سفید قمیصوں پر ’دلالی‘ کے داغ

کانگریس اور اپوزیشن پارٹیاں رافیل مسئلہ کو زور و شور سے اٹھائیں گی۔ اس کی وجہ فروری-مارچ میں اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں الیکشن بھی ہیں۔

0

وجے ترویدی

ہندوستان کی سیاست میں کھادی کے سفید براق کرتے پاجامے کی اینٹری یوں تو شاید عام آدمی سے وابستہ نظر آنے کے لیے ہوئی ہوگی، تاکہ محسوس ہو کہ نیتاجی بھی ہمارے درمیان میں سے ہی کوئی ہیں۔ پھر دوسری بڑی وجہ یہ تسلیم کی گئی ہوگی کہ سفید رنگ ایمانداری کا رنگ ہے، یعنی سیاست میں ایمان دار لوگوں کو جگہ ملے گی، لیکن صاحب، مشکل تو یہ ہوگئی کہ اس سفید ڈریس پر ہلکا سا بھی داغ چمکتا ہوا نظر آتا ہے، یعنی کسی بھی سیاستداں پر داغ لگتا نظر آئے تو اس کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔
سیاست میں ’میری قمیص تیری قمیص سے زیادہ سفید‘ کی بحث چلتی رہتی ہے۔ سیاست میں بدعنوانی کی کہانی یوں تو آزادی کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ ملک کی پہلی حکومت میں جیپ گھوٹالے کی گونج سنائی دی تھی۔ تب سے لے کر آج تک ہر حکومت میں کسی نہ کسی پر بدعنوانی کی چھینٹیں کسی نہ کسی بہانے سے پڑتی ہی رہی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو سیاسی حمام ہے اور حمام کے بارے میں تو سب جانتے ہی ہیں۔ سیاسی بدعنوانی کی سب سے بڑی کہانی ابھی تک بوفورس گھوٹالے کو سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے سب سے بڑی اکثریت والی راجیو گاندھی کی قیادت والی کانگریس حکومت چلی گئی تھی۔ یہ بات الگ ہے کہ ابھی تک اس معاملہ میں شاید یہ ثابت نہیں ہوپایا کہ راجیوگاندھی یا ان کی فیملی میں سے کسی نے رشوت لی تھی۔ دفاعی سودوں میں دلالی کا یہ پہلا بڑا معاملہ تھا، جس نے ہندوستان کی سیاست کو ایک جھٹکے میں تبدیل کردیا تھا۔
سب سے ایمان دار سمجھے جانے والے وزیراعظم منموہن سنگھ حکومت کی دوسری مدت کار بدعنوانی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ اس میں کئی وزرا کو استعفیٰ دینا پڑا، جیل بھی جانا پڑا، حالاں کہ اسی حکومت سے ہی جڑے ایک معاملہ میں ابھی سابق سی اے جی نے معافی بھی مانگی ہے۔ موجودہ مودی حکومت کی یہ دوسری مدت کار ہے اور کل 7سال میں وزیراعظم مودی سمیت کسی بھی وزیر پر بڑے پیمانہ پر بدعنوانی کا الزام اب تک نہیں لگا ہے، لیکن اب لڑاکو جہاز رافیل کی خریداری کے سلسلہ میں سیاست جس قدر گرما گئی ہے، اس سے لگتا ہے کہ اس مسئلہ سے پیچھا چھڑانا آسان نہیں ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ دونوں اہم سیاسی پارٹیاں، بی جے پی اور کانگریس ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہیں۔
رافیل کی کہانی شروع اس دن سے ہوتی ہے، جب یو پی اے کی منموہن سنگھ حکومت نے اگست2007میں ملٹی رول کامبیٹ خریدنے کی تجویز رکھی تھی۔ 2012میں تب کے وزیردفاع اے کے انٹونی نے بتایا تھا کہ قیمتوں سے متعلق ابھی بات نہیں بن پائی۔ رافیل خریداری میں بدعنوانی کا معاملہ تب سامنے آیا، جب فرانس کے ہی ایک پورٹل نے الزام لگایا کہ رافیل جیٹ کی فروخت یقینی بنانے کے لیے ماریشس میں رجسٹرڈ ایک شیل کمپنی انٹراسٹیلر ٹیکنالوجی سے سوشین گپتا کو رشوت دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق، سال 2007 سے 2012کے درمیان اس کمپنی کو 7.5ملین یورو یعنی تقریباً 65کروڑ روپے دیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق، ماریشس حکومت نے اس سے منسلک دستاویز 2018 میں سی بی آئی کو سونپ دیے تھے اور سی بی آئی نے اسے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی) کو دے دیاتھا۔ سوشین گپتا کا نام اگستا ویسٹ لینڈ ڈیل میں بھی آیا تھا، جس میں کانگریس سے وابستہ لوگوں پر داغ لگائے گئے تھے۔ اب سیاسی تنازع یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ کیا یہ رشوت سال2007 سے 2012 کے دوران دی گئی، تب مرکز میں یوپی اے کی حکومت تھی اور بی جے پی اس میں کانگریس کے شامل ہونے اور اس پر بدعنوانی کے الزام لگارہی ہے۔ بی جے پی کے ایک ترجمان نے تو کانگریس کے نام آئی این سی یعنی انڈین نیشنل کانگریس کو آئی نیڈ کرپشن میں تبدیل کردیا۔ وہیں کانگریس کا کہنا ہے کہ سارا فیصلہ این ڈی اے حکومت میں ہوا ہے، جب طیاروں کی قیمت میں بھی بڑی تبدیلی کی گئی۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی گیا اور کورٹ نے بنیادی طور پر کوئی گڑبڑی نہیں پائی ہے۔ اب کانگریس کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے بھی پیسہ لیا ہے، تو پھر حکومت اس کی تفتیش کرانے سے کیوں بچ رہی ہے؟ حکومت کو پارلیمانی کمیٹی یعنی جے پی سی سے اس کی تفتیش کرانی چاہیے۔ فرانس میں اس سال جون میں اس کی عدالتی تفتیش شروع ہوگئی ہے۔ تفتیش سے سراغ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ رشوت کا یہ پیسہ کیا حکومت ہند میں افسروں اور دوسرے لوگوں تک پہنچا ہے؟
یہاں اس بات کا ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ واجپئی حکومت میں وزیر رہے یشونت سنہا اور ارون شوری نے 4اکتوبر2018کو سی بی آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر آلوک ورما سے ملاقات کرکے انہیں ایک فائل سونپی تھی۔ لیکن آلوک ورما کو سی بی آئی ڈائریکٹر کے عہدہ سے ہٹا دیا گیا۔ کانگریس کا الزام ہے کہ آلوک ورما رافیل معاملہ میں ایف آئی آر درج کرانے جارہے تھے، اس لیے انہیں ہٹایا گیا۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ کانگریس اتنے سال اس ڈیل کو اس لیے آخری شکل نہیں دے پائی، کیوں کہ وہ ڈیل نہیں، کمیشن فائنل کرنے میں مصروف تھی اور بات بن نہیں پائی۔ مودی حکومت کے آنے کے بعد اس پر تیزی سے کام ہوا اور اب تو سات کھیپ میں 24رافیل طیارے ہندوستان پہنچ گئے ہیں۔ اسی ماہ 29نومبر سے پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس شروع ہورہا ہے۔ یقینا کانگریس اور اپوزیشن پارٹیاں اس مسئلہ کو زور وشور سے اٹھائیں گی۔ اس کی ایک وجہ اگلے سال فروری- مارچ میں اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن بھی ہیں، تب تک کانگریس اس کی گونج کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ یہ وقت اس فیصلہ پر پہنچنے کا نہیں ہے کہ اس میں کیا گھوٹالہ ہوا؟ کتنے کی رشوت دی گئی؟ کیا گڑبڑی ہوئی اور کون ذمہ دار ہے؟ لیکن ان سب سوالات کے جواب تو چاہیے ہی اور یہ جواب موجودہ حکومت کو بھی اپنا دامن صاف رکھنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ اب حکومت کو طے کرنا ہے کہ وہ اس معاملہ کی تفتیش کرانے کے لیے آگے آتی ہے اور کس طرح کی تفتیش کرانا چاہتی ہے۔ جمہوری سیاست میں تصور سب سے اہم ہوتا ہے، یعنی یہ با ور کرائے رکھنا کہ وہ سب سے ایمان دار ہیں اور اس کی قمیص سب سے سفید ہے۔ اس کی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے اور وہ ہے سب سے قابل اعتماد تحقیق۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS