مستحکم معیشت کا حیران کن دعویٰ

0

جولائی 2023 میں ختم ہونے والی سہ ماہی میں جی ایس ٹی کی کل وصول شدہ رقم1.65لاکھ روپے ہوئی ہے جو کہ گزشتہ سال جولائی کے مقابلے میں11فیصد زیادہ ہے۔اس خبر کو حکمراں طبقہ ہندوستان میں معیشت کے استحکام کے طور پر دیکھتے ہوئے دعویٰ کر رہا ہے کہ ملک بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہاہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ ہمارے سر پر وشو گرو اور دنیا کی سب سے بڑی مستحکم معیشت کا تاج رکھ دیاجائے گا۔
لیکن اسی دوران قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) کی جانب سے بھی کچھ اعداد وشمار جاری کیے گئے ہیںجنہیںدیکھ کر احوال حقیقی کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ این ایس او نے کنزیومرپرائس انڈیکس کے حوالے سے مہنگائی کے بارے میں جو ڈیٹا دیے ہیں وہ مستحکم معیشت کے دعوئوں کی پول کھول رہے ہیں۔این ایس او کے مطابق ہندوستان میں خردہ مہنگائی کی شرح 7.44 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ گزشتہ15مہینوں کی بلند ترین سطح ہے۔ گزشتہ سال ان ہی ایام میںیہ شرح 6.71فیصد تھی۔ یعنی ایک سال کے عرصہ میں مہنگائی کم ہونے کے بجائے تیزی سے بڑھی ہے اور یہ پتہ چل رہاہے کہ مہنگائی کو قابو میں لانے کی تمام مبینہ کوششیں اپنا سا منہ لے کر رہ گئی ہیں۔ریزروبینک آف انڈیا نے خردہ مہنگائی کی شرح 4 فیصد تک لانے کیلئے کبھی ریپوریٹ میں اضافہ کیاتوکبھی بازار میں کرنسی نوٹوں کے ذخیرہ کی حد بندی کاڈول ڈالا اور دعویٰ کیا کہ اس اقدام سے مہنگائی کی شرح 4فیصد پر آجائے گی۔مانیٹری پالیسی کمیٹی کی حال ہی میں ختم ہونے والی میٹنگ کے بعد ریزرو بینک نے کہا تھا کہ اس کا پورا زور خردہ افراط زر کو ہدف کی حد کے اندر لانے پر ہے۔ لیکن ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ کے مصداق حالات میںبہتری کے بجائے ابتری ہی دیکھی گئی۔
افراط زر کے حوالے سے بھی جو ڈیٹا دستیاب کرائے گئے ہیں، وہ بھی ابتری کی جانب ہی اشارے کررہے ہیں۔ جون 2023 میں افراط زر4.87 فیصد تھی لیکن جولائی میں بڑھ کر 7.63 فیصد ہوگئی۔ اناج کی قیمتیں بے قابو ہوچکی ہیں۔ سبزیوں کی قیمت میں ہوش ربااضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ایندھن کی قیمتیں تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ وبا کی وجہ سے لوگوں کے ایک بڑے حصے کی حقیقی قوت خرید میں واقع ہونے والی کمی اب تک برقرا ر ہے۔
تاریخ کی بدترین مہنگائی سے نبردآزماعام آدمی کاسفر ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ذلت و محرومی کی گہرائیوں کی جانب تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ وبا کے بعد ہونے والی ’مالی بحالی‘ کا کوئی مثبت اثر عام آدمی پر نظر نہیں آ رہا ہے۔ماہرین معیشت نے کسی مالیاتی نظام کوابتری کی جانب لے جانے کیلئے جتنے خدشات بتائے ہیں، وہ سب کم وبیش موجود ہیں۔ گزشتہ 9 برسوں کے دوران ہونے والی معاشی پیش رفت زیادہ تر کاغذات اور حکمرانوں کی زبان پر ہی رہی ہے۔اس مدت میں حقیقی اقتصادی کارکردگی انتہائی ناقص ثابت ہوئی ہے۔ساتھ ہی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے فیصلوں کے اثرات بھی ہندوستانی معیشت سے اب تک ختم نہیں ہوسکے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مودی حکومت کے یہ دونوں غیر منطقی فیصلے ہی ملکی معیشت کی ابتری کی بنیاد ہیں۔کالے دھن کو معیشت سے باہر نکال پھینکنے کا دعویٰ کرتے ہوئے مودی حکومت نے نوٹ بندی کا ’انقلابی‘ فیصلہ کیاتھا لیکن آر بی آئی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بند کی گئی کرنسی نوٹوں کا 99 فیصد بینکنگ سسٹم میں واپس آگیا۔ 15.41 لاکھ کروڑ روپے کے نوٹوں میں سے 15.31 لاکھ کروڑ روپے کے نوٹ واپس آ گئے۔یہ ملکی معیشت میں شامل ہونے والے کالادھن تھا جسے مودی حکومت کے اقدام نے قانونی شکل دے دی۔دولت مند اور زیادہ دولت مند ہوتے گئے اور عوام کیلئے غربت اور پستی کی دلدل مزید گہری ہوتی گئی اور امیروں کے پاس آنے والی بے حساب دولت نے مہنگائی کو ہولناک بناڈالاہے۔ان سب کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی مستحکم معیشت کا دعویٰ حیران کن ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS