بھارت کے لئے دہشت گردی کا خطرہ: اسد مرزا

0
Image:ndtv.com

اسد مرزا

’’اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں ہندوستان کو ان ممالک میں سے ایک کے طور پر شناخت کیا گیا ہے، جہاں القاعدہ، آئی ایس آئی ایس اور آئی ایس کے پی جیسی دہشت گرد تنظیمیں اپنی موجودگی بڑھانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔‘‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی جانب سے القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (ISIS) کی عالمی کارروائیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ طالبان کی قیادت میں افغانستان میں دوبارہ منظم ہو رہی ہے، لیکن اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ القاعدہ(AQIS) کے تقریباً 200 جنگجو، جو کہ بنیادی دہشت گرد تنظیم کی جنوبی ایشیا پر مرکوز شاخ ہیں، اب بھی سرگرم ہیں اور جو جموں و کشمیر، بنگلہ دیش اور میانمار میں کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، رپورٹ کے مطابق۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہAQIS کشمیر آپریشنز کے لیے ایک الحاق کو تیار کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ طالبان کے زیر اقتدار افغانستان کے عالمی دہشت گردی کا مرکز بننے پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کرتی ہے، جہاں اس کے مطابق تقریباً 20 کے قریب عسکریت پسند گروپ کام کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں اپنا نیٹ ورک تیار کرتے ہوئے، اسلامک اسٹیٹ یعنی ISکے حامی ہندوستان سے باہر جہادی تنظیموں میں شامل ہونے کے لیے بھرتی بھی کرتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 200 کے قریب ہندوستانی نوجوان اب تک AQIS میں شامل ہوچکے ہیں، ان میں سے قابل ذکر تعداد کا تعلق کیرالہ سے ہے۔ اگرچہ ہندوستان کی بڑی مسلم آبادی کو دیکھتے ہوئے یہ تعداد حیرت انگیز طور پر کم نظر آسکتی ہے، لیکن AQISان افراد کا استعمال کرکے گھریلو نیٹ ورک کو فروغ دینے اور ان کا شام اور افغانستان میں تنظیم کے ساتھ مشورے اور رابطے کا ایک اہم ذریعہ بنانے کے لیے کوشاں ہے، لیکن یہاں خطرہ کثیر تنظیمی ہے، نہ صرف طالبان یا تحریک طالبان پاکستان (TTP) سے ہے، بلکہ اسلامک اسٹیٹ خراسان صوبہ (ISKP) سے بھی ہے، جو افغانستان میں ایک غالب دہشت گرد تنظیم کے طور پر ابھررہا ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کی جنوبی ایشیا میں موجودگی صرف افغانستان اور پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ ہندوستان، بنگلہ دیش، میانمار، مالدیپ اور سری لنکا تک پہنچ چکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، القاعدہ افغانستان کو ایک نظریاتی اور لاجسٹک مرکز کے طور پر استعمال کرتی ہے، تاکہ نئے جنگجوؤں کو متحرک اور بھرتی کیا جا سکے اور خفیہ طور پر اپنی بیرونی آپریشنز کی صلاحیت کو دوبارہ تعمیر کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں القاعدہ کے 30 سے 60 سینئر ارکان موجود ہیں، جبکہ ملک میں القاعدہ کے تمام جنگجوؤں کی تعداد 400 بتائی گئی ہے۔ رپورٹ میں اسامہ محمود کوAQIS کانیاسربراہ ہونابھی بتایا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کا سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ القاعدہ طالبان حکومت کے ساتھ ’’قریبی اور علامتی‘‘ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اعلیٰ درجے کے طالبان افغانی حکومت کے عہدیداروں کی سرپرستی میں ہیں اور القاعدہ کے ارکان‘‘قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوامی انتظامیہ کے اداروں میں دخل اندازی کرتے ہیں‘‘، جس سے پورے افغانستان میں گروپ کے چھوٹے یونٹ کی حفاظت کو یقینی بنایاجاسکے۔ اگرچہ القاعدہ کی بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ حملے کرنے کی صلاحیت کم ہورہی ہے، لیکن ان کے لیے اس کا ارادہ پختہ ہے اور وہ اس سلسلے میں منصوبہ بندی کررہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ غیر افغان دہشت گرد گروپوں جیسے اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (IMU)، ترک اسلامک پارٹی (TIP) اور جماعت انصار اللہ کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔ دریں اثنا ٹی ٹی پی اور ISKP کے درمیان لفظی جنگ کی بھی اطلاع دی گئی ہے، جس میں دونوں ایک دوسرے پر علاقائی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ تعلقات رکھنے کا الزام لگاتے اور تنقید کرتے رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں دولت اسلامیہ عراق و شام اور خراسان صوبہ (ISIL-KP) کو ’افغانستان اور وسیع خطے میں دہشت گردی کا سب سے سنگین خطرہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ ISIL-KP نے درحقیقت حالیہ برسوں میں AQIS کے ساتھ قریبی روابط استوار کیے ہیں اور بھارت و پاکستان سے بھرتی ہونے والے بہت سے افراد نے اس دہشت گرد نیٹ ورک کے لیے کام کیا ہے۔ ہندوستانی حکومت کے لیے، سب سے زیادہ تشویشناک پہلو AQIS کی ہندوستان اور کشمیر کو نشانہ بنانے کی خواہشات ہیں، جو 2010 کے بعد سے اس کے ریڈار پر ہے۔ تاہم، اقوام متحدہ کی 2017 کی ایک اور رپورٹ کے مطابق، القاعدہ کشمیر کے تھیٹر میں کوئی خاص قدم نہیں جما سکی ہے۔ نیا خطرہ، جیسا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ سے ظاہر ہے، دہشت گرد گروپ کی طرف سے اپنے نیٹ ورک کو دوبارہ متحرک کرنے کی ایک نئی کوشش ہو سکتی ہے۔ تاہم واشنگٹن میں قائم یونائٹیڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس- (USIP) کی ایک دوسری رپورٹ کے مطابق اسلامک اسٹیٹ ہندوستان میں بڑی تعداد میں حامیوں کو لیونٹ کے مختلف ممالک کی طرف ہجرت کرانے یا ہندوستان میں ہی انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے لیے متحرک کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہی ہے۔ گروپ کی ہندوستان میں موجودگی جموں اور کشمیر کے ہندوستان کے زیر انتظام علاقے میں سرگرم اسلامک اسٹیٹ کے حامی گروپوں کے قیام کے ساتھ شروع ہوئیں۔ جولائی 2017 میں، ان حامیوں نے ’’اسلامک اسٹیٹ ان جموں اینڈ کشمیر‘‘ (ISJK) کا نام لیا، لیکن USIP رپورٹ کے مطابق، مئی 2019 تک اسلامک اسٹیٹ نے باضابطہ طور پر ہندوستان میں ایک الگ صوبہ قائم کیا، جس میں کشمیر بھی شامل تھا۔ یو ایس آئی پی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ AQIS-ISIL-KP کا گٹھ جوڑ پہلے ہی بھارت میں اپنے قدم جما چکا ہے۔ اس دہشت گرد نیٹ ورک نے کیرالہ کے کچھ نوجوانوں کو اپنی تنظیم میں شامل کرنے میں کامیابی بھی حاصل کی ہے جو کہ پہلے لاپتہ ہو گئے تھے اور پھر ان کے داعش میں شامل ہونے کی اطلاع ملی۔ اسی طرح، بہت سے نوجوان جنہیں 2013 سے 2016 کے درمیان مختلف مقامات جیسے یوپی، گجرات، دہلی اور اڈیشہ سے گرفتار کیا گیا تھا، وہ AQIS کے رکن ہونے والے تھے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اگر افغانستان میں اپنے آپریٹنگ بیس کو برقرار رکھتی ہے تویہ علاقائی خطرہ بن سکتی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوںکی بڑی آبادی کے باوجود، خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم حملے دیکھنے کی ایک وجہ ہندوستان کی انسداد دہشت گردی کی صلاحیتیں ہیں، جن میں 2008 کے ممبئی حملے کے بعد کافی حد تک بہتری آئی ہے۔ ستمبر 2021 میں ہندوستان ٹائمز کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کی انسداد دہشت گردی ایجنسی، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے مطابق 37 مقدمات میں 168 افراد پر اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ وابستگی کا الزام ثابت ہوا ہے۔ اگرچہ یہ تعداد ہندوستان کی مسلم آبادی کے مقابلے میں بہت کم لگ سکتی ہے، لیکن یہ کمیونٹی اور حکومت کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ اس سے ملک میں بنیاد پرستی کا خدشہ بڑھتا ہے۔ یو ایس آئی پی رپورٹ بتاتی ہے کہ بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستیں سیاسی تکثیریت اور اقلیتوں کے احترام کو فروغ دے سکتی ہیں۔ حکومتی پالیسیاں جو اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کرتی ہیں، انھیں پسماندہ بناتی ہیں اور یہاں تک کہ پرتشدد طریقے سے دباتی ہیں، ان ممالک میں گھریلو خلفشار شروع ہونے اور اقلیتی افراد کے AQIS، IS جیسی تنظیموں کے ساتھ وابستگی میں اضافہ رونما ہوتا ہے۔ جیسا کے ہندوستان میں گرفتار ہوئے کچھ نوجوانوں سے معلوم ہوا کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کی طرف دیکھتے ہیں تاکہ اقلیتوں کی حفاظت کرنے میں انہیں کچھ مدد مل سکے ۔ ایسی پالیسیوں سے وابستہ خطرات کو کم کرنے کے لیے، ہندوستان کو تمام اقلیتوں کا احترام کرتے ہوئے سیاسی اور مذہبی تکثیریت کو فروغ دینا چاہیے۔ساتھ ہی یہاں پر یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ اگر 2021 میں افغانستان میں انخلاء سے پہلے امریکی فوجیوں نے افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کو پورے طریقے سے ختم کردیا ہوتا تو آج یہ صورتِ حال قائم نہیں ہوتی۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS