میں داخل ہو رہے تھے مگر حکومت روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور معیشت میں اضافے کا ڈھول پیٹتی رہی۔ اس نے ملک کی زمینی حقیقت پر توجہ دینے کے بجائے اپنے پی آر، اخبارات اور ٹی وی کے اشتہارات پر زیادہ توجہ دی۔ اس رپورٹ کے مطابق غریبی کی شرح میں اضافہ سب سے زیادہ 2019-2020میں ہوا۔2012کے مقابلے 2018 میں بے روزگاری میں تین گنا اضافہ ہوا۔ 2004-2005 اور2012کے درمیان ہر سال 75لاکھ غیر زرعی شعبے میں روزگار پیدا ہورہے تھے، 2012 کے بعد اس میں سالانہ 30لاکھ کی کمی آئی۔ظاہر ہے کہ جب روزگار میں کمی آئے گی تو غریبوں اور غربت میں اضافہ ہی ہو گا۔
ایک بات قابل توجہ یہ بھی ہے کہ جب بھی کوئی رپورٹ حکومت کے موافق نہیں ہوتی تو اس کو یہ کہہ کر خارج کردیا جاتا ہے کہ درست اعداد وشمار نہیں لیے گئے یا کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو ملک کی شبیہ خراب کرنا چاہتی ہیں اس لیے اس طرح کی رپورٹ جاری ہوتی ہیں مگر یہی ادارے اور افراد ایسی رپورٹوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور اس کو ہر عام و خاص تک پہنچاتے ہیں جس میں کسی بھی سطح پر حکومت یا حکومت میں شامل افراد کی تعریف کی گئی ہو، اس وقت اس طرح کے سبھی اعداد وشمار درست ہوتے ہیں۔در اصل جب انسان/حکومت یک چشمی ہوجائے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے یک چشمی ہونے کے بجائے دونوں آنکھوں کا استعمال کرنا چاہیے،اس سے ملک و قوم سب کا بھلا ہوگا۔
جو لوگ حکومت و اقتدار میں ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ عوام کا پیٹ بھی بھرنے کی کوشش کریں اور ایسے منصوبے تیار کریں جن سے دولت کا ارتکاز ہونے کے بجائے ہر شخص کو قوت لایموت حاصل ہوجائے۔ مگر ایجنڈوں کے نفاذ اور حکومت پر گرفت کے لیے ایسا کرنے کے بجائے صرف بڑھتی معیشت کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے جو کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہے۔اس لیے غربت اور امارت کی خلیج بہر صورت ختم کی جانی چاہیے اور ریاست کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہر فرد کے ہاتھوں کو کام دینا چاہیے،اس سے جہاں غربت ختم ہوگی وہیں یہ ملک بھی ترقی کرے گا اور اتنی ترقی کرے گا کہ ایک دن پھر سونے کی چڑیا بن جائے گا مگر اس کے لیے عزم وحزم کی ضرورت ہے اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا،جبکہ عوام کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حکومتوں کا احتساب بھی وقتاً فوقتاً کرتے رہیں،اگر ایسا نہیں ہوا تو ایک طرف دولت کا ارتکاز بڑھتارہے گا اور دوسری طرف عوام بھوکوں مرتے رہیں گے۔
[email protected]