افغان فورسز کی امریکی تربیت کا امتحان

0

صبیح احمد

افغان صدر اشرف غنی نے بڑی معصومیت کے ساتھ ابھی 2-3 روز قبل ایک بہت ہی دلچسپ دعویٰ کیا ہے اور وہ دعویٰ یہ ہے کہ امریکی صدر بائیڈن نے افغان سکیورٹی فورسز کی حمایت کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ صدر غنی کا یہ دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سپر پاور امریکہ کی قیادت میں پوری دنیا کی فورسز 2 دہائیوں تک طالبان کو کچلنے کی سر توڑ کوشش کے بعد افغانستان کو طالبان کے ہی رحم و کرم پر چھوڑ کر واپس جانے پر مجبور ہو چکی ہیں۔
ادھر امریکی صدر بائیڈن کا بیان بھی کم دلچسپ معلوم نہیں ہوتا۔ انہی کی زبان میں ’ہم نے تقریباً 3 لاکھ افغان فوجیوں کو گزشتہ 20 برس کے دوران ہر طرح کی جدید تربیت اور ہتھیاروں سے لیس کیا ہے، مجھے اس بات پر زور دینے دیں کہ ہر وہ جدید ہتھیار جو کسی بھی ماڈرن فوج کے پاس ہوتے ہیں، لہٰذا افغان فوج بہ آسانی تقریباً 75 ہزار طالبان جنگجوؤں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔‘ یہ الفاظ ہیں امریکہ کے صدر بائیڈن کے جن کا اپنے حالیہ بیان میں کہنا تھا کہ افغان فورسز اور پولیس کی جس معیار کے تحت تربیت کی گئی ہے طالبان صلاحیت کے لحاظ سے اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے۔ جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ صدر بائیڈن کے افغان فوج پر اعتماد کے باوجود افغانستان میں طالبان کی حالیہ پیش قدمی اور افغان فورسز کی کئی علاقوں میں پسپائی کی اطلاعات کے بعد افغان فورسز کی استعداد کار اور طالبان کا مقابلہ کرنے کی ان کی صلاحیت پر سوال اٹھائے جانے لگے ہیں۔ امریکی حکومت کے حلقوں کے اندر بھی یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ آیا افغان سکیورٹی فورسز طالبان کے سامنے ٹھہرنے کی اہلیت رکھتی ہیں یا نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پوری دنیا کی فوج مل کر طالبان کو جڑ سے اکھاڑنے میں ناکام رہی تو کیا افغان فورسز اس ذمہ داری کو اتنی آسانی سے پوری کر لیں گی جیسا کہ افغان اور امریکی صدور دعویٰ کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغان فورسز اب اس طرح کی نہیں رہیں جیسا کہ 9/11 سے پہلے تھیں۔ ناٹو اور بالخصوص امریکی فورسز نے دو دہائیوں کے دوران انہیں جدید تکنیکی صلاحیت کے ساتھ تربیت دی ہے اور دنیا کے جدید ترین اسلحہ سے بھی لیس کیا ہے۔ تو کیا اب افغان فوجی جوان اس حساب سے طالبان کا مقابلہ کر پا ر ہے ہیں؟ گزشتہ دنوں امریکی نشریاتی ادارہ ’سی این این‘ پر 22 افغان کمانڈوز کی طالبان کے ہاتھوں ہلاکت کا مبینہ ویڈیو منظر عام پر آنے اور کئی علاقوں میں افغان فورسز کی پسپائی پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ کچھ دنوں قبل طالبان کی پیش قدمی کے دوران تقریباً ایک ہزار سے زائد افغان فوجی تاجکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔

ایک عالمی قوت کو 2 دہائیوں تک اپنے اوپر حاوی نہ کرنے والے طالبان کی حالیہ تیز رفتار پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ غیر ملکی افواج کی غیرموجودگی میں وہ کابل میں حکومت گرانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ طالبان کی پیش قدمی اکثر فریقین کی سوچ سے زیادہ تیز ہے۔ اگر امریکی خفیہ اداروں کے تجزیے پر یقین کیا جائے تو موجودہ افغان حکومت امریکی افواج کے انخلا کے 6 ماہ بعد ہی گر سکتی ہے۔

دراصل افغان نیشنل آرمی کی ازسر نو تشکیل کی بنیاد افغانستان پر امریکہ کے قبضہ کے بعد دسمبر 2002 میں جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی کانفرنس میں رکھی گئی تھی۔ ابتدائی طور پر 70 ہزار فوجیوں کو بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جن کی تربیت کی ذمہ داری امریکی فوج کو دی گئی تھی۔ گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران افغان فورسز کی تعداد بڑھانے اور انہیں جدید اسلحہ سے لیس کرنے کا بھی سلسلہ جاری رہا۔ یونائیٹڈ اسٹیٹس ملٹری اکیڈمی، نیویارک کے تحقیقی ادارہ ’کامبیٹنگ ٹیررزم سینٹر‘ کے مطابق افغان فوج کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 52 ہزار کے قریب ہے۔ چھٹیوں پر جانے والے اور ’گھوسٹ سولجرس‘ یعنی ڈیوٹی پر آئے بغیر تنخواہیں لینے والے فوجیوں کی تعداد نکال دی جائے تو فرائض انجام دینے والے اہلکار ایک لاکھ 85 ہزار کے آس پاس بنتے ہیں جبکہ پولیس اہلکاروں کی کل تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ افغان ایئر فورس کے پاس 200 سے زائد لڑاکا طیارے، ہیلی کاپٹرس اور ٹرانسپورٹ طیارے ہیں جن میں سے زیادہ تر امریکی ساختہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹرس، لٹل برڈ ایم-ڈی 530 ہیلی کاپٹرس، ٹرانسپورٹیشن کے لیے سی-130 طیارے ہیں جبکہ اس کے پاس روسی ساختہ ایم-آئی 17 ہیلی کاپٹرس بھی ہیں۔ امریکہ نے افغان ایئر فورس کو حالیہ برسوں کے دوران 20 سے زائد A-29 سپر ٹیکانو لڑاکا طیارے بھی فراہم کیے ہیں۔طالبان کے لیے عام افغان فوجیوں کا مقابلہ کرنا قدرے آسان ہے، تاہم جدید کمانڈو تربیت حاصل کرنے والے افغان کمانڈوز ان کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ انہیں افغان فورس کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے۔ان کمانڈوز کی تعداد 20 سے 25 ہزار ہے۔ حالیہ دنوں میں افغان صوبہ قندھار میں ہونے والی گھمسان کی لڑائی میں ان کمانڈوز نے ہی حصہ لیا تھا۔ طالبان نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے صوبہ قندھار میں پاکستان کی سرحد سے ملحقہ علاقہ اسپن بولدک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، تاہم بعد میں افغان فورسز نے طالبان سے یہ علاقہ واگزار کرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے قبضہ کے بعد ملک میں بدانتظامی اور کرپشن میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجہ ملک میں امریکی ڈالرس کی ریل پیل تھی۔ بہت سے افغان وار لارڈس اور ملیشیاز نے اپنے لوگ افغان فورسز میں بھرتی کرائے اور بہت سے گھوسٹ فوجی بھی بھرتی ہوئے۔ طالبان کے ساتھ حالیہ لڑائی میں 20 سے 25 ہزار افغان کمانڈوز ہی دلیری سے لڑ رہے ہیں جو باقاعدہ تربیت یافتہ ہیں ورنہ دیگر فوجی یا تو ہتھیار ڈال رہے ہیں یا طالبان کی تیزی سے ہونے والی پیش قدمی کے باعث مزاحمت سے گریز کر رہے ہیں۔ 2017 میں امریکہ کے افغانستان سے بتدریج فوجی انخلا کے بعد افغان فوج میں کمزوریاں سامنے آنے لگی ہیں۔ جہاں تک افغان فورسز کو دوبارہ منظم کرنے کا سوال ہے، جب ایک مرتبہ فوج میں سرینڈر کی روایت پڑجائے تو دوبارہ ان کا مورل بلند کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ افغان فوج میں ایسے فوجی بھی ہیں جو جوش و جذبے کے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں لیکن جب سرینڈر کا سلسلہ شروع ہو جائے اور دوسری طرف طالبان کی طرح کا دشمن ہو تو فوج کو دوبارہ منظم کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
اب تو امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے بھی اعتراف کر لیا ہے کہ طالبان افغانستان کے آدھے سے زیادہ ضلع مراکز پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ لہٰذا آنے والے مہینے افغان حکومت کی قیادت اور عزم کا امتحان ہوں گے۔ 2001 میں امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج کے افغانستان پر حملہ کے بعد ملک پر طالبان کی حکومت کے خاتمہ کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے وقت کے ساتھ ساتھ طالبان کی طاقت میں دوبارہ اضافہ ہوا۔ اب جبکہ امریکہ کی افغانستان سے واپسی کا عمل مکمل ہونے کو ہے، طالبان سبک رفتاری سے ملک کے مختلف علاقوں پر قابض ہو رہے ہیں۔ فروری 2020 میں ہونے والے معاہدہ کے بعد ایک برس تک طالبان نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے شہروں اور فوجی چوکیوں پر حملے کرنے کے بجائے ٹارگٹ کلنگ کا راستہ اپنایا۔ ان کے شدت پسند نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، صرف ان کی حکمت عملی تبدیل ہوئی۔ ایک عالمی قوت کو 2 دہائیوں تک اپنے اوپر حاوی نہ کرنے والے طالبان کی حالیہ تیز رفتار پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ غیر ملکی افواج کی غیرموجودگی میں وہ کابل میں حکومت گرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ طالبان کی پیش قدمی اکثر فریقین کی سوچ سے زیادہ تیز ہے۔ اگر امریکی خفیہ اداروں کے تجزیے پر یقین کیا جائے تو موجودہ افغان حکومت امریکی افواج کے انخلا کے 6 ماہ بعد ہی گر سکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS