…کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

0

زین شمسی

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کے انداز نرالے ہیں۔ انداز تخاطب بھی لبھائونے ہیں اور انداز بیاں تو لاجواب ہے ہی۔ لال قلعہ کی فصیل سے جب وہ اہل وطن سے روبرو ہوتے ہیں تو ان کی تقریر کی بلند پروازی دلپذیر ہونے کے ساتھ ساتھ قابل توجہ بھی ہوتی ہے، لیکن علامات، استعارات اور اشارے و کنائے کی بلاغت ان کی بلند پروازی کو مضحکہ خیز بھی بنا دیتی ہے۔ دراصل وہ اپنی تقریر کی فصاحت میں اپنی گزشتہ تقریروں میں کیے گئے کچھ اپنے ہی وعدوں کو یکسر فراموش کر جاتے ہیں، جس کی وجہ سے لذت تقریر کا اثر کافورہوجاتا ہے اوراس پر پوری طرح سے سیاسی بلکہ پارٹی کی تقریر کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اس بار کے جشن آزادی پر ان کا پیغام ان ہی کے کچھ پیغامات کی نفی کرتا ہوا نظر آیا۔ بدعنوانی سے نجات کا ذکر انہوں نے کئی بار کیا، مگر بھول گئے کہ ان کے ہی دور حکومت میں بدعنوانی کے ایسے ایسے پٹاخے پھوٹے کہ وہ خود ہی اس پر کچھ بول نہیں پائے۔ ان ہی کے ذریعہ نشان زد دیگر پارٹیوں کے بدعنوان لیڈران جب ان کے خیمہ میں پناہ گزیں ہوئے تو صاف ستھرے اور ایماندار بن کر نکلنے کا کرشمہ سامنے آیا۔ چونکہ ان کی اس بار کی تقریرآئندہ لوک سبھا الیکشن کے مدنظر تھی، اس لیے تقریر کی چاشنی میں عوام کے لیے کچھ ایسے وعدے تھے اور اپوزیشن پر کچھ ایسے حملے تھے، جو ثابت کر رہے تھے کہ چنائو آنے والا ہے۔ انہوں نے اہل ہند سے یہ وعدہ کیا کہ اگلی بار جب میں اس فصیل سے بولوں گا تب بھارت وشو گرو بننے کی راہ میں قدم بڑھا چکا ہوگا یعنی معاشی طور پر وہ دنیا کی تیسری معیشت ہوچکا ہوگا۔ ابھی وہ وشوامتر بن چکا ہے۔گویا انہوں نے صاف اشارہ دے دیا کہ اگلے لوک سبھا الیکشن میں بھی جیت انہی کی ہوگی اور کیوں نہ ہو کہ ان کی جیت ان کے وعدوں سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی پارٹی کے ان چنندہ لیڈروں کی وجہ سے ہوتی ہے جو بھارت کے میڈیا اور آئی ٹی سیل کی مدد سے بھارت میں نفرت کا مائنڈ سیٹ تیار کرنے کی کامیاب کوششوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ مودی جی نکتہ چیں ہوئے کہ ایک تاریخی غلطی کی وجہ سے بھارت ہزار سال پیچھے رہ گیا، ان کا اشارہ محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ اور بعد میں محمود غزنوی کے حملے سے تھا۔ بات وہی ہوئی کہ جس کی پردہ داری تھی۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ دہلی سلطنت اور عہد مغلیہ میں بھارت وشو گرو بن چکا تھا، اس وقت کی معاشیات، جسے آج کے دور میں جی ڈی پی کہتے ہیں وہ دنیا کے تمام ممالک سے بہتر تھی۔گویا ایک طرح سے وہ اپنے ہی بیان کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہوئے رد کر گئے۔
جشن آزادی پر میڈیا کے کارندوں کو ایک بہترین آلہ کھرگے کے طور پر ملاکہ وہ اس قومی جشن میں شریک کیوں نہیں ہوئے؟ میڈیا نے اسے بھارت کی مخالفت کے طور پر خوب دکھایا اور خوب مزے لیے، کیونکہ اپوزیشن پی ایم کی تقریر پر اپنی رائے زنی نہ کرسکے اور کھرگے کے دفاع تک اپنے بیانات محدود رکھے، مگر ادھر راہل گاندھی نے قوم کو ایک خط لکھ کر واضح کر دیا کہ بھارت کیا ہے اور کس کا ہے۔ بھارت کی عظمت اور اس کا وقار اس کی تکثیریت میں پنہاں ہے۔ یہ وطن کاہر ذی شعور جانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جس دن بھارت کی اکثریت اقلیت کے بالکل خلاف ہوجائے گی، بھارت زخمی پرندے کی طرح چھٹپٹاجائے گا۔ نفرت کے کچھ جزوقتی دن ہوتے ہیں جنہیں گزرنا ہی ہے، گزر جائیں گے۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ عنان حکومت بھارت کی عظمت کا گن گان کرتے ہیں اور اسے وشو گرو گردانتے ہیں تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو بھارت چھوڑ کر جارہے ہیں۔ راجیہ سبھا میں سرکار کی جانب سے وزیر مملکت وی مرلی دھرن نے ایک سوال کے جواب میں دیش کو جانکاری دی کہ صرف5سالوں میں8لاکھ لوگوں نے ہندوستانی شہریت کو چھوڑ کر غیرملکی شہریت اختیار کرلی ہے۔ رواںسال جون 2003تک یعنی محض6ماہ میں ہی87ہزار لوگوں نے بھارت کی شہریت کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ واضح ہو کہ سرکار سے رکن پارلیمنٹ سندیپ کمار پاٹھک نے چار سوالات پوچھے تھے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ہندوستانی شہریت چھوڑنے والے اور دیگر ممالک کی شہریت حاصل کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ دوسرا ان میں کتنے لوگ کاروباری تھے؟ تیسرا کیا سرکار نے اس بات پر کوئی اسٹڈی کی ہے کہ یہ لوگ دیش کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ اور آخری سوال تھا کہ شہریت چھوڑنے والوں کے پیشے کی تفصیل بیان کریں، جس پر سرکار نے جواب دیتے ہوئے مذکورہ تفصیلات بیان کیں اور ساتھ ہی وجوہات بتاتے ہوئے کہاکہ شہریت چھوڑنے کا سبب ان کے ذاتی معاملات ہیں اور صحت و ماحولیات کے ساتھ ساتھ تابناک مستقبل بھی اس کی اصلی وجہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ شہریت چھوڑنے والوںکا نیا ٹھکانہ زیادہ تر امریکہ اور انگلینڈ ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتا یا کہ لوگ چین اور پاکستان میں بھی سکونت پذیر ہو رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ بھارت جب چین کو سبق سکھا چکا ہے اور پاکستان کو گھٹنے پر لاچکا ہے تو ایسے میں کون ایسا سرپھرا ہے جو بھارت جیسے عظیم ملک کو چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں کے دوران2442 لوگوں نے چین کا اور گزشتہ تین برسوں میں61لوگوں نے پاکستان کا رخ کیا ہے۔ سرکار نے دیش چھوڑنے والوں کی مذہبی نشاندہی نہیں کی ہے، مگر یہ تو طے ہے کہ امریکہ ، انگلینڈ اور چین جانے والے لوگ وہی ہوں گے جن کے لیے بھارت کے سرکردہ لوگ بھارت کو ہندوراشٹر میں تبدیل کر رہے ہیں۔پاکستان جانے والے لوگوں پرحیرت نہیں ہونی چاہیے کہ انہوں نے سرکاری لیڈروں کی وہ بات مان لی جس میں بار بار کہا جاتا ہے کہ ہم انہیں پاکستان بھیج کر ہی دم لیں گے۔ تو وہ لوگ چلے گئے۔ ٹی وی والوں پر بھی حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایک سیما حیدر کے پاکستان سے آنے پر ان کی رگ جاں پھڑک جاتی ہے مگر60لوگوں کے پاکستان چلے جانے والوں سے انہیں کسی طرح کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
تاہم یہ خبر مودی جی کے ان تمام وعدوں اور پالیسیوں پر ضرب کاری کرتی ہے، جس میں صحت عامہ کے لیے سوچھ بھارت اسکیم، تعلیم کے لیے پڑھے گا بھارت تو بڑھے گا بھارت، روزگار گارنٹی اور دیگر مفاد عامہ میں مشتہر کی گئی اسکیمیں ہیں، کیونکہ سرکار ہی مانتی ہے کہ یہ سب سہولیات بھارت میں نہیں ہیں بلکہ بھارت کے باہر ہیں، اس لیے لوگ بھارت چھوڑ رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ جشن آزادی انگریزوں سے بھارت چھڑانے کے سبب منائی جاتی ہے، مگر حالات تو یہ ہوگئے کہ بھارتیہ ہی بھارت چھوڑ کر جانے کے لیے مجبور ہو رہے ہیں۔انہیں بھارت سے ہی آزادی چاہیے۔انتہائی تکلیف دہ باتیں ہیں۔لیڈروں کے وعدوں اور دعوؤں پر ہی کسی نے یہ شعر کہا ہوگا کہ
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگراعتبار ہوتا ہے
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS