جمہوریت دشمنی

0

جمہوریت مساوات، اظہار خیال کی آزادی،انسانی حقوق، جان و مال کا تحفظ جیسے بنیادی معاملات میںحکومتوں کا رویہ جمہور پسندوں کیلئے ابتلا و آزمائش بن چکا ہے۔ حکومتیں عوام کی شکایت سننے کی بجائے شکوہ کناں زبان پر تالا لگانے کیلئے طاقت اور قانون کا غلط و ناجائز استعمال کرنے سے بھی نہیں چوک رہی ہیں۔ تریپورہ میں حالیہ دنوں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد ’ حقیقت احوال‘ کا پتہ لگاکر اسے عام کرنے والے وکلا اورتشدد کے بارے میں بات کرنے و لکھنے والے صحافیوں اور سماجی کارکنوں سمیت تقریباً ایک سو افراد پر یو اے پی اے (ان لا فل ایکٹیویٹیز(پری وینشن ) ایکٹ جیسا سخت قانون لگایاجانا اس کی بدترین مثال ہے۔
ظلم و جبر اور استبدادکے خلاف بولنا ، لکھنا، پرامن احتجاج و مظاہرہ کے ذریعہ اپنے اختلاف کا اظہار کرنا جمہوریت میں عوام کا بنیادی حق ہے۔ہندوستان کے دستور نے بھی اس کی ضمانت دی لیکن اکثریت کے زعم میں مبتلا حکومتیں دستور اور آئین کو پرے رکھ کر عوام کے اس بنیادی حق کو کچلنے میں مصروف ہیں۔ تریپورہ حکومت کایہ اقدام جمہوریت میں کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے۔متاثرین نے تریپورہ حکومت کے اس غیر قانونی اقدام کو بجا طور پر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ عدالت سے درخواست کی ہے کہ وکلا، صحافیوں اور سماجی کارکنوں پر لگائے گئے اس قانون کو ختم کرتے ہوئے تریپورہ حکومت کو تنبیہ کی جائے اور یو اے پی اے کے غلط استعمال پر روک لگائی جائے۔چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ نے ابتدائً اس معاملہ میں متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت دی بعدازاں وکلا کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے اس معاملہ کوسماعت کیلئے باقاعدہ منظور کرلیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ تریپورہ کی بی جے پی حکومت عدالت میں اپنے اقدام کی کیا وضاحت پیش کرتی ہے۔
تریپورہ میں اکتوبر کے درمیانی ہفتوں میں ہونے والا فرقہ وارانہ تشدد اور فساد کوئی اتفاقیہ واقعہ نہیں تھابلکہ اسے منظم سازش بھی کہاجاسکتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ہندوئوں پر ہونے والے مبینہ حملہ کو بنیاد بناکر تریپورہ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، ان کی مسجدوں اور عبادت گاہوں کو جلایا گیا ، خواتین کی آبروریزی کے بھی کئی واقعات سامنے آئے۔ تریپورہ پولیس کی ناقص کارکردگی بھی سبھی کے سامنے رہی،انتظامیہ نے شر پسندوں اور فسادیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی جنہوں نے کھل کر کھیلا اور مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا بازارگرم کیا۔
اگر ان واقعات کو تریپورہ میں 25نومبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخاب کے پیش نظر دیکھاجائے تو اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ یہ مذہبی پولرائزیشن کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش تھی اور اس کوشش میں بہت حدتک کامیابی بھی ملی۔25نومبر کو ہونے والے انتخابات سے پہلے ہی حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کو 112 سیٹیں مل گئیں۔تریپورہ میں کل334سیٹوں پر انتخابات ہونے تھے لیکن ووٹنگ سے پہلے ہی بھارتیہ جنتاپارٹی کو112سیٹیں مل گئیں کیوں کہ مذہبی پولرائزیشن کے بعد ان 112سیٹوں پر حزب اختلاف کے امیدواروں نے اپنے اپنے نام واپس لے لیے۔
تریپورہ تشدد اور فساد کی سب سے زیادہ افسوسناک اور جمہوریت کیلئے خطرناک بات یہ رہی کہ پولیس نے طاقت اور قانون کا ناجائزاستعمال کرتے ہوئے ان واقعات کے خلاف بولنے ،لکھنے اور احتجاج کرنے والوں پر قانونی کارروائی کی۔سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ احتشام ہاشمی، ایڈووکیٹ امت سریواستو، ایڈووکیٹ انصار اندوری اور ایڈووکیٹ مکیش کے خلاف یو اے پی اے کی کئی دفعات عائد کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ’ لائرس فار ڈیموکریسی‘ کے یہ وکلا ’ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘ کے رکن کے طورپر تشدد کے واقعات کی تحقیقات کیلئے تریپورہ گئے تھے اور وہاں سے واپسی پرا نہوں نے ’ تریپورہ میں انسانیت پر حملہ‘ اور ’مسلم لائیو زمیٹر‘ کے عنوان سے اپنی رپورٹ جاری کی تھی۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان کی رپورٹ سے علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل سکتی ہے۔اس لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔ صرف یہ وکلا ہی نہیں بلکہ تریپورہ پولیس نے تقریباً ایک سو اُن افراد پر بھی یو اے پی اے عائد کیا ہے جنہوں نے کسی نہ کسی طرح مسلمانوں پر ہوئے تشدد کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ان سو افراد میں 68ٹوئٹر اکائونٹ اور 2 یوٹیوب اکائونٹ استعمال کرنے والے بھی شامل ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش واقعہ کے بعد تریپورہ پولیس اپنے یہاں احتجاج کرنے والوں پر نظررکھتی تو اس تشدد سے بچاجاسکتا تھا لیکن پولیس نے مذہب کے نام پر تشدد کی اجازت دی اور اب ان لوگوں کو نشانہ بنارہی ہے جو تشدد کی تحقیقات کرکے حقائق سامنے لارہے ہیں۔ تریپورہ حکومت کے اس رویہ کو جمہوریت دشمنی کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیاجاسکتا ہے۔سپریم کورٹ نے اس معاملے کو سماعت کیلئے منظور کرکے جمہوریت پسندوں کی امیدبڑھائی ہے جسے تحفظ جمہوریت کیلئے نیک فال سمجھاجانا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS